کشمیر پربھارتی جبری قبضے کے ساتھ منسلک قہر سامانیاںکشمیرکے مکینوں کے ساتھ ساتھ یہاںکے قدرتی وسائل پر اثر انداز ہوتے ہیںاورکشمیرکی سیب صنعت بھی بھارتی جبری قبضے سے سخت متاثرہوئی ۔ قابض بھارتی فوجیوں کے جبرقہراورتشدد سے کشمیرکی سیب صنعت کوجونقصان پہنچااسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ سیب کے باغات میں بنائی گئیں قابض بھارتی فوج کی بڑی بڑی چھائونیوں اور پھر فوجیوں کے ہاتھوں سیب درختوںکوجڑسے اکھاڑ دینے کی خون رلادینے والی انگنت داستانیںنظروں کے سامنے بکھری پڑی ہیں۔ کشمیرکا سیب اپنی قدرتی رنگت ، رس اورمٹھاس اوراپنے ذائقے اور خوشبو کے اعتبار سے مشہور ہے۔ کشمیرکا سیب براہ راست امریکہ ، چیلی، چین اور آسٹریلیا کے مقابلے میں آگیا۔ جبکہ کشمیرکاسیب لذت کے اعتبار سے دنیا میں نمبر ون ہے۔مقبوضہ کشمیرکے عوام کے لئے سیبوں کی کاشت آمدنی کا ایک اچھا ذریعہ ہے ۔ تاہم مقبوضہ علاقے کے ناطے کشمیریوںکو اپنے پھلوں کی بہتر قیمتیں نہیںمل رہی۔کشمیر یوں کی ایک خاصی بڑی تعداد براہ راست یا بالواسطہ طور پر زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے ، کاش کشمیرپربھارتی جبری قبضہ نہ ہوتا تو کشمیری اقتصادی طور پر زیادہ مضبوط ہوتے ۔ سرینگر کے شمال میں واقع قصبہ سوپور میں، جو ایپل ٹاون آف ایشیا بھی کہلاتا ہے۔جبکہ سری نگرکے جنوب میں قصبہ شوپیان سوپورکے بعدسیب کی پیدوارمیں دوسراسب سے بڑاایریاہے ۔کشمیرکے سیب باغات میں درختوں پرمئی کے مہینے میں سیب لگناشروع ہوجاتاہے اوراکتوبرکامہینہ اس کے توڑنے کا سیزن ہوتاہے۔ کشمیرکے سیب کوعالمی سطح تک لے جانے کے لئے سوپورمیں چار سو کنال کے وسیع رقبہ پر پھیلی فروٹ منڈی بیس سال قبل قائم کی گئی تھی۔ منڈی میں روزانہ اڑھائی کروڑ مالیت کا میوہ بکتا ہے۔ کشمیرکی کٹھ پتلی انتظامیہ نے ہارٹیکلچر پلاننگ اینڈ مارکیٹنگ کا ادارہ قائم کیا ہے، لیکن سیب باغ مالکان کو اس کا کوئی فائدہ نہیں مل رہا۔ سرینگر کے نواح میں ایک انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر قائم کرنے کا اعلان کیاگیا جبکہ سوپور منڈی میں ایک کولڈ سٹوریج پلانٹ کی تعمیر کا اعلان کیا۔لیکن یہ اعلانات زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔لیکن بھارت کے جبری قبضے اورغاصبانہ تسلط کے باعث کشمیرکے سیب کو عالمی منڈیوں تک رسائی نہ ہونے کے باعث ریاست کشمیرکے باغ مالکان کوسیب کی وہ قیمت نہیں مل رہی جو اس کے شایان شان ہے۔ کٹھ پتلی ریاستی انتظامیہ کی بھارت نوازی کے باعث اس وقت سالانہ انکم بیس ارب روپے ہے۔کشمیر پر بھارت کاجبری تسلط نہ ہوتاتواس سیب کی قیمت کہیں زیادہ ہے ۔کشمیریوں کے مطالبہ آزادی پرگزشتہ تین عشروں کے دوران بھارت جان بوجھ کر کشمیر کے سیب کو انٹرنیشنل برانڈ بننے نہیں دے رہا۔جبکہ ریاست کی کٹھ پتلی انتظامیہ سیب کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کر رہی ہے ۔ بھارت میں جوسیب خریدے اورفروخت کئے جاتے ہیں ان کی کل پیدوار کا 60فیصد سے زیادہ مقبوضہ کشمیر سے ہی حاصل ہوتاہے۔