کاز یعنی اصول اور مقصد بھی نظریہ ارتقاء کے تحت اپنی شکل بدلتا رہتا ہے۔ سچ پوچھیے تو یہ ایولوشن سے زیادہ Law of Decayکے دائرہ میں نظر آتا ہے۔ فلسطینی کاز اس کی دردناک مثال ہے اور اس کاز کے ’’ارتقا‘‘ میں اپنوں اور غیروں‘ سبھی نے حصہ لیا ہے۔ قدرت کا ’’لا آف ڈیٹرمنیشن‘‘ شاید انہی عناصر سے عبارت ہے جو فلسطینی کاز کو گھیرے ہوئے ہیں۔ فلسطین حضرت عمرؓ کے دور سے انگریز وںکے دور تک‘ تیرہ سو سال کے سارے عرصے میں فلسطینیوں کا حصہ رہا۔اسرائیل تو رومن دور ہی میں غتربود ہو کر قصہ ماضی بن گیا تھا۔ یہودیوں نے اسی دور میں اپنی ہجرت شروع کر دی تھی اور یورپ و افریقہ میں ’’ڈایا سپورا‘‘ وجود میں آ چکا تھا۔ اسلامی سلطنت کا حصہ بننے کے بعد یہاں کے لوگوں نے اسلام قبول کیا‘ یہودی اقلیت تھے‘ مزید اقلیت ہو گئے۔ فلسطین میں اکثریت روایتی فلسطینیوں کی اور عربوں کی ہو گئی۔ انگریزوں نے پہلی جنگ عظیم کے بعد دوسرے علاقوں کے ساتھ فلسطین بھی عثمانی سلطنت سے چھین لیا اور دوسری جنگ عظیم کے بعد فلسطین پر دو قومی نظریہ نافذ کر دیا یعنی فلسطین کا بڑا حصہ جو 60فیصد بنتا تھا‘یہودیوں کو دے دیا کہ اسرائیل کی قدیم سلطنت پھر سے بحال کر لیں۔اعلان بالفورکے تحت فلسطینیوں کو چار علاقے دیے گئے۔ غزہ کی لمبی پٹی جو موجودہ غزہ سے دوگنی لمبی تھی‘ غزہ کے جنوب مشرق میں صحرائے نجف NEJEVکا ایک بڑا ٹکڑا جو سویز کی سرحد کے ساتھ ساتھ دور تک چلا گیا‘ مغربی اردن کا سارا کنارہ بشمول بیت المقدس جو موجودہ مغربی کنارے سے ڈیڑھ گنا بڑا تھا اور چوتھا علاقہ لبنانی سرحد سے ملحق تھا اور غزہ سے دو گنا بڑا تھا۔ یہ علاقہ مغربی کنارے سے جڑا ہوا تھا اور ایک وحدت بناتا تھا۔ غزہ کی پٹی اور اس کے جنوب مغرب کا علاقہ مل کر دوسری وحدت بناتے تھے۔ فلسطین اور مسلمانوں نے یہ فارمولا مسترد کر دیا۔ کاز یہ تھا کہ سارے کا سارا فلسطین ہمارا ہے۔1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے غزہ سمیت تمام وہ علاقے فلسطینیوں سے چھین لئے جو انگریزوں نے انہیں دیے تھے‘ ساتھ ہی مصر کا سینائی(سویز) بھی قبضہ میں لے لیا۔ فلسطینی کاز کی شکل اب بدل گئی اور یہ ہو گئی کہ مقبوضہ علاقے واپس کئے جائیں۔1973ء کی جنگ میں پہلے ہلے میں مصر نے سویز کا مغربی علاقہ آزاد کرا لیا لیکن جوابی حملے میں اسرائیل کی فوج مصر کے مین لینڈ میں داخل ہو گئی۔خلیج قلزم کے ساحل سے مصر کے اندرونی صحرا تک پہنچ گئی اور شمال میں بحیرہ روم کے ساحل پر واقع اسکندریہ پر بھی یلغار کر دی اسکندریہ ختم ہونے کے قریب تھا کہ صدر سادات نے گھٹنے ٹیک دیے اور امریکہ نے اس شرط پر مصر کو بچایا کہ وہ اسرائیل کا وجود تسلیم کر لے گا اور فلسطین کا وہ حل مان لے گا جو امریکہ اسے بتائے گا چنانچہ طویل مذاکراتی عمل کے بعد 78ء میں ’’دو قومی‘‘ معاہدہ ہوا جس میں طے پایا کہ غزہ کی آدھی پٹی فلسطین کو ملے گی‘ صحرائے نجف سارے کا سارا اسرائیل کے پاس رہے گا‘ لبنانی سرحد سے ملحق بڑا رقبہ بھی فلسطین کو نہیں دیا جائے گا اور مغربی کنارہ کا کچھ حصہ اسرائیل کو باقی فلسطینیوں کو ملے گا۔ یوں غزہ اور مغربی کنارے پر مشتمل ایک ملک بننا تھا لیکن یہ ملک نہیں بنا‘اس کے بدلے میں فلسطینی اتھارٹی بن گئی جو فوج رکھ سکتی تھی نہ ٹینک اور نہ طیارے۔ ایک قسم کی بلدیہ۔بیت المقدس اسرائیل کو دے دیا گیا۔ اب فلسطین کاز نے تیسری شکل اختیار کی۔یہ کہ جو علاقے ہمیں دینے کا وعدہ کیا تھا۔ان پر ہماری حکومت بننے دو اور بیت المقدس پر بھی ہمارا حق مانو۔ اسرائیل نے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ مسخ کر کے رکھ دیا اور اس کے لئے بہانہ یہ بنایا کہ حماس نے یہ معاہدہ ختم کر دیا ہے۔ بعدازاں اس نے مغربی کنارے کی کانٹ چھانٹ شروع کر دی۔ اس کے کئی ٹکڑے کر دیے اور پورے مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کا جال اس طرح بچھایا کہ فلسطینیوں کی آبادیاں ایک دوسرے سے کٹ کر رہ گئیں۔ جابجا اونچی دیواریں کھڑی کر دیں۔ مغربی کنارے کی مشرقی سرحد اردن سے ملتی تھی‘ وہ ختم کر دی اور اب تین حصوں میں بٹا مغربی کنارہ چاروں طرف سے اسرائیل کے اندر ہے اور مزید یہودی بستیوں کی تعمیر جاری ہے۔بیت المقدس کو دارالحکومت بنا کر اس نے اس کی’’مشترکہ حیثیت‘‘ بھی ختم کر دی۔ اب مغربی کنارے کا کوئی تعلق بیت المقدس سے نہیں ہے۔ فلسطین کا 1947ء کا ‘پھر اسرائیل کا 1948ء کا نقشہ دیکھیں جس میں فلسطینی علاقے دکھائے گئے ہیں۔ پھر 1967ء کا اور اس کے بعد مابعد 73ء کا اور پھر وہ نقشہ دیکھیں جو کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد وجود میں آیا۔ ہر بار ’’کاز‘‘ والوں نے نئے حالات کو ‘ نئے نقشے کو تسلیم کیا۔ جملہ ارتقائی مرحلے طے کرتے کرتے اب فلسطین اس مرحلے میں آ گیا ہے کہ ماضی کے تمام مطالبات ختم ہو گئے اور نیا مطالبہ یہ ہے کہ اسرائیل مغربی کنارے سے مزید علاقے نہ چھینے اور غزہ پر بمباری بند کرے۔غزہ پر بمباری بند ہوتی ہے تو حماس اسے اپنی فتح قرار دیتی ہے۔ ارتقا نے ’’فتح‘‘ کے معنے بھی بدل دیے۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ میں زبردست خطا ب کیا اور مظلوم فلسطینیوں پر یہودیوں کے بہیمانہ مظالم کی کماحقہ‘ مذمت کی۔ میاں اسرائیل‘ بے چارے غزہ والے کونوں کھدروں میں بیٹھے دہی سے روٹی کھاتے ہیں‘تمہارا کیا لیتے ہیں‘کیوں ان پر گولے بم برساتے ہو۔غور فرمائیے‘ کشمیر کاز بھی کہاں آ پہنچا۔ فلسطین کے ساتھ’’ہم کاز‘‘ ہو گیا۔ ہمارا مطالبہ ان کے لئے بھی وہی ہے جو فلسطین کے لئے ہے۔