افغانستان کے خوست صوبے سے تعلق رکھنے والے پیرمحمدکاروان پشتو زبان کے مشہور شاعر اور لکھاری ہیں۔تباہ حال افغانستان اورقابلِ رحم افغانوں کا ذکر جب بھی چھڑجاتاہے تو مجھے کاروان صاحب کے بہت سے اشعاراور نظمیں یادآتی ہے۔بالخصوص اس شاعر کی ایک غزل کایہ شعرتوپڑھتے وقت مجھے رُلادیتاہے جس میں انہوں نے اپنی جنگ زدہ دھرتی کی کچھ یوں منظر کشی کی ہے۔ ترجمہ:’’میرا دیس آگ کے دریا میں ڈبکیاں لے رہاہے اور حال یہ ہے کہ نہ صرف اس کے نوخیزجوان جنگ کے شعلوں کی نذرہوگئے ہیں بلکہ اس کی دوشیزائوں کی میتیں بھی مگرمچھ کھاچکاہے‘‘۔پیر محمد کاروان نے یہ شعر غالباً اکیس برس پہلے اس وقت کہاتھا جب وہ پشاور کے ناصر باغ مہاجرکیمپ میںمقیم تھے ۔گو کہ کاروان اکیس سال پہلے اپنی دھرتی میں آگ وخون کے جس بھیانک کھیل کا شاہد رہاتھا ، وہی کھیل 2019ء میں بھی پورے آب وتاب کے ساتھ جاری ہے ۔اسی زمانے میں افغانستان سے سوویت یونین کی سرخ افواج رخصت ہو چکی تھیںاور طالبان کی سربراہی میں امارت اسلامی کے نام سے حکومت قائم تھی۔یعنی سوویت یاسرخ افواج کی جگہ طالبان نے اور پھرطالبان کی جگہ نیلی آنکھوں والے امریکیوں اور اس کے اتحادی افواج نے لے لی ۔نائن الیون واقعے کے بعدامریکہ نے افغانستان میں طالبان حکومت کاخاتمہ کردیا اورپھرامریکہ ہی کے تعاون سے حامدکرزئی کی سربراہی میں ایک حکومت بن گئی۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ حامد کرزئی حکومت ایک کٹھ پتلی حکومت تھی اور اس ملک کی تمام تر معاشی،عسکری اور سفارتی پالیسیاں امریکہ کے منشاء کے مطابق بنتی تھیں۔ حامد کرزئی دس سال تک افغانستان کے صدر رہے لیکن جاتے جاتے ان پر یہ حقیقت منکشف ہوگئی کہ امریکہ افغانوں کا دوست نہیں ہے ۔ چندسال پہلے داعش جنگجووں کاخاتمہ کے نام پر مادرآف آل بمبس نامی بم گرانے پرحامدکرزئی یہاں تک کہہ گئے کہ افغانوں کو مشترکہ طورپر امریکہ کو افغان سرزمیں سے بھگانااب ناگزیرہوگیاہے۔د وہزار چودہ میں ہونے والے افغان صدارتی انتخابات کے نتیجے میںمحمد اشرف غنی افغانستان کے صدر منتخب ہوئے اور تاحال وہ اسی عہدے پرفائزہیں۔ غور کیاجائے تو ان اٹھارہ سالہ جنگ کے دوران نہ تو امریکہ کو وہ کامیابی ملی جس کے بارے میں وہ بڑھکیں ماررہاتھااور نہ ہی افغان طالبان کو پھرسے تخت کابل حاصل کرنے میں کامیابی ملی۔دوسری طرف اٹھارہ سال کے طویل عرصے میں بدلتی افغان حکومتیں بھی آج تک اس قابل نہیں ہوپائی ہیں کہ امریکہ کے بغیر طالبان مزاحمت کاروں سے نمٹ سکیں۔ حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق صرف پچھلے چار سال کے دوران چالیس ہزار کے قریب افغان حکومت کے سکیورٹی اہلکار اپنی جانیں گنوابیٹھے ہیں۔ اس سے یہ اندازلگایاجاسکتاہے کہ جتنی لاشیں افغان حکومت نے اپنے اہلکاروں کی اٹھائی ہیں اتناہی جانی نقصان طالبان مزاحمت کاروں کابھی ہواہوگا۔