ہمیشہ یہ سوچنا چاہیے کہ مسلسل ناکامی، مستقل کامیابی میں بدلی جا سکتی ہے

اپنی ناکامی تسلیم کرنا،تخلیقی صلاحیتوں کو بڑھاتا، بڑی کامیابیوں سے ہمکنار کر تا ہے

ناکامی کا خوف نہ پیدائشی چیزہے،نہ ہی یہ انسانی جبلت کا حصہ ہے 

بہت چھوٹے بچوں میں ناکامی کا کوئی خوف نہیں ہوتا، اس لیے وہ تیزی سے سیکھتے ہیں

شبیر سومرو

جیسے کہتے ہیں کہ خاموشی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے، اسی طرح کہا جاسکتا ہے کہ انسان کی ہر ناکامی، اس کی آنے والی کامیابی کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ ہیری پوٹر جیسے مقبول ترین ناول سیریز کی مصنفہ جے کے رولنگ کہتی ہیں کہ اگر آپ بار بار ناکام ہونے کاحوصلہ نہیں رکھتے تو پھر کامیاب ہونے کے خواب دیکھنا بھی چھوڑ دیجیے۔

آپ ایک انسان کی زندگی جی رہے ہیں تو پھر یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ کہیں، کسی موڑ پر یا کسی معاملے میں ناکام نہ ہوئے ہوں۔اگر آپ کاکبھی ناکامی سے سامنا نہیں ہوا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ غیر انسانی طور پر محتاط ہیں یا پھر زندہ ہی نہیں ہیں!۔

ناکامی انسانی زندگی کاایک طرح سے ’اٹوٹ انگ‘ ہے۔اور وہ ناکامی ہی ہوتی ہے جو زندگی کے کسی موڑ پر ٹوٹ کر، کامیابی کو آپ کی زندگی میں آنے کا موقعہ دیتی ہے۔یہاںچھوٹی موٹی ناکامیوں کی بات نہیں ہو رہی ہے بلکہ زندگی میں ایسی ناکامیاں لازمی ہونا چاہییںجو آدمی کو توڑ کر رک دیں، ایسی کہ عزیز اور دوست بھی دور ہوجائیں، بندہ مالی اور ذہنی سطح پر ایک طرح سے ختم ہی ہوجائے۔ اس کے بعد ہی ایسی کامیابی آکر، اُس چنگاری کو راکھ سے دوبارہ بھڑکا کر شعلہ بناتی ہے۔جیسے ققنس پرندہ دیپک راگ گا کر اپنی ہی آگ میںجل کر خاک ہوجاتا ہے اور پھر اس خاک سے ایک نیا پرندہ پیدا ہوتا ہے۔ مطلق کامیابی بھی اسی طرح جل کر حاصل ہوتی ہے۔  

یہاں ہمارا مطلب یہ نہیں کہ انسان ناکامی کو لطف و انبساط بخشنے والی کوئی سوغات سمجھ کر زبردستی اسے گلے سے لگالے۔ نہیں ، یہ بات نہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ ہمیں یہ قبول کرلینا چاہییے کہ ناکامی کے بغیر کامیابی نہیں مل سکتی۔ اگر ہم مسلسل ناکام ہو رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی ہم وہ طریقہ، وہ تکنیک تلاش نہیں کرپائے جو کامیابی تک لے جانے کے لیے ضروری ہے۔یعنی مستقل کامیابی ،مسلسل ناکامی کے بعد نصیب ہوتی ہے۔  

ناکامی، زندگی میںانسان کی سب سے بڑی اور باصلاحیت استانی ہوتی ہے۔ایک آدمی جو عملی زندگی شروع کرتا ہے، اسے خود کو لکڑی کا کندا یا درخت کاغیر تراشیدہ ، خام تنا سمجھنا چاہییے۔۔۔ اور ناکامی کو لوہے کی وہ چھینی سمجھنا ہے جو اسے گھڑتی ہے، اس کے ’جسم‘سے اضافی بوجھ(انا، عدم برداشت، بزدلی، خوف) تراش کر اسے ایک قابل قبول ’پروڈکٹ‘ کی شکل دیتی ہے، سکّہ رائج الوقت بناتی ہے۔

