معززقارئین! پرسوں ( 7 جون کو ) اسلام آباد میں سپریم کورٹ کی طرف سے اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف حصوں میں پانی کی قلت کے حوالے سے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اِس خواہش کا اظہار کِیا ہے کہ ’’ کاش مَیں پنجابی نہ ہوتا ۔ بلوچی یا سندھی ہوتا۔ ایک سندھی کی نظر سے ’’ کالا باغ ڈیم‘‘ کے مسئلہ کو دیکھتا تو شاید کچھ سمجھ آتا ۔ میرا جی چاہتا ہے کہ ’’ مَیں کالا باغ ڈیم بنانے اور ملک کے قرضے اُتار نے کے لئے چولا ؔپہن کر چندہ مانگوں‘‘۔پنجابی زبان میں چولا ؔ ۔ کُرتے (قمیص ) کو کہتے ہیں لیکن عام طور پر درویش ؔ اپنے ڈھیلے ڈھالے کُرتے کو چولا ؔ ؔکہتے ہیں ۔ شاہ محمد عنایت قادری ؒکے مُرید قصور کے صُوفی اور شاعر بابا بُلّھے شاہ ؒکہتے ہیں کہ …

بُلّھے شاہ ؒ  نُوں سدّو ! شاہ عنایت ؒدے بُوہے!

جِس نے ، مَینوں پوائے ، چولے، ساوے تے سُوہے !

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا انداز بھی درویشانہ ہے ۔ پانی کی قلت اور کالا باغ ڈیم نہ بنائے جانے سے متعلق از خُود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران اُنہوں نے کہا کہ ’’ ( سابق صدر ) آصف زرداری اور ( سابق وزیراعظم) میاں نواز شریف یہاں (عدالت میں ) آ کر بتائیں کہ ’’ اُنہوں نے پاکستان میں پانی کی قلت دور کرنے کے لئے کیا کِیا ہے ؟‘‘۔ علاّمہ اقبالؒ نے نہ جانے کِس موڈ میں کہا تھا کہ …

پانی ، پانی کر گئی ، مجھ کو، قلندرکی یہ بات !

تُو اگر میرا نہیں بنتا ، نہ بن ، اپنا تو بن!

مجھے نہیں معلوم کہ ’’ جنابِ آصف زرداری اور میاں نواز شریف ، اگر پانی کی قلت اور کالا باغ ڈیم نہ بنانے کے مسئلے پر سپریم کورٹ میں پیش ہُوئے تو، وہ ۔ پانی ، پانی ۔ ہو جائیں گے ؟ یا کسی قدرتی چشمے کا صاف پانی ( Mineral Water) طلب کریں گے؟‘‘۔ 7 جون کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عُمر عطاء بندیال اور جسٹس اعجاز اُلاحسن پر مشتمل 3 رُکنی بنچ نے 2 اپریل 2018ء کو بیرسٹر ظفر اللہ کی دائرکردہ درخواست ؔکو بھی ، پانی کی قلت کے مسئلہ کیس میں شامل کرلِیا ۔ درخواست گزار نے کہا تھا کہ ’’ میری درخواست 2013ء سے معرض ِ التواء میں ہے ، جِس میں ، میری التماس تھی کہ ’’ کالا باغ ڈیم ‘‘ کی تعمیر پر ریفرنڈم کرایا جائے اور اُس کا نام ’’ بے نظیر ڈیم‘‘ رکھا جائے۔!‘‘۔

