میلکم گلیڈول کی چندکتابیں زیرِ مطالعہ ر ہیں۔ "Blink" اس کی پہلی کتاب ہے جسے پڑھنے کا موقع ملا۔ اس کتاب بارے کہا جاتا ہے کہ یہ آپ کو دنیا کو ایک مختلف زاویہ سے دیکھنا سکھاتی ہے۔ دوسری کتاب "The Tipping Point" تھی۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ کیسے بظاہر چھوٹا سا دکھنے والا قدم کتنی بڑی تبدیلیوںکا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ آخری کتاب "Outliers" تھی، جسے حال ہی میںمکمل کیا۔ یہ کتاب کامیابی بارے آپ کے نظریہ کو یکسر بدلنے کی قوت رکھتی ہے۔ اگرچہ یہ تینوں کتابیں ہی اپنے اندر تحقیق اور تخلیق کا خزانہ ہیں، لیکن "Outliers" ان تینوں میں سے وہ کتاب ہے جس نے مجھ پر گہرا اثر چھوڑا۔ اس کتاب نے اپنے اندر اتنا مگن کیا ، کہ ۳۰۰ سے زائد صفحات پر مشتمل یہ کتاب ڈیڑھ دن میں مکمل کرلی۔ اس کتاب کے ساتھ وابستگی اتنی مضبوط ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کامیاب لوگو ں کی کہانیاں سننے اور ان کی حیات بارے جاننے کا اشتیاق ہمیشہ کہیں نہ کہیں دل کے نہاں خانوں میں موجود رہا ہے۔ میں اور آپ جب بھی کسی کامیاب انسان کو دیکھتے ہیں تو اس کے ساتھ "self-made" ہونے کا ٹیگ بھی لگا نظر آتا ہے۔ میلکم گلیڈول اپنی اس کتاب میں اس امر پر روشنی ڈالتے ہیں کہ خواہ کوئی کتنا ہی کامیاب کیوں نہ ہو، اور اس نے اپنی کامیابی کا سفر چاہے کتنی ہی پسماندگی سے شروع کیوں نہ کیا ہو، لیکن کہیں نہ کہیں ارد گرد چھپے، بہت سے محرکات ہوتے ہیں جو در اصل اسکی کامیابی کی وجہ بنتے ہیں۔ ایک جگہ وہ کہتا ہے :’’کامیابی کوئی بے ترتیب عمل نہیںہے۔ یہ حالات اور موقعوں کے ایک متوقع اور طاقتور مجموعہ سے سامنے آتی ہے۔‘‘ ایک اور جگہ یہ بھی لکھتا ہے: ’’کامیابی کے لئے ممکنات کا احساس صرف ہمارے اندر یا ہمارے والدین کی طرف سے نہیں آتا بلکہ اُن مخصوص مواقع کی شکل میں بھی ظاہر ہوتا ہے، جو تاریخی اعتبار سے آپ کا ماحول آپ کو فراہم کر رہا ہو۔ دوسرے الفاظ میں کہیں تو گلیڈول کے ہاں کامیابی کی تعریف وہ روش ہے جسے اپناتے ہوئے آپ اپنے ارد گرد کے ماحول میں موجودیا وراثت میں ملنے والی ’’آپرچیونیٹی‘‘ بروے کار لاتے ہوئے کامرانی کی سیڑھیاں طے کرتے جاتے ہیں۔اس تجزیہ کو ثابت کرنے کے لیے گلیڈول بِل گیٹس کی مثال دیتا ہے ۔ اس کا یہ ماننا ہے کہ بل گیٹس کی پیدائش ایک ایسے وقت پر ہوئی جب اس کی متعلقہ انڈسٹری نشو نما پانے کی خواہاں تھی۔ بل گیٹس کا داخلہ اس کے والدین نے ایسے سکول میں کروایا جو کہ اُن چند سکولوں میں تھا جہاں کمپیوٹر کی تعلیم دی جاتی۔ بعد ازاں یونیورسٹی کے لیے ایک ایسے ادارے کا تعین کیا گیا جو بل گیٹس کے گھر کے بہت قریب تھا۔ خوش قسمتی یہ تھی کہ امریکہ میں چند ہی ادارے تھے جہاں کمپیوٹر استعمال کے لیے موجود تھے۔ یہ یونیورسٹی بھی انہیں میں سے ایک تھی۔ چنانچہ ، بل گیٹس ساری ساری رات یونیورسٹی میں موجود کمپیوٹر استعمال کرتا رہتا۔ بقول مصنف ، بل گیٹس کی کامیابی کا بہت بڑا راز یہ ہے کہ وہ صحیح وقت میں، ’’رائٹ آپرچیونیٹیزـ‘‘ کی بدولت صحیح سمت کی جانب رواں دواں ہوگیا۔ اسی طرح گلیڈول "10000 hours rule" کی بات کرتا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو کسی مخصوص سکِل یا مہارت کی ریاضت میںاپنی زندگی کے دس ہزار گھنٹے دیدیتے ہیں، کامیابی ان کے قدم چومتی ہے۔ گویا گلیڈول کا یہ ماننا ہے کہ اگر آپ صحیح رویہ کے ساتھ کسی ایک کام کو مکمل وقت دیں تو آپ اس کام کے ماہر بن سکتے ہیں۔ اور بعد میں آنے والی زندگی میں یہی مہارت آپ کے لیے انفرادیت کا باعث بن جائے گی۔ کیوں کہ آج مارکیٹ کو ڈگر یوں سے زیادہ’’ سکِل سیٹ‘‘ کی تلاش رہتی ہے۔ مزید گلیڈول کا یہ بھی کہنا ہے کہ کامیاب لوگ جلدی ہار نہیں مانتے ۔ یہ جس کام کو شروع کرلیں، پھر اس میں لگے رہتے ہیں ۔۔۔تانکہ اس کا م کوتکمیل تک نہ پہنچا دیں ۔ "10000 hours rule" بھی در اصل اسی مستقل مزاجی کی ایک شکل ہے۔ ماہر حیاتیات کا کہنا ہے کہ بلوط کا درخت جنگل میں سب سے لمبا ہوتا ہے، پرصرف اس لیے نہیں کیوں کہ اس کابیج سارے بیجوں سے سخت ہے۔۔۔بلکہ اس لیے بھی کہ کوئی اور درخت اس تک پہنچنے والی سورج کی کرنوں میں حائل نہیں ہوتا۔ اسے کے اردگرد موجود مٹی غذائی اجزاء سے لبریز ہوتی ہے۔ اور تو اور کوئی لکڑہارہ اسے کاٹنے کی جسارت نہیں کرتا۔ اسی پیرائے میں گلیڈول کا کہنا ہے کہ کوئی شک نہیں کہ کامیاب لوگ سخت بیجوں کو چیرتے اس میں سے نکلتے ہیں۔ البتہ ہماری نظر سورج کی ان کرنوں پر نہیں پڑتی جو انہیں صحیح وقت پر میسر آجاتی ہیں یا وہ مٹی جن میں ان کی جڑیں پروان چڑتی ہیں یا وہ جابر لکڑ ہارے جن کی کٹائی سے وہ کسی نہ کسی طرح بچ جاتے ہیں۔یہ وہ اہم وسائل ہیں جو کامیاب شخص کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسے جدید ادب کو پڑھتے ہوئے ایک خیال بار بار دل کو کھٹکتا ہے ، اور وہ یہ کہ ایسا ادب اردو زبان میںبھی موجود ہونا چاہئے۔ نہ صرف یہ بلکہ ایسا ادب جو آپ کی زندگی میں آپ کے لیے مدد گار ثابت ہو سکتا ہے، سکول اور کالج کے نصاب میں بھی کہیں نظر نہیں آتا۔ کامیابی دراصل رب کے فضل کے ساتھ ساتھ ڈٹے رہنا، کام کرتے رہنا اور محنت بجا لاتے رہنے کا نام ہے۔ البتہ جب منزلِ مقصود حاصل ہوجائے تو اس وقت مستقل مزاج ہوجانا اور جمے رہنا کردار کو عظمت بخشتا ہے۔ ہمارے ہاں اگر کوئی یہ باتیں، جو مغرب کی کتابوں میں عام ملتی ہیں ،لوگوں کے گوش گزار کرنے لگتا ہے، تو ہم ان باتوں سے کچھ اچھا اخذ کرنے کی بجائے ان باتوں اور انہیں کرنے والے کو نجانے کیا کچھ کہنا شروع ہوجاتے ہیں۔ باتیں عموما جدید نفسیاتی ادب میں کام ہی کی ہوتی ہیں۔ جن باتوں کوقابلِ قبول جانیں انہیں اپنے دامن میں رکھ لیں۔ جو سمجھ نہ آئیں، ان سے خاموشی سے اپنا دامن چرا لیں۔ اسی میں سمجھ داری ہے۔