انسانوں کو عروج تک لے جانے کا قدرت کا اپنا طریقہ ہے۔اگر ناکامی کو دیکھیے تو اس طریقے کا بنیادی اور اہم حصہ ہے۔

دنیا کے کامیاب ترین لوگ پہلے ناکام ترین لوگ تھے

مشہور موجد تھامس ایلوا ایڈیسن کے لیے کہتے ہیں کہ اس پر بجلی کے بلب کو تجارتی پیماے پر بنانے کی دھن سوار تھی۔ اس نے کام کے لیے سیکڑوں نہیں، ہزاروں طریقے اپنائے۔ ہر بار ناکام ہونے پر وہ خود کو سمجھاتا تھا کہ ابھی میں وہ طریقہ تلاش نہیں کرپایا جو مجھے کامیابی کی جانب لے جائے۔ اس دھن میں وہ دس ہزار مرتبہ ناکام ہوا مگر ایک بار بھی مایوس یا دل شکستہ نہیں ہوا۔ بالآخر دس ہزار ناکامیوں کے بعد کامیابی اسی کے حصے میں آئی اور آج انسان ذات تاریکی سے نکل کر روشنی میں آچکی ہے۔ بجلی کے بلب نے صرف رات کا اندھیرا ہی دور نہیں کیا بلکہ اسی کے کے ساتھ لاکھوں قسم کی دیگر ایجادات چل رہی ہیں۔ ایڈیسن جیسے دھن کے پکے ہزاروں انسانوں کی کامیابیاں، دراصل ان کی اوّلین ناکامیوں کی مرہونِ منّت ہیں۔یوں تھامس ایڈیسن، بلب کو تجارتی بنیادوں پر تیار کرنے کی کوشش میں 10ہزار مرتبہ ناکام رہا مگر اس نے ہر ناکامی سے ایک نئی بات کا پتا لگایا کہ یہ والا تازہ تجربہ بھی بلب کو تجارتی بنیاد پر تیار کرنے کے لیے کارگر نہیں ۔یوں اسے آخرکار جو کامیابی نصیب ہوئی، وہ 10 ہزار ناکام تجربوں کے علم کا نتیجہ تھی۔

جب ہم ناکامی سے متعلق سوچتے ہیں تو ایک طرح سے ہم چیزوں کا منفی پہلو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ہم ناکامی کو دردناک چیز سمجھتے ہیں جو ہمیںجذباتی طور پر توڑ دیتی ہے۔ہم احساسِ کمتری، افسوس اور مایوسی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ جب کہ ہونا یہ چاہییے کہ ہمیں ناکامی کو ٹپّا کھانے والی گیند کی طرح لینا چاہیے جو ایک بار فرش پر زور سے دے ماری جاتی ہے تو اسی قوّت سے واپس آتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ناکامی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ یہ دل کو بلیڈ کی طرح چیر کر رکھ دیتی ہے۔مگر  اس کے باوجود یہ بہت ضروری ہے۔

رسک لینا اور گر کر اٹھنا فطری ہے۔جیسے بچہ جب چلنا سیکھتا ہے تو بار بار گرتا ہے مگر اس کے اندر جو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے اور چلنے کا شوق ہوتا ہے، وہ اسے نچلا بیٹھنے نہیں دیتا اور وہ گرنے کی پروا نہیں کرتا۔بھلا ایسے موقع پر اس ننھے بچے کی ماںفکرمند کیوں نہیں ہوتی؟ اس لیے کہ اسے پتا ہوتا ہے کہ اگر بچے کو چلنا اور آگے بڑھنا ہے تو بار بار گرنا فطری بات ہے اور اسی سے وہ سیکھے گا۔ ایسے ہی انسان کو کامیابی کے حصول کو شوق بنا نا چاہیے، ناکام ہونے سے ڈرنا نہیں چاہیے۔

