ان سے ایک دوست کے ولیمے پرملاقات ہوئی تھی میں تقریب میں غلطی سے وقت پر پہنچ کر بور ہورہا تھا اور وہ بھی میرے ہی طرح بیزار بیٹھے ہوئے تھے۔ دونوں کا دکھ ساجھا تھا اس لئے جب ایک دو بار نظروں سے نظریں ملیں تو میں وقت گزارنے کے لئے انکے پاس آکر بیٹھ گیااور پھرتعارف اور رسمی گفتگو کے بعد بات چلی تو سیاست پر آکر ٹھہر گئی۔ وہ اسسٹنٹ پروفیسر باچا خان کی فکر کے پیروکاراورپختونستان کے حامی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پشتون ثقافتی تہذیبی اعتبار سے ایک الگ قوم ہیں ۔حالا ت کے جبر نے انہیں ’’یہاں اور وہاں ‘‘ پاکستان اور افغانستان میں تقسیم کر رکھا ہے ،میں سنتا رہا اور چپ رہا ۔۔۔ وہ جانے کیا کچھ کہتے رہے میں چپ رہا ۔جب انہوںنے یہ کہا کہ اگر مجھے اسرائیل اور انڈیاکی شہریت بھی ملے تو میں چلا جاؤںتو مجھ سے چپ نہیں رہا گیا،میں نے پروفیسر صاحب کے منہ سے نکلنے والے دھوئیں کی زد سے بچنے کے لئے اپنی کرسی پیچھے کھسکائی اور گلا کھنکار کرکہا’’ پاکستان میں گنوائے جانے والے سارے عیب تو وہاں تھوک کے حساب سے پائے جاتے ہیں ،بھارت کون سا آئیڈیل ہے ‘‘۔ ’’نہ ہو آئیڈیل لیکن وہاں کوئی اقتدار پر ڈاکا تو نہیں مارتاوہاں کوئی ایسا موٹر وے یا کشمور نہیں جہاں بچوں کے سامنے ماں کا ریپ ہو جہاں ماں چھوٹی سی بچی کو جنسی درندوں کے پاس گروی رکھ کرنکلے۔۔۔‘‘پروفیسر صاحب نے پہلو بدل کر دلائل دیئے اور دوسری سگریٹ سلگا لی ۔ میں نے عرض کیا’’ پروفیسر صاحب !آپ یقینا ناراضی کے اشتعال میں ایسا کہہ رہے ہوں گے ورنہ آ پ جیسا وسیع المطالعہ شخص کس طرح یہ کہہ سکتا ہے ،بھارت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے لے کراقلیتوں کو دبانے تک میں،ہر منفی شعبے میں ٹرافی اٹھائے ہوئے ہے ،اسے اقلیتوں کے لئے بدترین ملک پاکستان نے قرار نہیں دیا،انسانی حقوق کے حوالے سے تنقیدکوئی اور نہیں اسکا دوست امریکہ کرتا ہے اورآپ کو موٹروے کا سانحہ یاد ہے کشمور میں جو انسانیت سوز واقعہ ہوا وہ بھی یاد ہے مگر آپ کشمور کے اس شیر جوان پولیس اہلکار کو کیسے بھول گئے جس نے اپنی سگی بیٹی کی زندگی خطرے میں ڈال کر ان غلیظ بدمعاشوں پر ہاتھ ڈالا ،ایسا جگرا کون رکھتا ہے اورآپ اجازت دیں تو میں بھی کچھ عرض کروں؟‘‘ ’’جی،جی ،ہم بات ہی کر رہے ہیں لیکنذرا یہ بتایئے گا کہ یہاں جنسی درندگی کے واقعات زیادہ ہیں یا وہاں ۔۔۔وہ سو کروڑ کی آبادی کا ملک ہے ‘‘ ’’جی ،جی اور اسی سو کروڑ کی آبادی کے ملک میں اقلیتوں کی عصمتیں محفوظ ہیں نہ زندگیاں ،اتفاق کی بات ہے کل ہی میں ’’انڈیا لیگل ‘ ‘نامی ویب سائیٹ پر Rape country: No woman is safe in India اسٹوری پڑھ رہا تھا۔