چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال نے کاروباری افراد کی طرف سے معیشت کی سست روی کو احتسابی عمل کا نتیجہ قرار دینے کی سختی سے تردید کی ہے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے سامنے نیب سے متعلق تاجروں کے تحفظات خلاف حقیقت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تاجر برادری کو نیب سے متعلق شکایت تھی تو آگاہ کیا جاتا۔ انہوں نے واضح کیا کہ نیب پر تنقید ہوئی تو ان کے لئے خاموش رہنا مشکل ہو گا۔ پاکستان میں کرپشن کے انسداد کے لئے کہنے کو تو متعدد ادارے اور قوانین موجود ہیں مگر ماضی میں احتساب کرنے والے اداروںمیں سیاسی مداخلت اور سیاسی اشرافیہ کی بدنیتی کی وجہ سے ملک سے بدعنوانی کم ہو سکی نہ ہی بدعنوانی کی عادی سیاسی اشرافیہ قانون کی گرفت میں آئی۔ حالانکہ ایسا نہیں کہ احتساب پر مامور قومی ادارے بدعنوانی کے عفریت سے آگاہ نہ تھے۔ ماضی میں نیب کے ہی ایک چیئرمین نے ملک میں 12ارب ڈالر کی کرپشن کا انکشاف کیا تھا جبکہ کارکردگی کا یہ عالم تھا کہ ماضی میں نیب کے ایک سربراہ نے سپریم کورٹ میں نہایت ڈھٹائی کے ساتھ یہ کہا تھا کہ عدالت نے جو بھی کارروائی کرنا ہے کرلے نیب سابق وزیر اعظم کے بدعنوانی کے مقدمات کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل نہیں کرے گایہ حقیقت ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت خلوص نیت سے احتساب کے عمل میں شفافیت لانے کی خواہاں ہے تو نیب بھی دل جمعی اور قانون کے مطابق انسداد بدعنوانی کی ذمہ داریاں نبھانا چاہتا ہے ۔یہ سیاسی قیادت کی کمٹمنٹ اور نیب کی فرض شناسی ہی ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار بااثر ترین شخصیات بدعنوانی کے الزامات میں حراست میں ہیں تو نیب 70ارب سے زائد خطیر لوٹی ہوئی رقوم قومی خزانے میں جمع کروا چکا ہے۔ جہاں تک تاجر برادری کی آرمی چیف سے ملاقات کا معاملہ ہے تو واضح رہے کہ آرمی چیف اس ملاقا ت سے پہلے بھی کراچی میں بزنس کمیونٹی کی ایک تقریب میں کہہ چکے ہیںکہ ملک دفاعی قوت نہیں بلکہ مضبوط معیشت کی وجہ سے ترقی کرتے ہیں ۔آرمی چیف نے اپنے خطاب میں یہاں تک حوالہ دیا تھا کہ اگر ملک دفاع سے مضبوط ہوتے تو روس کا شیرازہ نہ بکھرتا ۔اس تقریب میں آرمی چیف نے عسکری اور معاشی استحکام کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے باہمی تعاون کی بات کی تھی اور کاروبار ی برادری کو ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی تھی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو آرمی چیف سے تاجروں اور صنعت کاروں کی ملاقات کچھ ایسی انہونی بھی نہیں اور پھر اس ملاقات میں وفاقی وزیر خزانہ حفیظ شیخ اورحماد اظہر موجود تھے ۔جہاں تک وزیر اعظم اور آرمی چیف سے ملاقاتوں کے دوران تاجروں کے نیب کے رویہ بارے تحفظات کا تعلق ہے تو ان کی حقیقت کا اندازہ آرمی چیف کے اس ملاقات میں بیان سے بھی ہو جاتا ہے کہ تاجر اپوزیشن کے ہاتھوں میں کھیلنے کی بجائے ملکی ترقی میں حکومتی اداروں کے دست بازو بنیں ‘حکومت ان کے تمام جائز تحفظات دور کرے گی۔ اس قسم کی یقین دہانیاں ماضی میں نہ صرف ایف بی آر بلکہ وزیر اعظم کی طرف سے بھی دلائی جاتی رہی ہیں۔ اس سے بھی مفرنہیں کہ بدعنوان عناصر اور سابق حکمرانوں کی قانون کی گرفت میں آنے کے بعد یہ کوشش رہی ہے کہ وہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے بجائے نیب اور حکومتی اداروں پر کیچڑ اچھال کر اپنے خلاف قانونی کارروائی کو سیاسی انتقام ثابت کر کے عوامی ہمدردیاں حاصل کریں۔ اس مقصد کے لئے کرپٹ اشرافیہ ماضی میں ناصرف تاجر تنظیموں بلکہ حکومتی اداروں کی یونینز کی طرف سے ہڑتالوں کی حمایت کا اعلان بھی کرتی رہی ہے۔تاجروں کے نیب کے بارے تحفظات میں اس لئے بھی صداقت محسوس نہیں ہوتی کہ حکومت پہلے یہ اعلان کر چکی ہے کہ نیب صرف میگا کرپشن کیسز پر اپنی توجہ مرکوز رکھے گا اور حکومتی کیسز میں ملوث سرکاری اور غیر سرکاری افراد کے علاوہ کسی کے خلاف کارروائی نہیں کرے گا۔ تاجروں کے تحفظات اس لئے بھی بقول چیئرمین بلا جواز ہیں کہ اگر کسی کو نیب سے شکایت ہے تو اسے پہلے نیب سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔ جو افراد نیب سے نالاں ہیں ان کے بارے میں چیئرمین نیب نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے نیب کو تحسین کے مراسلے بھی لکھے تھے ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو نیب کے بارے میں تاجروں اور صنعت کاروں کے تحفظات احتساب کے عمل میں شفافیت کو متاثر کرنے کی کوشش محسوس ہوتے ہیں۔آرمی چیف اور ڈاکٹر حفیظ شیخ چین سے 12ارب ڈالر کی تجارت کو انڈر انوائسنگ کر کے پاکستان میں چھ ارب ڈالر ظاہر کرنے پر تاجر برادری کو آئینہ دکھا چکے ہیں۔ تاجر تنظیموں کی طرف سے کاروباری معاملات میں شفافیت کے لئے حکومت کی شناختی کارڈ کی شرط پر مزاحمت کی گئی تو حکومت نے مہلت بڑھا دی شاید اس عمل کو حکومتی کمزوری تصورکرکے بعض عناصر اب احتساب کے عمل کو ہی الزامات لگا کر مشکوک بنانا چاہتے ہیں ۔ حکومت تاجروں کے جائز مطالبات ضرور پورے کرے مگر حکومتی رٹ کو یقینی بنانے پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے سے گریز ہونا چاہئے۔ ورنہ حکومت کے احتساب کی طرف بڑھتے قدم ڈھلوان سے پھسلتے ثابت ہو سکتے ہیں۔ تاجر حضرات احتسابی عمل کی شفافیت کا مطالبہ کریں تو یہ غلط نہ ہو گا لیکن احتساب روکنے کا مطالبہ گویا کاروباری ضابطوں کی خلاف ورزی پر اصرار کرنا ہے جس کی قانون پسند معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں۔