وہ اسلام آباد کی ایک نجی یونیورسٹی کے طلباء کا گروپ تھا جو غربت کے عالمی دن کے موقع پر صحافیوں، قلمکاروں ،رائے سازوں سے ملاقاتوں کے مشن پر نکلا ہوا تھا ،سامنے بیٹھے طلباء میں سے ایک نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا ’’سر!ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح پاکستانی حکومت کے مطابق تیس فیصدتک ہے۔ ہم مان لیتے ہیںکہ ہمارے یہاں غریبوں کی تعداد تیس فیصد ہی ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ بتاتی ہے کہ دنیا کی آدھی آبادی نے اپنے طرز زندگی میں بہتری لائی ہے اور وہ خط غربت سے مڈل کلاس میں آگئی ہے 2018ء میں ہماری فی کس آمدنی 1652ڈالر تھی جو اب گھٹ کر1516ڈالر ہو گئی ہے،ڈی ایف آئی ڈی کی رپورٹ کہتی ہے پاکستان کے 44فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں ،دو کروڑ بیس لاکھ بچے اب بھی اسکول نہیں جاتے اور سر! سب سے خوفناک بات یونیسیف کی گذشتہ برس کی رپورٹ تھی۔ 2018ء کی رپورٹ میں پاکستان نوزائیدہ بچوں کے لئے دنیا کا خطرناک ترین ملک ہے۔ 2016ء میں ہمارے یہاںصرف ایک سال میں دو لاکھ اڑتالیس ہزار نومولود بچے موت کے منہ میں چلے گئے تھے ‘‘انسا نی صحت اور سماج پر نظر رکھنے والے اداروں کی رپورٹوں کے ڈھیر سارے حوالے دینے کے بعد وہ نوجوان خاموش ہوا تو میرے دائیں جانب بیٹھی لڑکی نے متوجہ کرلیا’’سر! ایسی ہی صورتحال بھارت میں بھی ہے،عالمی بنک کی رپورٹ ہے کہ وہاں ایک ارب کی آبادی غربت کا شکار ہے ،دنیا میں تین ارب لوگ غریب ہیں اور انکی نصف تعداد پانچ ملکوں میں ہے جن میں ایک بھارت بھی ہے‘‘ میں ان نوجوانوں کی اس تمہیدی گفتگو کا مقصد سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میرا خیال تھا کہ وہ مجھ سے بحیثیت صحافی کے اس حوالے سے کوئی رائے لینا چاہتے ہیں یا شائد سروے کرنا چاہ رہے ہوں،ماس کمیونیکیشن سوشیالوجی ،سوشل ورک کے طلباء اس قسم کے سروے کرتے رہتے ہیں یہ انکی تربیت کا حصہ ہوتا ہے۔ میں منتظر تھا کہ وہ اس تمہید کے بعد کب مجھے وہ فارم دیتے ہیںیا سروے کے سوالات کرتے ہیں آخر کا ر بریفنگ کے بعد طلباء کے اس گروپ نے مجھ سے کہا کہ غربت ،جہالت ،پسماندگی اور سماجی ناہمواریوں کے شمار ملکوں کو نہیں چاہئے کہ وہ اان مسائل پر فوکس کریں اور انہیں ختم کریں ۔میں نے کاندھے اچکاتے ہوئے پرزور تائید کی اور کہا کہ اس میں کیا شک ہے اور دو رائے کیوں ہونے لگیں ،میری اس بات پر سامنے بیٹھی لڑکی نے کہا لیکن سر ! ہمارا فوکس تو بھارتی جنگی جنون ہو چکا ہے ہم قرضوں کی دلدل میں کمر تک بلکہ اب تو گردن تک دھنسے ہوئے ہیں ،مہنگائی نے زندگی اجیرن کر رکھی ہے،اسپتالوں میں ادویات نہیں ہیں۔