معزز قارئین! مجھے بیرسٹر ظفر اللہ صاحب کی درخواست پر بے حد خُوشی ہُوئی ۔ مَیں نے ’’ نوائے وقت‘‘ میں اپنے یکم دسمبر 2012ء کے کالم میں لکھا تھا کہ’’ پاکستان کے خلاف بھارت کی آبی جارحیت بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ کبھی ہمارے دریائوں کا پانی روک کر ہماری زمینوں کو بنجر بنا دیتا ہے اور کبھی ہماری طرف اتنا پانی چھوڑ دیتا ہے کہ سیلاب آ جاتا ہے ۔ ’’کالا باغ ڈیم ‘‘ کی تعمیر کو اب مزید طول نہ دیں ۔ نہ ہی اِس پر سپریم کورٹ میں لے جائیں اور نہ ہی پارلیمنٹ میں بحث کے لئے پیش کریں ۔ بہتر ہے کہ ’’پاکستان کے چاروں صوبوں کے عوام کو براہِ راست فیصلہ کرنے دیں یعنی۔ ’’کالا باغ ڈیم ‘‘ پر ۔ ریفرنڈم کرالیں!‘‘۔ 

مَیں نے اپنا کالم اوائل نومبر 2012ء میں ’’ نوائے وقت ‘‘ میں چار قسطوں میں شائع ہونے والے انجینئر محمد سلیمان خان کے مضمون کا تذکرہ بھی کِیا تھا ۔ خان صاحب نے لِکھا تھا کہ ’’ فروری 1948ء میں قائداعظم محمد علی جناحؒ نے ’’کالا باغ (میانوالی ) ہائیڈرو پراجیکٹ ‘‘ اور مشرقی پاکستان میں ’’کرنافلی ہائیڈرو پراجیکٹ ‘‘ پر بہت جلد کام شروع کرنے کا حکم دِیا تھا‘‘۔ معزز قارئین! قبل ازیں ، مَیں نے وہ خبریں بھی پڑھی تھیں کہ ’’ آئین کے "Article" 154کے تحت ۔ ’’مشترکہ مفادات کی کونسل ‘‘ کی سفارشات پر لاہور ہائیکورٹ نے (صدر آصف علی زرداری کی ) وفاقی حکومت کو حُکم دِیا تھا کہ ’’وہ کالا باغ ڈیم کی جلد تعمیر کے لئے اقدامات کرے ، کیونکہ ملک میں توانائی کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہاہے! ‘‘۔ 

میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے پہلے دَور میں اُن کا عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ خان عبدالولی خان سے سیاسی اتحاد تھا۔ مَیں نے اپنے 15 جون 1993ء کے اپنے کالم میں تجویز کِیا تھا کہ ’’ کیوں نہ وزیراعظم نواز شریف ’’صوبہ سرحد ‘‘ کا نام ’’پختونستان ‘‘ رکھنے اور ’’ کالا باغ ڈیم‘‘ کا نام ’’ولی باغ ڈیم ‘‘ رکھنے کی شرط پر خان عبدالولی خان کو راضی کرلیں؟ ۔ مَیں نے یہ بھی لِکھا تھا کہ’’ اگرچہ خان عبدالولی خان کے والدِ محترم ( خان عبداُلغفار خان ) عدم تشدد کے علمبردار تھے لیکن، خان عبدالولی خان ہر وقت یہ دھمکی کیوں دیتے رہتے ہیں کہ ’’ اگر کالا باغ ڈیم بنایا گیا تو ہم اُسے بم مار کر اُڑا دیں گے! ‘‘۔ حیرت ہے کہ ’’ پاکستان کی کسی بھی خفیہ ایجنسی نے خان صاحب سے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ’’محترم خان صاحب ! آپ کے پاس جو بم ہے وہ امپورٹڈ ہے یا سمگل شدہ؟‘‘ ۔ 

