اسلام آباد (خبرنگار ،مانیٹرنگ ڈیسک) کابینہ کی کمیٹی برائے قانون سازی نے صنفی بنیاد پر تشدد کی روک تھام سے متعلق دو آرڈیننس کی منظوری دیدی،مجوزہ آرڈیننس کے تحت زنا بالجبر کے مقدمات کیلئے عدالتیں قائم کی جائیں گی اور مقدمات کے فوری اندراج کے لیے سیل بنایا جائے گاجبکہ ملکی ریپ کی تعریف تبدیل کر کے گینگ ریپ کی اصطلاح بھی شامل کر دی گئی۔ وزیر قانون کی زیر صدارت قانون سازی سے متعلق کابینہ کی کمیٹی نے دو آرڈیننس کی منظوری دی۔ مذکورہ قوانین پاکستان کی قانون سازی کی تاریخ اور ملک بھر میں خواتین، لڑکیوں اور بچوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کا ایک اہم لمحہ ہے ۔ وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر بیرسٹر فروغ نسیم، پارلیمنٹری سیکرٹری ملیکا بخاری، لاسیکرٹری راجہ نعیم اکبر اور کنسلٹنٹ بیرسٹر امبرین عباسی پر مشتمل ٹیم نے اینٹی ریپ آرڈیننس 2020 اور کریمنل لا ترمیمی آرڈیننس 2020 کو حتمی شکل دی ۔ یہ قوانین خواتین اور بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور جنسی استحصال کے جرائم میں ملوث افراد کی گرفتاری کے لئے طریقہ کار مہیا کرتے ہیں۔ "انسداد عصمت دری (انوسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) آرڈیننس 2020" کے مسودے کی نمایاں خصوصیات میں خصوصی عدالتوں کا قیام، کمشنر یا ڈپٹی کمشنرز کی سربراہی میں اینٹی ریپ کرائسز سیلز تشکیل دیناجو ایف آئی آر، طبی معائنہ اور فرانزک تجزیہ وغیرہ کی فوری رجسٹریشن کو یقینی بنائے گی، اسکے علاوہ میڈیکل قانونی جانچ کے دوران عصمت دری کے شکار افراد کیلئے غیر انسانی اور دو انگلی کنوارے پن کی جانچ کو ختم کرنا، ملزم کے ذریعے زیادتی کا نشانہ بننے والے متاثرہ کی جانچ پڑتال پر پابندی لگانا اور صرف ججوں اور ملزموں کے وکلاء کو اجازت دینا، ان کیمرا ٹرائلز، گواہوں کو تحفظ فراہم کرنا، نادرا کے ذریعے جنسی مجرموں کے ڈیٹا بیس کی تیاری شامل ہیں۔ دوسرے آرڈیننس میں پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 375 میں ترمیم کر کے "عصمت دری" کی نئی تعریف کی گئی ہے جو ہر عمر کی خواتین اور 18 سال سے کم عمر کے مرد حضرات پر لاگو ہوگی، عصمت دری کے علاوہ گینگ ریپ کی اصطلاح بھی شامل کی گئی ہے ، پہلی بار یا عادی مجرموں کو نامرد بنانے کیلئے کیمیائی کاسٹریشن کا عمل متعارف کروایا جا رہا ہے ، یہ عمل رضامندی سے مشروط ہوگا۔