دیکھیں سر! مشرقی اور مغربی جرمنی ایک ہوسکتے ہیں،فرانس اور انگلینڈ اپنی دشمنیاں بھلا سکتے ہیں،دنیا بدل رہی ہے عرب ورلڈ اسرائیل کو تسلیم کرر ہا ہے ہم ماضی بھلا کر آگے کی جانب کیوں نہیں دیکھ سکتے ہم پہل کیوں نہیں کرتے ‘‘ مغربی این جی اوز کے فلسفہ ء امن سے متاثر’’امن کی آشا ‘‘رکھنے والے بچوں کی بات پر میں نے مسکراتے ہوئے کہا’’بات تو آپکی ٹھیک ہے میرا بھی دل چاہتا ہے کہ ٹیکسلا میں دفاعی سازو سامان کے بجائے سستے ٹریکٹر بنیں،پاک فضائیہ کے ائیر بیسوں سے لڑاکا جیٹ طیاروں کی جگہ فصلوں پر کیڑے مار دوا کا اسپرے کرنے والے رنگ برنگے جہاز اڑیں ،تھر میں ہر ماں نو پونڈ کے بچے کو جنم دے ،اسپتالوں میں ادویات کے حصول کے لئے نصف کلومیٹر لمبی قطار نہ ہو،ہمارا معیار زندگی بہتر نہیں شاندار ہو اور یقین کریں فوج فارغ کرنے سے ایسا ہی ہوگا لیکن اس بات کی ضمانت کون دے گاکہ 422ارب ڈالر کے دفاعی بجٹ کے ساتھ دنیا کی چوتھی بڑی فوجی طاقت گشت کرتے ہوئے سرحدپار نہیں کرے گی؟ دیکھو بچو! تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے ،وہاں غربت ہم سے زیادہ ہے ان کی ایک کروڑ آبادی غربت کی ڈسی ہوئی ہے اسٹیٹ آف دی ورلڈ چلڈرن پر یونیسیف کی رپورٹ کہتی ہے کہ بھارت میں دوران زچگی ایک لاکھ خواتین میں سے 450جان سے گزر جاتی ہیں،بھارت آج کہہ رہا ہے کہ نومولود بچوں کی شرح اموات کم ہوئی ہے اور یہ کم ہو کر بھی42فیصد ہے ،ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹنظر سے گزری کہ بھارت کو چین سے تین گنا زیادہ اسکولوں کی ضرورت ہے۔۔۔اسکے باوجود وہ فرانس سے7.8بلین یورو کے رافیل خرید رہا ہے،پیس انسٹی ٹیوٹ اسٹاک ہوم کے مطابق دنیا بھر میں بھارت اسلحے کا دوسرا بڑا خریدار ہے2014ء سے 2018ء تک دنیا میں جتنا اسلحہ فروخت ہوا اسکا ساڑھے نو فیصد بھارت نے خریدا،2013ء سے 2017ء تک وہ اسلحے کی شاپنگ میں پہلے نمبر پر تھا،دنیا بھر میں جتنا بھی اسلحہ گولابارود وغیرہ وغیرہ فروخت ہوا اسکا تیرہ فیصد بھارت پہنچا ،ہمیں تو ردعمل میں تیار ہونا پڑتا ہے یہ تو ہماری مجبوری ہے ،آج بھارت میں انتہاپسندوں کی حکومت ہے لیکن 1971ء میں سیکولر کانگریس حکمران تھے سقوط ڈھاکہ کے بعد اندرا گاندھی کی پارلیمنٹ میں تقریر سن لیں فرماتی ہیں ہم نے نظریہ پاکستان خلیج بنگال میں ڈبو دیایعنی پاکستان کے لئے سیکولر کانگریس ہو یا انتہا پسند بی جے پی دونوں برابرہیں۔پھر یہ بھی دیکھیں کہ ایٹمی دھماکہ پہلے بھارت نے کیا ہم نے تو اسکے جواب میں چاغی کے پہاڑوں کا رنگ بدلا تھا۔ہمیں تو ردعمل میں تیار ہونا پڑتا تھایہ ہماری مجبوری ہے ورنہ ہمارے اسپتالوں میں پیدا ہونے والے صحت مند بچے ان کی لیبرفورس نہ بن جائیں ؟ ہمارے کھیت کھلیانوں کا غلہ ان کے گوداموں میں نہ چلا جائے؟ بات وہ ہونی چاہئے جو سمجھ بھی آئی ،امن کی آشا کسی پیر فقیر کا دم تو نہیں کہ پھونک دیا جائے اور بس امن آشتی آ جائے آپکے گھر پر نظریں جمائے بیٹھا دشمن کلاشن کوف خریدے گا تو آپ ڈرائنگ روم کے لئے لگژری صوفے نہیں خریدیں گے ،اپنے غسل خانے کے لئے اٹلی سے ٹائلز نہیں منگوائیں گے اور ایسا کریں گے تو کیا گارنٹی ہے کہ آپکے شاندار غسل خانے میں گرم پانی کے مزے لینے والے آپ کا پڑوسی نہیں ہوگا؟‘‘میری باتیں انہیں اچھی نہیں لگیں ان کے پاس اب بھی بہت سارے ’’لیکن،اگر،مگر،پھر چوں کہ چنانچہ ‘‘ تھے لیکن اب ان کے سوالوں میں پہلی سی شدت نہیں تھی ،انہوں نے سترہ سوالوں پر مشتمل سروے کاسوالنامہ مجھ سے بھروایا اوراپنے خوابوں کے ساتھ رخصت ہوگئے،وہ میری باتوں سے زیادہ مطمئن نہیں ہوئے تھے۔