پچھلے کالم ،،اپنے عہد کیلئے لکھنا۔۔ پر بہت رد عمل سامنے آیا، عمومی طور پر قارئین نے اسے ایک تشنہ اور نا مکمل کالم قرار دے کر اپنے با شعور ہونے کا ثبوت پیش کیا، واقعی ایک عہد کو ایک کالم میں مقید نہیں کیا جا سکتا، واقعتاً کالم کوئی بھی مکمل نہیں ہوتا، یہاں لفظوں کی تعداد کی قید میں رہ کر لکھنا پڑتا ہے، پانچ ،دس سطریں بھی اضافی ہو جائیں تو ایڈیٹر حضرات الفاظ پورے رکھنے کیلئے اسے کاٹ دیتے ہیں، کوئی کالم غالب یا میر کا مصرعہ یا شعرتو ہوتا نہیں کہ اس کی تشریح پڑھنے والوں پر چھوڑ دی جائے، بے شک کالمسٹ کو اسے اپنے موضوع کو انجام دینا پڑتا ہے، لیکن یہ بھی یاد رکھا جائے کہ کسی کہانی کا کوئی انجام ہوتا ہی نہیں ہے، کہانی کبھی ختم نہیں ہوتی، جس کہانی کا اختتام ہو جائے اسے کہانی نہیں محض ایک واقعہ کہا جا سکتا ہے، ہم جس عہد میں جی رہے ہیں اس کاآغاز دو،چار یا دس سال پہلے نہیں ہوا، ہماری کہانی تو اس دن شروع ہوئی جب برصغیر میں پہلے مسلمان نے قدم رکھا تھا، ہمارے عہد میں بانی پاکستان حضرت قائد اعظم بھی موجود ہیں اور مولانا ابو الکلام آزاد ،سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور مولانا مودودی جیسے جید کردار بھی۔ ان سب کرداروں پر سیکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں لیکن کتابوں کی یہ کثیر تعداد اپنے موضوع کی تشنگی دور نہیں کر سکی، بہتر سال اور بھی گزر جائیں گے ،آنے والی نسلیں پتہ نہیں کہاں کھڑی ہوں گی لیکن یہ بحث اگلی صدی میں بھی چلتی رہے گی کہ پارٹیشن درست تھی یا درست نہیں تھی، میں سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی غیر مسلم لیگی مسلمان لیڈر قیام پاکستان کا مخالف نہیں تھا ،ان لوگوں کے اپنے اپنے تحفظات تھے،آج ہم ان تحفظات کوآسانی سے پرکھ بھی سکتے ہیں، ایسے تمام لوگ آگاہ کر رہے تھے کہ آزاد مسلم ریاست کے قیام کے بعد کیا کیا مسائل سامنے آ سکتے ہیں، یہ وہ قائدین تھے جو زندہ نہ ہونے کے باوجودآج کے عہد سے بھی جڑے ہوئے ہیں، مریم نواز شریف، بلاول بھٹو اور حتی کہ مولانا فضل الرحمان ہی نہیں حکمران پارٹی کے لوگ بھی اسی عہد کا تسلسل ہیں جس دور کو بعض لوگ ماضی کا نام دیتے ہیں، مختلف نکتہ نظر رکھنے والے یہ لوگ کہتے کیا تھے؟ اس کی وضاحت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے اس آخری خطاب سے ہی ہوجاتی ہے جو انہوں نے 26اپریل 1946ئمیں دہلی کے اردو پارک میں کیا تھا۔ مجھے پاکستان کے معرض وجود میںآ جانے کا اتنا ہی یقین ہے جتنا کہ اس بات پر ہے کہ سورج کل بھی مشرق سے ہی طلوع ہوگا۔ لیکن پاکستان وجود میںآ جانے کے بعد وہ آزاد وطن نہیں ہوگا جس کا خواب دیکھا جا رہا ہے،آزاد وطن میں قیادت کے قول و فعل میں تضادات ہوں گے، ایک طرف مغربی پاکستان ہوگا اور دوسری جانب مشرقی پاکستان، دس کروڑ پاکستانیوں کے درمیان چالیس کروڑ کی متعصب ہندوآبادی ہوگی، ہندوستان پاکستان کا پانی روکے گا، معیشت کو مضبوط نہیں ہونے دے گا، ایک وقت وہ آ جائے گا جب مغربی پاکستان مشرقی اور مشرقی پاکستان مغربی پاکستان کی مدد نہ کر سکے گا، ہمیشہ چند خاندانوں کی حکومت رہے گی، حکمران جاگیردار، سرمایہ دار اور صنعت کار سامراج کے ایجنٹوں کا کردار ادا کرتے رہیں گے، حکمرانوں کی لوٹ کھسوٹ سے پاکستان میں غریبوں کا جینا ہمیشہ مشکل رہے گا،کسان اناج کو ترسیں گے، امیر طبقہ امیر سے امیر تر ہوتا چلا جائے گا، یہ سب کچھ تو ہوگا لیکن مسلمان اپنے لئے ایک علیحدہ اورآزادانہ ریاست کے قیام کے اس لئے خواہاں ہیں کہ ہندو تنگ نظر اور مسلمان دشمن ہے، اس نے اچھوتوں کے لئے تو مندروں کے دروازے کھول دیے لیکن مسلمانوں کے لئے کبھی دل کے دروازے وا نہیں کرے گا، (قارئین