اُس وقت کی دستاویزات بتاتی ہیں کہ چودھویں صدی میں وبا پھوٹی‘ معلوم نہیں وبا کہاں سے شروع ہوئی مگر یہ قدیم سلک روڈ کے ساتھ ساتھ سفر کرتی 1343ء میں کریمیا پہنچ گئی‘ چار سال بعد1347ء میں یہ وبا بحری جہازوں کے مسافروں کے ساتھ سسلی کی بندرگاہ پر آ گئی‘ الیگزنڈریا میں بھی اس نے پنجے گاڑنے شروع کر دیے۔ سسلی سے وینس پھر پیسا‘ فلورنس اور روم۔ اس دوران 1348ء میں متاثرہ افراد کا پہلا جہاز مار سیلیز آیا۔ یہاں سے دریائی اور زمینی شاہراہوں کے ساتھ ساتھ وباپھیلنے لگی۔ پیرس اس کی لپیٹ میں آ گیا‘ وہاں سے انگلینڈ اور جون 1348ء میں پرتگال‘ جرمنی اور اگلے سال تک سکاٹ لینڈ میں یہ وبا پھیل گئی۔1349ء میں یہ یورپ کے بیرونی علاقے تک آ گئی۔ ناروے اس کے حملے کا شکار ہوا‘ 1357ء میں روس اس کا نشانہ بنا۔ اس مرض نے 1347ء سے 1349ء کے دوران فلسطین‘ شام اور الجزائر کو اجاڑ کر رکھ دیا۔کالی موت کہلائی جانے والی وبا نے دو کروڑ افراد کو نگل لیا۔ یورپ کی 45سے 50فیصد آبادی ہلاک ہو گئی۔ ایک ملک سے دوسرے ملک کی شرح اموات میں فرق تھا۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ میڈیٹر یرن شہروں میں شرح اموات 80فیصد تھی جبکہ یورپ کے شمالی علاقوں میں نسبتاً نقصان نہ ہونے کے برابر تھا‘ انگلینڈ اور جرمنی میں صرف 20فیصد آبادی ہلاک ہوئی۔ انیسویں صدی کے اختتام تک کالی موت کو طاعون کے نام سے پکارا جانے لگا۔ ہندوستان میں اس نے تباہی پھیلائی۔ ہمارے کئی گھرانوں میں ڈیڑھ دو سو سال پہلے کے اس وبائی زمانے کی کہانیاں سینہ بہ سینہ آج بھی سننے کو مل جاتی ہیں۔ انگریزی اور فرانسیسی ادب کی طرح اردو کے بعض ادیبوں نے بھی طاعون کے زمانے کی منظر کشی کی ہے۔ہندوستان اور کریمیا میں طاعون پھیلنے کی وجہ مکھیاں اور چوہے قرار دیے گئے۔ اس سے قیاس کیا گیا کہ پانچ چھ صدیاں پہلے کے لوگ صفائی ستھرائی سے غفلت برتتے تھے۔ معلوم ہوا کہ اعلیٰ گھرانوںکے لوگ اور امیر تاجر بھی صفائی کے معاملے میں لاپرواہ تھے۔ اس زمانے کو جہالت‘ وہموں اور گندگی کا دور کہا جاتا ہے۔ اس بات میں سچائی تھی یا نہیں اسے ایک طرف رکھتے ہوئے گزشتہ پچاس برس سائنسدانوں نے انیسویں صدی میں پھر سے پھوٹنے والے طاعون کے اسباب پر تحقیق کی ہے۔ اس تحقیق میں ڈی این اے ٹیسٹ کئے گئے ہیں۔ سنسنی خیز باتیں سامنے آئی ہیں۔ انیسویں صدی والے طاعون کی بعض خصوصیات چودھویں صدی والے طاعون سے ملیں۔ مثال کے طور پر یہ جس تیز رفتاری سے پھیلا‘ سسلی سے انگلینڈ تک 9ماہ میں پھیل گیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ طاعون پھیلانے والی مکھیاں شمالی یورپ کی آب و ہوا میں زندہ نہ رہ سکیں۔ پھر مرنے والے چوہوں کی تعداد کا معاملہ ہے۔ طاعون کے متعلق ان زمانوں میں جتنی تحریریں موجود ہیں ان سب میں مرے ہوئے چوہوں کی بات ضرور کی گئی ہے۔ کالی موت کے اسباب سے متعلق متبادل تھیوریز اس وبا کی بڑی وجہ مکھیاں اور چوہے نہیں بلکہ انتھراکس کو قرار دیتی ہیں۔ یہ وائرس ہے‘ چھوت کی بیماری۔