پریانکا پائل نامی کسی رپورٹر کی اسٹوری تھی ،صرف جولائی 2020 میں وہاں نیشنل کمیشن فار ویمن کو 2914شکایات موصول ہوئیں یعنی ہر روز 97شکایات رجسٹر ڈ ہوئیں مجھے یاد پڑتا ہے 2018 ء میں ہندوستانی دارالحکومت دہلی کو کسی اور نے نہیں ہندوستانی میڈیا ہی نے The Rape Capitalکا نام دیا تھا،کسی اور ملک کو چھوڑیں بھارت کے اندر ہی سے انڈیاٹائمز نے گواہی دی تھی کہ نئی دہلی میں ہر روز پانچ خواتین کی عصمت دری ہوتی ہے اور جوعزت کے ڈر سے سرجھکا کر چلی جاتی ہیں ان کا کسی کو نہیں پتہ ‘‘۔ میرے دلائل نے پروفیسر صاحب کو بدمزہ کرنا شروع کر دیا تھا وہ جو پاکستان میں ہونے والے جرائم کو دلیل کے طور پر استعمال کررہے تھے اب کہنے لگے جرائم کہاں نہیں ہوتے ا نکی سو کروڑ کی آبادی ہے جرائم کی شرح دیکھیں، آٹے میں نمک کے برابر ہو گی ۔۔۔‘‘ ’’نہیں سر نہیں !ایسی اخیر یہاں بھی نہیں وہاں کمیونٹیوں کو ٹارگٹ بنایا جاتا ہے۔ اترپردیش ہاتھرس میں ابھی کیا ہوا ہے ؟ دلت لڑکی کی اجتماعی آبروریزی کی گئی گلا گھونٹ کر مار دیا گیا اور پولیس نے راتوں رات لاش جلا دی تاکہ کوئی ثبوت ہاتھ نہ لگے کیوں کہ مجرم اونچی ذات کے ہندو تھے۔ اچھااو ر ایک سوال کا جواب دیجئے کہ آپ نے اس پوری نشست میں پشتونوں کو مظلوم ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن میں کہتا ہوں کہ آپ نے جو کہا وہ ابھی بھی کم ہے۔ پشتون اس سے زیادہ مظلوم ہیں لیکن صرف پشتون نہیں یہاں جنوبی پنجاب کا چکر تو لگائیں غربت بچوں کی آنکھوں سے جھلکتی ہے ،آپ سندھ کے دیہی علاقوں کا رخ کریں تو آپ کو اندازہ ہو کہ افلاس کہتے کسے ہیں۔ میں نے کہیں نہیں پڑھا کہ کوئی پشتون عورت بھوک سے مرگئی ہو ،اسی سال اپریل میں جھڈو سے پینتالیس سالہ حاملہ خاتون کی بھوک سے ہلاکت کی جھنجھوڑ دینے والی خبر رپورٹ ہوئی ہے،بلوچستان کا اس حوالے سے اور برا حال ہے سر !بات یہ ہے کہ پاکستان میں دو ہی طبقے ہیں ایک حاکم اور دوسرا محکوم ،محکوم بلا رنگ ونسل کچلے جارہے ہیںیہاں محکوم بلا رنگ و نسل مظلوم ہیں کسی قوم کسی کمیونٹی کو ہدف نہیں بنایا جارہا ۔ میں نے پروفیسر صاحب سے عرض کیا ویسے بصد احترام یہ فرمایئے گا کہ آپ کی ساری ہمدردیوں کے مستحق صرف پاکستان کے مظلوم پشتون ہی کیوں ہیں،پشتون تو افغانستان میں بھی آباد ہیں انکا اوربرا حال ہے امریکی فوجی گھر کے گھر اجاڑ کر فرینڈلی فائر کا نام دے کر ہاتھ جھاڑ لیتے ہیں ۔آپ نے ایک بار بھی وہاں ہونے والے مظالم کا ذکر نہیں کیا اور پشتون تو بھارت میں بھی آباد ہیں ،رام پور تو یوسف زئی پشتونوں سے بھرا ہوا ہے یہ وہی ہیں جنکے آباواجداد نے تقسیم سے پہلے کے ہندوستان میں ہجرت کی تھی وہ آج بے شک کاغذوں میں بھارتی شہری ہیں لیکن ان کا خون تو پشتون ہے ناں ان بیچاروں کے لئے ہمارے قوم پرست پشتون سیاست دان کیوں زبان نہیںہلاتے۔ اتر پردیش کے ڈاکٹر کفیل خان بھی پشتون النسل ہے انسانی حقوق کے اس کارکن کی گرفتاری پر میں نے کسی پشتون قوم پرست پلیٹ فارم سے تنقید نہیں سنی۔۔‘۔‘میرے اس سوال پر پروفیسر صاحب نے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا ’’کھانا کھا لیں کھانا کھل گیا ہے ۔۔۔‘‘۔