لاہور ( رانا محمد عظیم) کا لعدم تنظیموں کے بعد این جی اوز کی آڑ میں فنڈنگ حاصل کر کے ذاتی اکائونٹس میں پیسے ٹرانسفر کرنے ، منی لانڈرنگ کرنے ، جائیدادیں بنانے اور این جی اوز کے نام پر پیسے اکٹھے کرکے کا لعدم تنظیموں کے اہم افراد کو دینے والے افراد کے خلاف بھی آپریشن کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا، ایسی تمام این جی اوز اور ان کے ذمہ داران کے حوالے سے 3 اہم اداروں نے نہ صرف ابتدائی رپورٹ تیار کر لی بلکہ کن کن بینک اکائونٹس میں این جی اوز کے نام پر اکٹھی کی گئی رقم جا رہی ہے ، اس کے ساتھ ساتھ این جی اوز کو چلانے والے کس تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے کن کن سے روابط ہیں، اس حوالے سے بھی رپورٹ آخری مراحل میں ہے ۔ ذرائع کے مطابق 300 سے زائد ایسی این جی اوز سامنے آئی ہیں جو کہ نہ صرف ایسے کاموں میں ملوث ہیں بلکہ ان این جی اوز کو چلانے والے ان کے نام ہر اکٹھی ہونے والی کڑوروں روپے کی فنڈنگ میں سے 15 فیصد این جی اوز پر استعمال اور 85 فیصد لینڈ مافیا کو انوسٹ کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس ضمن میں 130 ایسی این جی اوز بھی سامنے آئی ہیں جو صرف کاغذات کی حد تک موجود ہیں مگر انکے بینک اکائونٹس موجود ہیں، زکوۃ اور دیگر فنڈنگ ان کے اکائونٹ میں جاتی ہے جبکہ 82 ایسی این جی اوز کا بھی انکشاف ہوا جو پاکستان کے اند ر مختلف ناموں سے کام کر رہی ہیں، زیادہ تر غیر ملکی فنڈنگ سے چلائی جا رہی ہیں، کا غذات میں مقصد اور ہے جبکہ حقیقت میں ہر پاکستان کے خلاف ہونے والے ایونٹ میں وہ فنڈنگ کرتے ہیں ۔ ذرائع کے مطابق یہاں تک ایک رپورٹ میں لکھا گیا کہ لاہور، کراچی، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ اور دیگر بڑے شہروں میں تھلیسیمیا، ڈائلسز اور دیگر بیماریوں کے حوالے سے ایسی نامور این جی اوز سامنے آئی ہیں جہاں کڑوروں کی فنڈنگ ہوتی ہے مگر 15 فیصد این جی اوز کے کاموں میں استعمال اور باقی ہڑپ ہو رہی ہیں اور اس پر سرکاری افسروں سے لیکر دیگر اداروں کے لوگ بھی اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس حوالے سے ایک ایسی رپورٹ بھی سامنے آئی جس میں معروف صحافیوں کا نام استعمال کر کے بھی کئی این جی اوز چلائی جا رہی ہیں ۔ ذرائع کے مطابق اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ رمضان المبارک کے مہینہ سے پندرہ دن پہلے اچانک یہ نامور این جی اوز حرکت میں آتی ہیں اور پھر اس کے بعد کروڑوں روپے کی فنڈنگ حاصل کر کے رمضان کے فوری بعد ان کے دفاتر بھی بند ہو جاتے ہیں ۔ ذرائع کے مطابق رپورٹ میں کئی ایسی ہائوسنگ سوسائٹیوں کے نام لکھے گئے ہیں، جن کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ان ہائوسنگ سوسائٹیوں میں مختلف این جی اوز چلانے والے افراد کے مہنگے پلاٹ ہیں۔