سابق سپرنٹنڈنٹ کاشانہ افشاں لطیف نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں الزام عائد کیا ہے کہ’’ نو لڑکیوں کو جو اہم معاملات کی گواہ تھیں انہیں کاشانہ سے غائب کر دیا گیا ہے۔ 5 برس میں 25 بچیوں کی جبری شادیاں کرائی گئی ہیں۔ حکومت پنجاب کے کاشانہ بنانے کا مقصد بے سہارا اور یتیم بچیوں کو چھت مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ تحفظ فراہم کرنا تھا لیکن بدقسمتی سے یتیم بچیوں کو تحفظ کی بجائے ہراساں کیا جا رہا ہے۔ کاشانہ بلڈنگ میں کوئی بھی اجنبی آمی داخل نہیں ہو سکتا لیکن اب سی سی ٹی وی فوٹیج سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کاشانہ میں عام مردوں کا بھی آنا جانا لگا رہتا ہے۔ گو سابق سپرنٹنڈنٹ کاشانہ افشاں لطیف نے وزیر سے لے کر سیکرٹری تک تمام افراد کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے کہ بچیوں کی زبردستی شادیوں، ملازمتیں اور پھر رشتہ داروں کو کاشانہ میں ٹھہرانے کے لئے ان پر دبائو ڈالا جاتا رہا ہے۔ یہ سب خبریں میڈیا کی زینت بن چکی ہیں لیکن اس کے باوجود وزیراعلیٰ پنجاب نے اس کا نوٹس لیا نہ ہی کوئی نتیجہ نکلا ہے۔ معاملہ اس قدر گھمبیر ہے کہ اس کی فی الفور جوڈیشل انکوائری ضروری ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب ہائیکورٹ کے حاضر سروس جج کے ذریعے اس واقعے کی انکوائری کرائیں۔ افشاں لطیف کے الزامات حقائق پر مبنی ہوں تو پھر سیاسی لوگوں سے لے کر بیوروکریسی تک جو جو فرد اس واقعہ میں ملوث ہے اسے قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ کاشانہ میں رہائش پذیر یتیم اور بے سہارا بچیاں بلاخوف و خطر وہاں رہ سکیںاور حکومت پاکستان کا ریاست مدینہ کا تصور بھی اجاگر ہو سکے۔