پاکستان مسلم لیگ (ق) کے صدر چودھری شجاعت حسین اور پنجاب مسلم لیگ (ق) کے صدر چودھری پرویز الٰہی ’’کالا باغ ڈیم ‘‘ بنانے کے علمبردار ہے ہیں ۔ مَیں نے اپنے تین چار کالموں میں چودھری صاحبان سے درخواست کی تھی  کہ ’’ آپ صدر جنرل پرویز مشرف کا ’’مِنّت ترلا ‘‘ کر کے اُن سے ’’ کالا باغ ڈیم‘‘ بنوا دیں!‘‘ لیکن، یہ میری غلطی تھی کہ ’’ اگر کبھی چودھری صاحبان ’’ کالا باغ ڈیم ‘‘ کاراگ ؔچھیڑتے تو ، مجھے اُسی دھن میں پھر کالم لکھنا پڑتا؟۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے سیّد مراد علی شاہ ۔ وزیراعلیٰ سندھ تھے جب 14 مئی 2017ء کو اُنہوں نے کہا تھا کہ ’’ کالا باغ ڈیم ایک مُردہ گھوڑا ہے اور اُسے چابک مار کر بھی زندہ نہیں کِیا جاسکتا!‘‘ جس، پر 16 مئی کو ’’ پیاسا شہر کراچی اور سیّد وزیراعلیٰ ‘‘ کے عنوان سے مَیں نے اپنے کالم میں لِکھا کہ ’’ مراد علی شاہ صاحب ! ’’کالا باغ ڈیم ‘‘ تو، ایک زندہ اونٹ ہے اور ڈیم کے مخالفین نہیں جانتے کہ ’’ شُتر کِینہ کیا ہوتا ہے؟‘‘۔ 

سی سی آئی کا معاملہ ؟

اب کیا کِیا جائے کہ ۔ سیّد ؔ کہلانے والے (پی۔ پی۔ پی۔ پی) کے ایک لیڈر خورشید شاہ صاحب کا گزشتہ روزالیکٹرانک میڈیا پر ایک بیان گونج رہا تھا کہ ’’ کالا باغ ڈیم ‘‘ تو، سی سی آئی کا معاملہ ہے اور وہ وہیں حل ہونا چاہیے!‘‘۔ شاہ صاحب نے یہ بھی کہا کہ ’’ سندھ ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیاں پہلے ہی ’’ کالا باغ ڈیم‘‘ کی تعمیر کے خلاف قراردادیں منظور کر چکی ہیں ! ۔ اِس لئے سپریم کورٹ کو ، چاہیے کہ وہ ’’ کالا باغ ڈیم‘‘ کا مسئلہ بھی سی سی آئی کو حل کرنے دیں!‘‘۔ معزز قارئین! عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ’’ سیّد کہلانے والا کوئی بھی شخص ، جھوٹ نہیں بولتا‘‘۔ اِس کے باوجود شاہ صاحب کو وضاحت کرنا ہوگی کہ ’’کیا پاکستان کی تین صوبائی اسمبلیوں نے سی سی آئی کی شہ پر ہی ’’کالا باغ ڈیم‘‘ کے خلاف قراردادیں منظور کی تھیں؟ ۔

اب تو، مجھے بھی چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب سے درخواست کرنا ہوگی کہ ’’ جب وہ پانی کی قِلّت اور ’’کالا باغ ڈیم ‘‘ کی تعمیر سے متعلق ، آصف زرداری صاحب اور میاںنواز شریف کو عدالت میںطلب کریں تو، کیوں نہ خورشید احمد شاہ کو بھی طلب کرلیں ؟ اور ہاں! کیوں نہ میرے اِس مؤقف پر غور کِیا جائے کہ’’ پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد ، ’’قائدِ عوام ‘‘ کہلانے والے ذوالفقار علی بھٹو کیا سی سی آئی کی حمایت سے پاکستان کے ’’سِولین ‘‘ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے تھے ؟ اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے ،جب اپنی زندگی میں اپنے ’’مجازی خُدا ‘‘ نان گریجویٹ آصف زرداری کو پاکستان پیپلز پارٹی کا کوئی بھی عہدہ نہیں دِیا تھا تو، پھر وہ اُن کے قتل کے بعد ، صدرِ پاکستان کیسے منتخب ہوگئے؟۔ تو معزز قارئین! مَیں تو اپنے یکم دسمبر 2012ء کے کالم پر اب بھی اصرار کرتا ہُوں کہ ’’ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق چاروں صوبوں کے عوام کی براہ راست رائے لی جائے‘‘۔ ریفرنڈم کرایا جائے!۔