ایک پولیس افسر کا کہنا ہے کہ پولیس مقابلے قیامت تک ہوتے رہیں گے۔ اِس کی وجہ اُنھوں نے یہ بتائی ہے کہ کوئی شخص بھی خطرناک قاتلوں اَور ڈاکوؤں کے خلاف گواہی دینے پر تیار نہیں ہوتا۔ ہمیں پولیس مقابلوں پر تو کوئی خاص اعتراض نہیں ‘ ویسے بھی ہم اعتراض کر کے پولیس کے مقابلے پر نہیں آنا چاہتے؛لیکن ڈرتے ڈرتے یہ ضرور عرض کریں گے کہ پولیس‘ اِن مقابلوں کی جو کہانی سناتی ہے‘اُس پر اَب ّبچے بھی یقین نہیں کرتے۔ یہ کہانی کچھ ُیوں ہوتی ہے: " پولیس اہل کار ملزموں کو ایک جگہ سے دُوسری جگہ لے جا رہے تھے کہ راستے میں ملزموں کے ساتھیوں نے اُنھیں چھڑانے کے لیے پولیس پر حملہ کر دیا۔ چنانچہ پولیس اَور ملزموں کے ساتھیوں میں مقابلہ شروع ہوگیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملزموں کے ساتھی اَندھا دُھند فائرنگ کرتے ہوئے بھاگ گئے مگر پولیس والوں کو خراش تک نہ آئی۔ گرد َچھٹی تو پتا چلا کہ ملزم اپنے ہی ساتھیوں کی گولیوں سے ہلاک ہو چکے ہیں ۔ـ" ایسے ہی کسی موقع پر شا ِعر نے کہا تھا : دیکھا جو کھاکے تیر کمیں گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی اس کہانی پر پہلا اعتراض یہ ہو سکتا ہے کہ جن لوگوں کو ملزموں کے ساتھی کہا جاتا ہے‘وہ بظاہر پولیس کے ساتھی اَور ملزموں کے دشمن د ِکھائی دیتے ہیںکیونکہ اُن کی گولیوں سے پولیس والوں کے بجائے ملزم ہلاک ہوتے ہیں۔ دُوسرا یہ کہ پولیس ایک عرصے سے یہی ِگھسی ِپٹی کہانی دُہرائے جا رہی ہے حالانکہ اِس سے کہیں بہتر‘ اوریجنل کہانیاں گھڑی جا سکتی ہیں۔ اِس سلسلے میں ہماری رائے یہ ہے کہ پولیس کا محکمہ کسی کہانی نویس کی خدمات حاصل کرلے اَور ہر مقابلے سے قبل اُس سے ایک طبع زاد کہانی ِلکھوا لیاکرے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ڈی ایس پی(لیگل) کی طرز پر ڈی ایس پی(فکشن) کا مستقل شعبہ بنا لیا جائے۔ یہ ڈی ایس پی صاحب پولیس مقابلوں کے لیے ایسی کہانیاں تیار کروایا کریں جن پر افسانوی ہونے کے باوجود حقیقت کاگمان گزرے۔ اگر پولیس والے پسند کریں تو ہم اپنے افسانہ نویس دوست جناب دروغ گویائی کی سفارش کریں گے کہ ُوہ اِن د ِنوں ملازمت کی تلاش میں ہیں۔ اُنھیں زمین آسمان کے قلابے ِملانے اَور ُجھوٹ کو سچ ثابت کرنے میں ید ِ ُطولیٰ حاصل ہے۔ ایسے شخص کے لیے پولیس سے بہتر محکمے کا تصو ّر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں یقین ہے کہ اُن کی لکھی ُہوئی کہانیاں اِس قدر د ِلچسپ ُہوا کریں گی کہ محض ُوہ کہانیاں سننے کے لیے لوگ پولیس پر زور دیا کریں گے کہ پولیس مقابلے جلد جلد کروائے جائیں… ایسے پولیس مقابلوں کی خبریں جگمگاتی شہ ُسرخیوں کے ساتھ شائع ُہوا کریں گی! دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ وُہ ہماری خدمات حاصل کریں۔ ہم اگرچہ کہانی نویس یا کہانی ساز نہیں ہیں لیکن پھر بھی پولیس کی ُمرو ّجہ کہانی سے بدرجہا بہتر کہانی تخلیق کر سکتے ہیں۔ جو شخص کالم لکھ سکتا ہے وُہ ہر قسم کا جھوٹ بول سکتا ہے۔ ذیل میں نمونے کے َطور پر ہم ایک کہانی پیش کر رہے ہیں… پولیس والے چاہیں تو (ہمیں مناسب معاوضہ اَدا کر کے) اگلے پولیس مقابلے کے لیے، معمولی رد ّوبدل کے ساتھ یہ کہانی اِستعمال کرسکتے ہیں: "کل پولیس تین ّمبینہ ڈاکوؤں اَور خطرناک قاتلوں( سلیم عرف چھیما‘ثقلین عرف ساقی اَور گاما ہتھ ُچھٹ) کو دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرنے کے بعد ‘ وین میں سنٹرل جیل لے جارہی تھی کہ ایک حسین و جمیل دوشیزہ‘ اِنتہائی لاپروائی سے پجارو گاڑی چلاتے ہوئے‘ مین روڈ پر چڑھی اَور پولیس َوین سے ٹکرا گئی۔ سنہری بالوں والی اُس حسینہ نے کالے شیشوں والی اِنتہائی دیدہ زیب عینک لگا رکھی تھی۔ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے ہونے والے شور کی تاب نہ لاتے ہوئے ُوہ بے ہوش ہو گئی۔ پولیس اہل کاروں نے گھبرا کر گاڑی سے چھلانگیں لگا دیں۔ اُنھوں نے پجارو کا دروازہ کھولا تو حسینۂ نازنیں کو بے ہوش دیکھ کر اُن کے اپنے ہوش اُڑ گئے۔ ُوہ صورت سے کسی بہت بڑے پولیس آفیسر کی بیٹی لگ رہی تھی۔ اُنھوں نے ایک دُوسرے کی مدد سے اُسے اُٹھایا اَور سڑک کے ِکنارے لان میں َہری َہری گھاس پر ِلٹا دیا۔ ایک اہل کار اُس کے ُمنہسے ُمنہ ِملا کر اُس کے پھیپھڑوں میں َہوا بھرنے لگا۔ دو اہل کاروں نے اُس کے ہاتھ َ ملنا شروع کر دیے( ایک نے دایاں،ایک نے بایاں) ۔ ایک اہل کار خاتون کے ہاتھ کو ہاتھ سے نکلتے دیکھ کرکف ِ افسوس َملنے لگا۔ ایک نے پائوں پر اِکتفا کی اور پائوں کی تلیاں مل کر بے ہوش خاتون کی مدد کرنے لگا۔ اِتنے میں ثقلین عرف ساقی وین سے نکلا۔ وہ پولیس اہل کاروں کو پیچھے ہٹا کر خاتون کی جانب بڑھا اَور اُسے دیکھتے ہی َسر پیٹنے لگا۔ پولیس والوں کے اِستفسار پر اُس نے بتایاکہ ’’یہ خاتون تو میری ُمحبوبہ ہے اَور غالباً ہمیں آپ لوگوں کی حراست سے چھڑانے کے لیے اِس نے یہ خطرناک کھیل کھیلا ہے… اِس کا نام اَلماس ہے۔ یہ چند سال پہلے اُس بازار میں رہا کرتی تھی‘لیکن اَب لاہور کے ایک پوش علاقے میں رہتی ہے جبکہ دھندا وہی کرتی ہے‘‘۔ اُس نے مزید بتایا کہ’’ میں نے اکثر وارداتیں اِس خاتون کی فرمائشیں پوری کرنے کے لیے کی ہیں جن میں قتل کی چھے وارداتیں بھی شامل ہیں‘‘۔ اِتنے میں خاتون نے آنکھیں کھولیں اَور اِدھر اُدھر دیکھنے کے بعد اُٹھ بیٹھی۔ ’’پانی… پانی!‘‘ اُس حسینہ نے نحیف سی آواز میں کہا توایک نوجوان پولیس اہل کار‘ ایک قریبی ریستوران کی طرف بھاگا۔ گھبراہٹ کے عا َ ـلم میں ُوہ اپنی رائفل وہیں چھوڑ گیا۔ اچانک خاتون اُٹھی اَور مشرق کی طرف بھاگ کھڑی ُہوئی۔ دو پولیس اہل کار اُسے پکڑنے کے لیے دوڑے۔ ایک اہل کار وہیں کھڑا رہا۔ اِس اَثنا میں سلیم عرف چھیما اَور گاما َہتھ ُچھٹ بھی َوین سے نیچے اُتر آئے۔ گامے نے پولیس اہل کار کو تنہا پا کر‘ اُسے قابو کر لیا اَور چھیمے نے اُس سے رائفل چھین لی۔ ساقی نے زمین پر پڑی ُہوئی رائفل اُٹھائی اَور پھر تینوں َہوائی فائرنگ کرتے ہوئے اُسی طرف بھاگ نکلے جدھر حسینہ گئی تھی۔ عین اُس موقع پر وہاںڈولفن پولیس بھی آپہنچی۔ ڈاکوؤں کو بھاگتے دیکھ کرپولیس نے فائرنگ شروع کر دی۔ اِس پر اُن تینوں ڈاکوؤں نے ایک نشیبی جگہ پر مورچا بنا لیا اَور پولیس پر فائرنگ کرنے لگے۔ اَب باقاعدہ پولیس مقابلہ شروع ہو گیا ۔ پولیس نے میگا فون پر اعلان کیا کہ تینوں ملزم پولیس مقابلے کا خیال چھوڑ کر خود کو اُن کے حوالے کر دیں‘لیکن اُنھوں نے فائرنگ جاری رکھی۔ اُن کی کئی گولیوں نے پولیس کی گاڑی کو شدید زخمی کر دیا لیکن ُوہ کسی پولیس اہل کار کو گولی کا نشانہ نہ بنا سکے۔ مقابلہ شروع ہوئے پندرہ بیس منٹ ہوئے تھے کہ ڈاکوؤں کی طرف سے فائرنگ بند ہو گئی۔ کافی دیر اِنتظار کرنے کے بعد پولیس والے ُپھونک ُپھونک کر قدم رکھتے ہوئے آگے بڑھے۔ قریب جا کر معلوم ُہوا کہ تینوں ڈاکو پولیس کی گولیوں سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ پولیس مقابلے کی اَفراتفری سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ُوہ خاتون گاڑی بھگا لے گئی۔ لاہور کے ایس ایس پی نے پولیس اہل کاروں کو اِس کامیاب مقابلے پر مبارک باد دی ہے اَور اُن کے لیے ترقی اَور اِنعام کا اعلان بھی کیا ہے۔" کہیے کیسی رہی یہ کہانی!