افغان سکیورٹی فورسزپلس امریکہ اور طالبان کی اس جنگ کے دوران جونقصانات عام سویلینزنے اٹھائے ہیں ، وہ اس جنگ کاایک انتہائی افسوسناک پہلوہے ۔شاید اس دعوے میں مبالغہ نہیں ہوگا کہ اس ملک کی عبادت گاہوں، تعلیمی اداروں، چوراہوں، مارکیٹو ں اور کھیل کے میدانوں میں روزہونے والے بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں افغان سویلینز سے زیادہ جانی اور مالی نقصانات ان دو فریقین میں سے کسی نے نہیں اٹھایا ہے۔رہی بات امریکی اور نیٹو افواج کے جانی نقصانات کی ، تواس بارے میں خودافغان صدر کہہ چکے ہیں کہ پچھلے چارسالوں کے دوران ہزاروں افغان سکیورٹی اہلکاروںکے مقابلے میں صرف چوہتر غیرملکی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔غرض یہ کہ افغانوںکی سرزمین پر پچھلے چالیس سال سے جاری جنگ کو جو نام بھی دیا جائے ، اس کا خمیازہ صرف اور صرف افغان کلمہ گو مسلمانوں کو بھگتنا پڑاہے۔ افغان قضیہ پچھلے سال سے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکاہے کیونکہ ستمبر سے امریکہ نے بھی اپنا پینترا بدلتے ہوئے باقاعدہ طورپرطالبان کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ شروع کردیاہے ۔ قطرکے دارالحکومت دوحہ میں اب تک ان مذاکرات کے چھ راونڈ مکمل ہوچکے ہیں جس میںسب سے بڑی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ امریکہ نے افغانستان سے انخلاپر آمادگی ظاہر کردی ہے ۔دوسری طر ف اس قضیے کا مایوس کن پہلو یہ ہے کہ طالبان مزاحمت کاراب بھی افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات پر رضامنددکھائی نہیں دیتے ۔ امریکہ اور طالبان کے بیچ مذاکرات کے اگلے راونڈز میں انخلاکے حوالے سے مزیدپیش رفت کا غالب امکان ہے لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ امریکی افواج کے انخلاکے بعد طالبان ،غنی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے میں کتنی لچک دکھائیں گے؟خدانخواستہ طالبان اگر اس زعم میں مبتلا ہوگئے کہ ان کی طویل مزاحمت کے نتیجے میں امریکہ شکست سے دوچار ہواہے یوں افغانستان کے مستقبل کے تمام تر امورنمٹاناصرف انہی کاکام ہے ، تو یہ ان کی بڑی بھول ہوگی۔اس طرح اس کے برعکس اگر افغان حکومت،افغان طالبان کو افغان وطن کا حصہ تسلیم کرنے میں ہٹ دھرمی شروع کرے تو یہ بھی ایک فاش غلطی اور حماقت ہوگی۔ سو،ایک پرامن ، خوشحال اور خودمختارافغانستان کا خواب صرف اس صورت میں شرمندہ تعبیر ہوسکتاہے جب افغان وطن کے یہ دونوں اسٹیک ہولڈرز(افغان طالبان اور افغان حکومت)باہمی رضامندی اور خلوص نیت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے افغان قضیے کا حل نکالیں۔یہ دونوں اسٹیک ہولڈرپہلے ایک دوسرے کو بطور افغان اورمسلمان برداشت کریں اورپھر اس جنگ زدہ ملک کے وسیع ترمفاد میں ایک جمہوری سیٹ اپ تشکیل کرکے عوام کی رائے کوترجیح دیں۔