اسلام آباد(خبر نگار)عدالت عظمی ٰنے کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے ملک میں ہفتے اور اتوار کے روز کاروبار بند کرنے کے فیصلے کو آئین سے متصادم قرار دے کر کالعدم کردیا ہے اور ملک بھر میں چھوٹی مارکیٹیں ہفتے اور اتوار کو بھی کھلی رکھنے سمیت تجارتی مراکز( شاپنگ مالز) بھی کھولنے کا حکم دیا ہے ۔چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے این ڈی ایم اے کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اٹارنی جنرل پاکستان کو آج رپورٹ پر معاونت کیلئے طلب کرکے قرار دیا کہ اس قدر بھاری رقم صرف پی پی ایز پر کیوں خرچ ہورہی ہے ؟۔چیف جسٹس نے کورونا سے متعلق حکومتی پالیسی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عوام حکومت کی غلام نہیں،حکومت کہے گی تو عوام سو جائیں گی اور کہے گی تو اٹھ جائے گی،آئین نے عوام کو حقوق دیئے ہیں،ملک کی اکثریت غریب ہے مزدوری نہیں کریں گے تو کیا کھائیں گے ،صحت کی عالمی تنظیموں نے جو کہہ دیا اس پر آنکھیں بند کرکے عمل کیا گیا ،ملک کے اندر کسی نے خود حقائق جاننے کی کوشش نہیں کی۔اس وبا کے دو چار مہینے بعد بیروزگاری کا جو سیلاب آئے گا ،حکومت کو اس کا اندازہ نہیں،یہ صورتحال رہی تو عوام سڑکوں پر آجائیں گے پھر کس طرح انھیں روکیں گے کیا گولیاں ماریں گے ۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج صبح تک ملتو ی کرکے ملک کے اندر کاروبار کی بندش کو آئین کے آرٹیکل چار ،اٹھارہ اور پچیس کے خلاف قرار دیا ۔عدالت نے قرار دیا کہ،پنجاب ،خیبر پختون خواہ،بلوچستان اور گلگت بلتستان نے وفاقی حکومت کی اجازت سے تجارتی مراکز اور شاپنگ مال کھولنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ اسلام آباد وفاقی دارلحکومت میں بھی تجارتی مراکز کھول دیے گئے ہیں لیکن سندھ میں شاپنگ مال بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کا کوئی جواز نہیں۔ عدالت نے تمام مارکیٹوں اور شاپنگ مالز میں ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنا نے کی ہدایت کی اور قرار دیا کہ ایس او پیز پر عملدرآمد کے حوالے سے متعلقہ حکومتیں ذمہ دار ہوں گی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہمیں منطق بتائی جائے ، کیا وبا نے حکومتوں سے وعدہ کر رکھا ہے وہ پانچ دن نہیں آئے گی، کیا حکومتیں ہفتہ اتوار کو تھک جاتی ہیں، کیا ہفتہ اتوار کو سورج مغرب سے نکلتا ہے ۔ ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے موقف اپنایا کہ ہفتہ اور اتوار کو مارکیٹوں میں رش پڑ جاتا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا عید پر خریداری کیلئے رش تو ہوگا۔اٹارنی جنرل نے کہا بڑے بڑے شاپنگ مالز کو بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔چیف جسٹس نے کہا چھوٹی دکانوں کو کھلا رہنے دیں،کہیں ایسا نہ ہو کورونا سے بچ جانے والے لوگ بھوک سے مر جائیں،کراچی کی زینب مارکیٹ کو کھول دیں،زینب مارکیٹ غریب پرور مارکیٹ ہے ،مارکیٹ والوں سے رشوت نہ لیں اور نہ انھیں ماریں۔کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے این ڈی ایم اے کی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھائے اورچیف جسٹس نے کہا کورونا کے حوالے سے اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں، یہ کہاں جا رہے ہیں؟۔این ڈی ایم اے کے نمائندہ نے کہا ہمارے لیے 25 ارب مختص ہوئے ہیں، یہ تمام رقم ابھی خرچ نہیں ہوئی۔چیف جسٹس نے کہا 25 ارب تو آپ کو ملے ہیں صوبوں کو الگ ملے ہیں، احساس پروگرام کی رقم الگ ہے ، 500 ارب روپے کورونا مریضوں پر خرچ ہوں تو ہر مریض کروڑ پتی ہوجائے گا، یہ سارا پیسہ کہاں جا رہا ہے ؟ اتنی رقم لگانے کے بعد بھی اگر 600 لوگ جاں بحق ہو گئے تو ہماری کوششوں کا کیا فائدہ؟ کیا 25 ارب کی رقم سے آپ کثیر منزلہ عمارتیں بنا رہے ہیں؟۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہمارا ملک کورونا ٹیسٹنگ کٹ بنانے کی صلاحیت کیوں نہیں حاصل کر سکا، آپ کسی پر احسان نہیں کر رہے ، کورونا اس لئے نہیں آیا کہ کوئی پاکستان کا پیسہ اٹھا کر لے جائے ،ٹڈی دل کیلئے این ڈی ایم اے نے کیا کیا ہے ؟ٹڈی دل آئندہ سال ملک میں فصلیں نہیں ہونے دیگا،اربوں روپے ٹین کی چارپائیوں پر خرچ ہو رہے ۔ جسٹس قاضی محمد امین احمد نے کہا مجھے نہیں لگتا کورونا پر پیسہ سوچ سمجھ کر خرچ کیا جا رہا ہے ۔ دوران سماعت عدالت نے صحت کے سرکاری نظام میں نقائص کا بھی ذکر کیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ڈاکٹر ہمارے لیے محترم ہیں لیکن ڈاکٹرز میں بھی کالی بھیڑیں موجود ہیں،سرکاری ہسپتالوں میں کیمرے لگائے جائیں تو سب کچھ سامنے آجائے ۔عدالت نے اپنے حکمنامے میں قرار دیا کہ پاکستان میں کورونا وائر س نے بظاہر وبا کی صورت اختیار نہیں کی۔اور دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں کورونا وائرس کے اثرات اتنے نہیں۔تحریری آرڈر میں عدالت کا کہنا تھا کہ وفاقی سیکرٹری صحت کے مطابق ہر سال اسلام آباد میں پولن الرجی سے ایک ہزار سے زائد افرادکا انتقال ہوجاتا ہے جبکہ لاکھوں لوگ دیگر امرض سے مر جاتے ہیں،ہم یہ نہیں کہتے کہ حکومت کورونا وائرس پر توجہ نہ دے لیکن اپنے تمام وسائل ایک بیماری پر خرچ نہ کرے اور نہ ملک کو غیر فعال کرے ،ملک کو بند کرنے کے نتائج عوام کے لئے تباہ کن ہوں گے ۔چیف جسٹس نے کہا کورونا کے مریض کا علاج یہ ہے کہ اسے ایک کمرے میں بند کردیا جاتا ہے لیکن این ڈی ایم اے اس پر چھ لاکھ پچیس ہزار اور اگر صوبوں کا خرچہ بھی شامل کیا جائے تو ایک مریض پر پچیس لاکھ خرچ ہورہے ہیں، دماغ شریان پھٹنے اور دل دورے سے مرنے والوں کو بھی کورونا میں شامل کیاجارہاہے ، سندھ شاپنگ مالز کھولنے کیلئے وفاقی حکومت سے رجوع کرے ۔جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ کراچی پورٹ پر اربوں روپے کا سامان پڑا ہے جو باہر نہیں آ رہا، لگتا ہے سامان سمندر میں پھینکنا پڑے گا، ، بند ہونے والی صنعتیں دوبارہ چل نہیں سکیں گی، اور سارا الزام این ڈی ایم اے پر آئے گا، کیا کسی کو معلوم ہے دو ماہ بعد کتنی بے روزگاری ہوگی؟ کیا کروڑوں لوگوں کو روکنے کیلئے گولیاں ماری جائیں گی؟۔ لاہور، اسلام آباد ،کراچی(نامہ نگار،سٹاف رپورٹر، مانیٹرنگ ڈیسک )سپریم کورٹ کی ہدایت پر اسلام آباد کی تمام مارکیٹیں اور شاپنگ مالز کھول دیئے گئے ، تمام ہیئر سیلونز اور باربر شاپس کو بھی کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے ۔ ضلعی انتظامیہ نے سپریم کورٹ کے حکم پر فوری عملدرآمد کرتے ہوئے مارکیٹیں اور شاپنگ مالز کھولنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔پنجاب حکومت نے بھی عدالت عظمیٰ کے حکم پر لاہور کے تمام شاپنگ مالز کھول دیئے ، صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان کا کہنا ہے کہ شاپنگ مالز 24 گھنٹے کھلے رہیں گے تاہم مارکیٹوں کو شام 5 تک کھلی رکھنے کی اجازت ہو گی۔ حکومت کی جانب سے صارفین کو ایس اوپیز پر عملدرآمد کرانے کیلئے داخلی راستوں پر ڈس انفیکٹ ٹنلز لگا دی گئیں، فیصل آباد،ملتان اور دیگر شہروں میں بھی شاپنگ مالز کھول دئیے گئے ہیں۔ادھرسندھ حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم پر ہفتہ اور اتوار کر بھی مارکیٹیں کھولنے کا اعلان کردیا۔صوبائی وزیر تعلیم سعید غنی کا کہنا ہے کہ شاپنگ مال اور بازار نہ کھولنے پر ہماری سرزنش ہورہی ہے ، حیرت ہے لوگوں کو بچوں کی صحت سے زیادہ نئے کپڑوں کی فکر ہے ۔ سعید غنی نے ٹوئٹر پر کہا ہے کل خدانخواستہ ہسپتالوں میں جگہ، ڈاکٹرز کم ہونے پر بھی سرزنش ہوگی، اللہ ہی ہم سب پر اپنا رحم فرمائے ۔سعید غنی نے کہا مارکیٹس کھولنے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے اس پر عمل کریں گے ۔