’تحریکِ طالبان پاکستان‘ (TTP) کے ساتھ معاہدے کے اقدام پر تحفظات رکھنے والے شہریوں اور پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے ہلکی پھلکی دہائی تہائی کے بعد عسکری قیادت نے سیاسی رہنماؤں کو یقین دلایا ہے کہ کالعدم تنظیم کے ساتھ آئین سے ماورا کوئی معاہدہ نہیں کیا جائے گا۔دوہفتے قبل ’قومی سلامتی کمیٹی‘ کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پارلیمان کا خفیہ اجلاس بلایا جائے گا، جس میں قائد ایوان یعنی وزیر اعظم، دیگر رہنماؤں کو اس میں شامل کریں گے۔ اس بیان سے یہ تاثر ملا ہے کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا مسئلہ سیاسی قیادت کے ساتھ خوش اسلوبی سے حل ہو گیا ہے۔ معاملہ جو بھی ہو، یہ بات قابل غور ہے کہ سیاسی قیادت نے خود کو طویل عرصے سے سیکورٹی سے جڑے امور سے علیحدہ کر رکھا ہے۔ اب وہ سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کی بصیرت اور نقطہ نظر پر اعتماد کرتی ہے۔ یہاں تک کہ یہ سوچنا بھی بعید از قیاس لگتا ہے کہ سیاسی رہنما، اسٹیبلشمنٹ سے پوچھیں گے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ کس آئینی یا سیاسی فریم ورک کے تحت بات چیت شروع کی گئی۔ سیاسی قیادت نے اس وقت بھی کسی تشویش کا اظہار نہیں کیا تھا جب 2014ء میں ’تحفظِ پاکستان آرڈیننس‘ پارلیمان کے اندر پیش کیا گیا، پاکستان آرمی ایکٹ کی ایک شق سول قانونی دائرہ اختیار تک بڑھا دی گئی اور دہشت گردوں کو ’دشمن اجنبی‘ (enemy aliens) قرار دیا ’دشمن اجنبی کو ایک ایسے شخص کے طور پر بیان کرتا ہے جو شیڈول میں ذکر کردہ مخصوص جرائم کی بنیاد پر پاکستانی شہریت کے تقاضے پورے کرنے میں ناکام رہتا ہے ۔شیڈول میں جرائم کی توسیع شدہ فہرست شامل ہے، ان میں سے بیشتر 1997ء کے انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 6 کے تحت آتے ہیں۔ٹی ٹی پی نے آرڈیننس میں ذکرکیے گئے تقریباً تمام جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ تنازعات اور سیکورٹی سے متعلق ’پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز‘ کے ڈیجیٹل ڈیٹا بیس سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق، ٹی ٹی پی نے 2007ء میں اپنے قیام کے بعد سے اب تک، علیحدگی اختیار کرنے والے اور اس سے وابستہ مقامی گروہوں کے علاوہ، اکیلے پاکستان میں 3280 دہشت گردانہ حملے کیے جن میں 301 خودکش دھماکے بھی شامل ہیں۔کالعدم گروہ کی طرف سے کیے جانے والے ان حملوں کے ذریعے سیکورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 5772 اہلکار اور 4559 عام شہری شہید ہوئے۔ نیز 554 سیاسی رہنما اور کارکنان، 519 حکومت کے حامی قبائلی عمائدین اور CPEC سے متعلقہ منصوبوں پر کام کرنے والے 14 افراد بھی ان کارروائیوں میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان حملوں میں 352 جنگجومارے گئے جو یا تو خودکش حملہ آور تھے یا سیکورٹی فورسز کی جوابی فائرنگ میں مارے گئے۔ 2007 کے بعد سے، سیکورٹی فورسز کے تقریباً 1200 اہلکار بھی کارروائیوں، مسلح جھڑپوں اور عسکریت پسندوں کے ساتھ تصادم میں مارے گئے، خاص طور پر ٹی ٹی پی اور اس سے وابستہ گروہوں کے ساتھ تصادم میں۔ تصویر اس وقت مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے اگر ٹی ٹی پی اور اس کی سابقہ شاخوں، جیسے حز ب لاحرار اور جماعت الاحرار، کی طرف سے فرقہ وارانہ اور طبقاتی بنیادوں پر کیے گئے حملوں کو بھی شمار کیا جائے۔ حیران کن طور پہ جب ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات کی ابتدائی اطلاعات سامنے آئیں تو اس پر کوئی بڑا رد عمل سامنے نہیں آیا۔ صرف آرمی پبلک سکول حملے کے متاثرہ خاندانوں میں سے بعض نے کچھ آواز اٹھائی یا پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی جیسی سیاسی جماعتیں جنہوں نے دہشت گردانہ تشدد کا سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہوا ہے، انہوں نے اس پر کچھ شور مچایا۔اے این پی اور پیپلز پارٹی کا رد عمل قابل فہم ہے۔ ٹی ٹی پی نے ان کی اعلیٰ قیادت کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کی ہوئی ہے، جن میں بینظیر بھٹو بھی شامل ہیں۔ تاہم ان دونوں جماعتوں نے اس مسئلے پر عوام کو کبھی متحرک نہیں کیا جبکہ موجودہ حکومت میں شامل دیگر بڑی جماعتوں کو اس حوالے سے خاص تشویش نہیں ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے ٹی ٹی پی کے ساتھ نظریاتی وابستگی کی وجہ سے ہمیشہ بات چیت کے خیال کی حمایت کی جبکہ مسلم لیگ (ن) اپنی سیاسی ساکھ اور معیشت کی بحالی جیسے امور میں زیادہ مگن ہے۔ سیاسی جماعتوں کی مجبوریوں اور کوتاہیوں کے باوصف، سول سوسائٹی کی طرف سے ردعمل کا فقدان زیادہ حیران کن رہا ہے۔ بلاشبہ، معاشی بحران ایک سبب ہوسکتا ہے جس کے باعث لوگ اس طرف متوجہ نہیں ہوئے، لیکن دہشت گردی کا شکار افراد بھی اب تک اپنا احتجاج درج کرانے کے لیے متحرک نہیں ہوئے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں۔ تاریخی طور پر عسکریت پسندی اور مسلح تحریکوں کی تعریف و توضیح کے لیے استعمال کی جانے والی اصطلاحات کی تحلیل سیاست، قوم پرستی، شناخت، مذہب اور ریاستی اداروں میں طاقت کے توازن سے متعلق ساختیاتی مسائل کو بے نقاب کرتی ہے۔کچھ عرصہ پہلے تک، عوام یہ ماننے کے لیے ہی تیار نہیں تھے کہ طالبان یا دیگر مذہبی عسکریت پسند گروہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ ملک سے باہر ان کے اقدامات کو جہادی کارروائیوں کا نام دیا جاتا تھا۔ عسکریت پسند یا دہشت گرد قرار دیے جانے سے قبل، انہیں عموماًمحب وطن ‘ اور ’مجاہدین‘ کہا جاتا تھا۔ اس کے برعکس، اسٹیبلشمنٹ کا حامی میڈیا اور رائے عامہ تشکیل دینے والے عناصر مشرقی پاکستان اور بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکوں اور خیبر پختونخوا اور سندھ میں نسلی تحریکوں کا ذکر کرتے ہوئے کثرت کے ساتھ ’غداری‘ کی اصطلاح استعمال کرتے رہے ہیں۔ لوگ ایسی اصطلاحات کو خاص سیاق و سباق کے ضمن میں دیکھنے کے عادی ہوگئے، جب ان اصطلاحات کو مخصوص تناظر سے ہٹ کر استعمال کیا گیا تو انہیں ایک نئے تناظر کی تفہیم میں وقت لگا۔ مثال کے طور پہ جب کسی مذہبی رہنما کو پہلی مرتبہ غدار کہا گیا تو یہ عام آدمی کے لیے کچھ نامانوس سا تھا۔ چنانچہ پاکستان میں جب نائن الیون کے بعد مذہبی عسکریت پسندوں پر ‘غدار’، ‘شرپسند’ اور ‘دشمن’ جیسی اصطلاحات کا اطلاق کیا گیا تو عوامی سطح پر لوگوں کو ان اصطلاحات کے مختلف معانی، تناظرات اور پس منظر کو سمجھنے اور انہیں ہضم کرنے میں وقت لگا۔