زمان پارک میں دو روز تک ہونے والی لڑائی اگرچہ پاکستان کی تاریخ کا ایک ناخوشگوار ترین واقعہ ہے مگر اسے بیک وقت پاکستان میں سیاسی جدوجہد کے ایک منفرد باب کے طور پر بھی یاد رکھا جائے گا۔ پاکستان میں ہونے والی یہ سیاسی مزاحمت عصر حاضر میں بہت سے مطالب کو جنم دے رہی ہے، بہت سے اندازے غلط ثابت کر رہی ہے اور کئی قوتوں کو للکار رہی ہے۔ اگرچہ سیاسی تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر اس واقعے کو فتح و شکست سے بالا تر ہو کے پرکھنا چاہیے مگر یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ کون کون سی سیاسی جماعتوں کو اس واقعے نے بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔سیاسی کارکنوں کی جانب سے ایسی مزاحمت کی تاریخ پاکستان میں کم ہی ملتی ہے کہ جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو 24 گھنٹے کی مسلسل کوشش کے بعد بھی ایک شخص کو گرفتار کرنے میں کامیابی نہ ملی ہو۔ زمان پارک میں لڑی جانے والی اس لڑائی کے کئی ناخوشگوار پہلو ہیں ۔قانونی طور پہ نہ پولیس اور دیگر اداروں کے پاس یہ جواز موجود تھا کہ وہ وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کرانے کے لیے اتنا بڑا آپریشن کرتے اور نہ کارکنوں کو یہ جواز مہیا کیا جا سکتا ہے کہ وہ پولیس کی جانب پیٹرول بم اچھالتے ، جو کچھ ہوا ،ناخوشگوار تھا۔ اپنے اداروں کے خلاف جب عوام کھڑے ہو جائیں تو اداروں کا احترام ختم ہو جاتا ہے۔بظاہر تحریک انصاف کے کارکن عمران خاں کی گرفتاری روکنے میں کامیاب رہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ناکام ہو گئے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس کہانی میں جو کچھ تاریخ کے حصے میں آیا ہے وہ کسے فاتح قرار دیتا ہے اور کسے جارح ۔ اس پوری کہانی کو یہ کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ چند شر پسند عناصر تھے جو قانون توڑتے ہوئے پولیس کے ساتھ لڑائی میں مصروف تھے۔نہیں بلکہ اس لڑائی میں سابق ایم این ایز، سابق وزرائے اعلی، سیاسی رہنما اور عہدایدار دو بدو پولیس سے مقابلہ کر رہے تھے۔ زرتاج گل، عالیہ حمزہ،کنول شوزب ، شاہد خٹک، پرویز خٹک ، مراد سعید، شہرام ترکئی، ضیا اللہ بنگش اور محمود خان۔ یہ سب سابق ایم این ایز، ایم پی ایز، وزرا اور اعلی سیاسی عہدوں پہ فائز رہے ہیں۔انہیں محض قلم سے تحریر شدہ ایک جملے سے دہشت گرد قرار نہیں دیا جاسکتا۔جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ یہ حالات کس نے پیدا کیے اور کیوں کیے؟ پاکستان میں بدقسمتی سے سیاسی مقدمات کی ایک تاریخ رہی ہے۔ ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت کو زیر کرنے کے لیے جھوٹے مقدمات بناتی ہے۔عمران خاں بھی اس روایت کو توڑ نہ سکے اور موجودہ حکومت نے تو حد ہی کر دی۔ سیاستدانوں پر ذاتی مخاصمت میںقتل،اقدام قتل، دہشت گردی اور نہ جانے کیسے کیسے سنگین مقدمات بنا دیے۔عمران خاں کو گرفتار کرنا جیسے انا کا مسئلہ بنا لیا ہے اور عمران خاں نے بھی عدالت میں پیش نہ ہونے کی جیسے قسم کھا رکھی ہے۔ عمران خاں کی گرفتاری کی کوشش کو دو پہلووں سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔اگر عمران خاں کو محض عدالت میں پیش کرنے کی غرض سے گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو پولیس کو اتنا بڑا آپریشن کرنے کا حکم دینے والی سیاسی قوتوں نے حالات کا صحیح اندازہ نہیں لگایا۔ پی ڈی ایم میں شامل کئی جماعتوں کے سربراہان عمران خاں کی گرفتاری کے منصوبے کی مخالفت کر چکے ہیں ۔ ان کی رائے ہمیشہ یہ رہی ہے کہ ایسا کرنے سے عمران خاں کو سیاسی فائدہ ہو گا، ایسے میں اپنے سیاسی مخالف کو ہیرو بنانے کی کیا ضرورت ہے۔خودآصف زرداری بھی کئی اہم میٹنگز میں اس کی مخالفت کر چکے ہیں۔ لہذا اگر عمران خاں کو ٹرائل کا حصہ بنانے کے لیے محض گرفتار کرکے عدالت کا حصہ بنانا ہی مقصود ہے تو یہ مشق عمران مخالف سیاسی جماعتوں کو کوئی خاص فائدہ دینے والی نہیں ہے۔ دوسری جانب عمران خاں اور ان کے قریبی لوگوں کو خدشہ یہ ہے کہ یہ صرف عمران خاں کو دو چار روز کے لیے گرفتار کرنے کا منصوبہ نہیں ہے۔ بلکہ اصل منصوبہ انہیں طویل عرصے کے لیے دور دراز کی جیلوں میں رکھ کے سیاسی عمل سے مکمل باہر کر دینے کا ہے ۔ اس سے عمران خاں کا عوام سے رابطہ کٹ جائے گا، انتخابی مہم کمزور ہو جائیگی۔ اسی دوران انہیں نا اہل بھی کر دیا جائے گا جس کے نتیجے میں وہ سیاست سے عملی طور پر باہر ہو جائیں گے۔ عمران خاں کا خدشہ تو اس سے بڑھ کر ہے، انہیں لگتا ہے کہ حراست کے دوران انہیں قتل کر دیا جائے گا اور ان کی موت کو قدرتی ظاہر کرنے کے لیے ہارٹ اٹیک جیسا کھیل کھیلا جائے گا۔ منصوبہ پہلا ہو یا دوسرا ، دونوں صورتوں میں کشیدگی میں اضافہ یقینی ہے۔ منصوبہ ساز سیاسی قوتیں اپنی داڑھی کسی اور کے ہاتھ میں دینے پر آمادہ دکھائی دیتی ہیں۔ ن لیگ کو تو ان حالات میںشاید اس کی بھی پروا نہیں ۔انہیں لگتا ہے اگر وہ برسر اقتدار نہیں آ سکتے تو عمران خاں کو بھی نہیں آنا چاہیے، انہیں لگتا ہے اگر وہ نہیں آسکتے تو پھر عمران خاں کے علاوہ کوئی بھی آ جائے کیا فرق پڑتا ہے۔ بظاہر زمان پارک میں ہونے والے آپریشن سے عمران خاں کو سیاسی فائدہ ہی ہوا ہے۔ عمران خاں نے لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹی ہیں، ان کے کارکنوں کو اعتماد ملا ہے، مزاحمتی سیاست سے روزانہ کارکنو ں کی ٹریننگ ہو رہی ہے، انتخابی مہم سے پہلے ہی تحریک انصاف کی مہم خود بہ خود چل نکلی ہے۔ جانے کیا سوچ کر عمران خاں کو ہیرو بنایا جا رہا ہے۔