کرام کے سامنے یہاں یہ بتانا بھی اپنی ذمہ داری تصور کرتا ہوں کہ میرے والد محترم نعیم ہاشمی صاحب بھی آغا شورش کاشمیری کی طرح امیر شریعت کے سرگرم عملی مریدین میں شامل تھے اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی وفات تک ان کے حلقہ طریقت میں شامل رہے) ٭٭٭٭٭ نواز شریف کی بیٹی کھل کر سامنے آ چکی ہے، خاندانی شریکا ایک بڑا کھڑاک کرکے خود بے نقاب کر دیا ہے، چچا حضور جناب شہباز شریف کی جتنی بے عزتی کر سکتی تھیں کر چکی ہیں، بھتیجی کے ہاتھوں بے عزت ہونے والے جناب شہباز شریف قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں، انہوں نے ایوان میں ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے حکومت کو میثاق معیشت کی تجویز دی تھی جس پر وزیر اعظم عمران خان کا مثبت ردعمل سامنے آیا اور انہوں نے میثاق معیشت کیلئے کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کیا، مگر شیر دی بچی مریم نواز اس مجوزہ معاہدے پر جس شدت سے چیخی ہیں وہ چیخ بلا سبب نہیں ہو سکتی، لگتا ہے کہ پردے کے پیچھے کچھ اور بھی ہے، سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جس اپوزیشن لیڈر کو اس کے بڑے بھائی اور پارٹی کے قائد نے جیل میں بیٹھ کر بے توقیر کر دیا ہے تو وہ آئندہ اسمبلی کے اندر بولے گا کیا، سوائے اس کے کہ بڑا بھائی میرا قائد ہے اور میری تجویز غلط تھی جسے میں واپس لیتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ ایوان میں اپنی کوئی تجویز پیش نہیں کروں گا، یہاں میں قارئین کے سامنے ایک سوال بھی اٹھانا چاہوں گا،۔۔کیا شہباز شریف جن کا ایک طرہ امتیاز ان کا غصہ بھی تصور کیا جاتا ہے، اپنی بھتیجی کے ہاتھوں اپنی نفی آسانی سے قبول کر لیں گے؟ کیا وہ زباں بندی جاری رکھیں گے؟ کیا حمزہ شہباز مریم نواز کی حدیں پار کرتی ہوئی بالادستی کے سامنے سر جھکا دیں گے؟ یا مسلم لیگ ن میں کوئی نیا طوفان سر اٹھائے گا؟ کیا مسلم لیگ ن میں مسلم لیگ شین کے نام سے ایک نیا دھڑا قائم ہوگا؟ مریم نواز کی پریس کانفرنس کے حوالے سے حمزہ شہباز کہتے ہیں کہ ن لیگ کی قیادت نواز اور شہباز مل کر کریں گے،، واہ کیا سرکاری خوش فہمی ہے میثاق معیشت کی تجویز توآصف علی زرداری نے بھی پیش کی تھی، بلکہ شہباز شریف سے زیادہ دبنگ انداز میں یہ تجویز پیش کی، اس سے پہلے یہی تجویز اسحاق ڈار بھی پیش کر چکے ہیں تو پھر سارا نزلہ صرف شہباز شریف پر ہی کیوں گرایا گیا، کیا شہباز شریف کو پیغام دیا گیا کہ انہیں ٹیلنٹڈ بھتیجی کی اطاعت کرنا ہوگی،شاید پیغام پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی دے دیا گیا ہے کہ انہیں بھی ن لیگ اور مریم نواز کے پیچھے چلنا ہوگا،آصف زرداری نے مریم نواز کی پریس کانفرنس کے بعد پہلے قومی اسمبلی میں کہا،،میثاق معیشت،، پر فیصلہ اپوزیشن کے مشترکہ اجلاس میں ہوگا اور پھر پیپلز پارٹی نے باضابطہ طور پر اپنے شریک چیئرمین کی تجویز ہی واپس لے لی،،، بلاول بھٹو باپ سے نہیں سارے گر اپنی شہید ماں سے سیکھے ہوئے ہیں، وہ اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ ن لیگ کبھی برابری کی سطح پر ان کے ساتھ نہیں چلے گی، اپنے اس فہم کا اظہار انہوں نے مریم نواز سے ون ٹو ون ملاقات کے بعد کر دیا تھا، بلاول بھٹو نے اس دن کہا تھا کہ ہم امید رکھتے ہیں کہ مریم نواز ہمارے ساتھ خلوص کے ساتھ چلیں گی، بلاول کا یہ فقرہ ن لیگ پر عدم اعتماد کا اظہار تھا،۔۔۔ حکومت کے خلاف مشترکہ تحریک کیلئے مولانا فضل الرحمان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہا۔ کیونکہ مدرسوں کے طالبان بھی کبھی صدق دل سے عمران خان کے خلاف اسلام آباد کی سڑکوں پر نہیںآئیں گے۔۔۔۔۔ ٭٭٭٭٭