سری نگرمیںکشمیری صنعت کاروں اور تاجروں کی تنظیم کشمیر چیمبر آف انڈسٹریز اینڈ کامرس کے سربراہ ڈاکٹر مبین شاہ میوہ صنعت کو درپیش ان چیلنجوں کے حوالے سے تجویز کرتے ہیں کہ کشمیرکاسیب راولپنڈی بھیجاجائے تاکہ میوہ تجارت کا حجم بڑھایا جا سکے۔ان کا کہنا ہے کہ مظفرآباد روڑ نہ صرف کشمیر کو پاکستان اور وسط ایشیا کے دیگر ممالک کے ساتھ ملاتا ہے بلکہ سرینگر سے بھارتی ریاست کلکتہ کا سفر سرینگر سے قندھار تک کے سفر جیسا ہے۔ خوف، نفرت اور وحشت کی جو فصل برسوں پہلے بھارت کشمیرمیں بوچکاتھا آج وہ برگ و بار لا رہی ہے۔ یہ وادی گل رنگ ، وادی ِ لہو رنگ ہے۔ ابلتے ہوئے چشموں سے خون کے فوارے پھوٹ رہے ہیں۔ ڈل اور ولر کے پانیوں پر کبھی کنول اور شکارے تیرتے تھے، آج انسانی لاشے تیر رہے ہیں۔ کھیت ، کھلیان اور تاریخی باغات، فوجی چھائونیاں بن چکی ہیں، ایک عالم وحشت ہے۔ انجان سا خوف ہر ایک پر طاری ہے کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے۔اگر کسی کے پاس متاعِ لوح قلم ہے اور وہ اس ماحول کی عکاسی کرنا چاہتا ہے، تو پھر اسے خونِ جگر میں انگلیاں ڈبونا پڑتی ہیں۔ یہ ساری رودادِ سفر، جذبوں سے مامور ہے۔ ہر گام پر دل کی دھڑکن تیز سے تیز تر ہوتی رہی ہے۔ چہار سو پھیلے اندھیرے اور کھولتے ہوئے اشتعال کے باعث قلم پر کپکپی طاری ہونا فطری ہے۔ بھارت کے جبری قبضے میں ہونے کے باعث کشمیرمیںسیب اور دوسرے پھل کی پیداوارتنزلی کا شکار ہے اور وادی کشمیر میں اس صنعت سے وابستہ لوگ اب بھی کئی دہائی پرانی ٹیکنالوجی یا غیر موثرروایتی طریقے اپنا رہے ہیں جس سے سیب اور دوسرے پھل کے معیار میں بہتری کے بدلے ابتری واقع ہوئی ہے۔اس کے علاوہ بھارت سے آئے ہوئے غیر معیاری اور ادنی درجے کی ادویات کے استعمال سے بھی سیب صنعت کو کافی نقصان پہنچ چکا ہے۔بھارت سے بھیجی جانے والی نقلی کھادوں کے استعمال سے بھی سیب کے باغات پر بہت برا اثر پڑا ہے۔اس سے کشمیر جیسے سازگار ماحول میں بھی ایسی بیماریاں پروان چڑھی ہیں جنہوں نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ باغ مالکان کی نیندیں حرام کی ہیں۔ دنیا میں بہت سے علاقوں میں سیبوں کی کاشت ہوتی ہے لیکن وہاں پر باغبانی کے جدید ترین طریقوں پر عمل کرنے کے علاوہ کارآمد ٹیکنالوجی کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جہاں بارش کم پڑتی ہے وہاں پر بھی اس طرح کے انتظامات کئے گئے ہیں کہ مصنوعی بارشوں سے پھل اگائے جاتے ہیں۔لیکن وادی کشمیرمیں سیب اوردوسرے پھل اگانا جتنا آسان ہے اتنا ہی بھارتی فوجی قبضے سے یہ صنعت کافی پر خطر بن چکی ہے۔بھارتی جبری قبضے نے کشمیرکے سیبوں کے ساتھ ساتھ جس فصل پر یہاں سب سے زیادہ برا اثر ڈالا ہے، وہ زعفران ہے۔ ایک وقت وہ بھی تھاکہ کشمیری زعفران پوری دنیا میں مشہور تھا۔کئی صدیاں پہلے یورپی سیاحوں اور تاریخ نویسوں نے کشمیری زعفران کی مدح سرائی کی ہے۔لیکن کشمیر پربھارت کی فوجی جارحیت کی وجہ سے یہ فصل بھی اب پوری طرح سے تنزلی کا شکار ہے۔