ایک انسان سے دوسرے کو چمٹ جانے والی موت۔ آج جب انسان نے صفائی ستھرائی کے انتظام کر لئے ہیں لیکن انتھراکس اب بھی خوفزدہ کر دیتا ہے۔جو لوگ اس کی ہلاکت خیزی سے واقف ہیں وہ اسے جراثیمی ہتھیار بنانے کی مخالفت کرتے ہیں۔ چودھویں صدی عیسوی میں کالی موت کے اسباب سے واقفیت کے لئے شاید زیادہ تردد کی ضرورت نہیں کیونکہ آج کے دور میں اس وبا کے آنے کا امکان نہیں‘ آخر کو ہم باشعور کہلاتے اور سائنسی دور میں جی رہے ہیں۔ ہم ذہین نسل ہونے کے دعویدارہیں اور حفظان صحت کے اصولوں سے واقف۔ ہم فلش ٹوائلٹ استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے پاس ربر کے دستانے ہیں اور ہاتھ دھونے والے سینی ٹائزر۔ اینٹی بائیوٹک اور اینٹی وائرل ادویات کا تو ذکر ہی کیا۔ ہمارے لئے شاید یہ حیرت ناک نہ ہو کہ میڈیکل سائنس اور حفاظتی تدابیر کے باوجود ہم کرونا جیسی مرض کا آسان شکار کیوں ہو رہے ہیں۔ پاکستان‘ ایران‘ بھارت اور افغانستان کی تو بات ہی کیا کہ جہاں لوگ آج بھی کھیتوں میں رفع حاجت کرتے ہیں‘ پینے کے لئے صاف پانی میسر نہیں۔ کروڑوں لوگ جراثیم کش صابن کی شکل سے واقف نہیں‘ ہسپتالوں میں ڈاکٹر نہیں‘ وینٹی لیٹر نہیں بلکہ بہت سے علاقوں میں ہسپتال تک نہیں۔ علاج معالجے کے نظام کا بہت بڑا بوجھ اتائیوں‘ نیم حکیموں اور عاملوں نے اٹھا رکھا ہے۔ ان پسماندہ‘ غریب اور کم وسیلہ ممالک میں کرونا پھیلے تو سمجھ آتی ہے۔ ہم ان دیکھی مرضی سے نمٹنے کے انتظامات کرنے کی طاقت نہیں رکھتے لیکن امریکہ‘ اٹلی‘ انگلینڈ‘ آسٹریلیا ‘ فرانس کو کیا ہو گیا۔ ان ممالک نے چودھویں صدی عیسوی کی کالی موت پر تحقیق کی ہے۔ ان ملکوں نے امراض سے مقابلے کے لئے ادویات اور آلات ایجاد کئے۔ ان ملکوں کی کمپنیوں نے کھربوں ڈالر کے کاروبار کئے۔ ان ممالک کے شہری افریقی اور ایشیائی لوگوں کو آج بھی گندا اور غیر مہذب کہتے ہیں۔ یورپ ‘ امریکہ اور آسٹریلیا کے یہ صاف ستھرے اور ترقی یافتہ شہری کرونا کا شکار کیوں ہو رہے ہیں۔زرعی سماج کا ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے مجھے کرونا کی وجوہات مختلف دکھائی دیتی ہیں۔ یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ اٹلی کے لوگ زیادہ پیزا کھانے کی وجہ سے قدرتی غذائوں سے پیدا ہونے والی قوت مدافعت سے محروم ہوئے۔ چین میں بھی یہی وجہ سامنے آئی۔ یورپ‘ امریکہ اور آسٹریلیا اگر اپنی ضرورت کے لئے اناج اگاتے تو وہ اناج ان کی صحت کے لئے فائدہ بخش ہوتا لیکن وہاں ایسی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کی گئی جنہوں نے لاکھوں ایکڑ کے فارم بنا کر بھوک مٹانے کو کاروباری سلوگن بنایا۔ ان زرعی فارموں پر اگائی فصلوں سے انسان کا صرف پیٹ بھر رہا ہے‘ صحت بہتر نہیں ہو رہی۔ ترقی یافتہ دنیا کو اب اعتراف کرنا ہو گا کہ وہ صرف تجارتی طاقت کی بنیاد پر خود کو مہذب نہیں قرار دے سکتی۔ کہیں ایسا تو نہیں ہم خود کو صرف دھونا سیکھے ہوں‘ پاک ہونے سے واقف نہ ہوئے ہوں۔