ہماری دنیا ہمیشہ مہم جو لوگوں، کارنامے انجام دینے والوں اور دوسرے ہیروز کی کامیابیوں ہی کو یاد رکھتی ہے اور ان کی کامیابیوںکے دن مناتی ہے۔ کبھی یہ نہیں سنا کہ فلاں ہیرو جس کارنامے کی وجہ سے مشہور ہوا، اسے انجام دینے سے پہلے وہ کتنی بار ناکام ہواتھا؟ نہ اس بات کو یاد رکھا جاتا ہے اور نہ ہی اس ناکامی کو سیلی بریٹ کیا جاتا ہے جو کامیابی سے پہلے دیکھنا پڑی تھی۔   

باسکٹ بال کے معروف کھلاڑی 

مائیکل جورڈن کہتے ہیں:

’’میںنے اپنے کیریئر میں 9ہزار شاٹس مس کیے ہیں۔میں3سو بار کھیل ہارا ہوں۔مجھے26  مرتبہ آخری اور فیصلہ کن شاٹ لگانے کا موقع دیا گیا لیکن میں نے وہ ہر مرتبہ مس کردیا۔مطلب یہ کہ میں زندگی میں بار بار ۔۔۔اور ہزاروں بار ناکام ہوا ہوں۔اور آج میں اپنی انھی مسلسل ناکامیوں کی وجہ ہی سے ایک کامیاب ترین انسان ہوں‘‘۔

ناکامی کے ویسے تو کئی سبق ہوسکتے ہیں جو ہم اس سے سیکھتے ہیںمگر ان میں سے پانچ اہم ہیں جو ہمیں لازماً ذہن نشین کرنا چاہییں۔

1 ۔ تجربہ:ناکامی ہمیں جو سب سے پہلا اور اہم ترین سبق دیتی ہے، وہ ہے تجربے کی حاصلات۔آخرناکام ہونے پر ہوتا کیا ہے ؟ ناکام ہونے پر ہمیں جو تجربہ حاصل ہوتا ہے،اس کے طفیل  ہم زندگی کو زیادہ گہری نظر سے دیکھنے اور سمجھنے لگتے ہیں۔سو ناکام ہونے کا تجربہ انمول ہوتا ہے۔یہ جو سبق سکھاتا ہے، وہ ہم ہزاروں روپے فیس ادا کر کے کسی تربیتی ادارے سے نہیں سیکھ سکتے۔ناکامی سے جو تکلیف ہوتی ہے، وہ ہماری ذہنی صلاحیت، استعداد اور برداشت کو بڑھاوا دینے کا باعث بنتی ہے۔یہ تجربہ ہمیں مستقبل کے لیے اس طرح تیار کرتا ہے کہ ہم کامیابی کے حصول کے لیے زیادہ بہتر تیاری سے کوشش کرتے ہیں۔

2 ۔علم یا معلومات:

ناکامی اپنے ساتھ قابلِ عمل معلومات لے کر آتی ہے۔پہلی بار جو ناکامی ہوئی اور اس سے جو تکلیف  محسوس ہوئی تھی، یہ معلومات ہمیں سکھاتی ہے کہ اس کو ایک ہتھیار کے طور پر کیسے استعمال کرناچاہیے؟۔اس لیے ناکامی کے نتیجے میں ملنے والی معلومات کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔

3۔لچک:ناکامی ہماری زندگی میں لچک لے آتی ہے۔ہم جتنا ناکام ہوتے ہیں، ہمارے اندر کوشش اور جدوجہد کے حوالے سے اتنی لچک آتی جاتی ہے جو ہمیں مزید بہتر کوشش کرنے پر اکساتی ہے۔عظیم کامیابی کے لیے ہمیں اس طرح کی لچک کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔طبیعت میںلچک کی صلاحیت ہماری آگے کی زندگی میں بہت مددگار ہوتی ہے۔ 

4 ۔نشونما یا بڑھوتری:

جب بھی ہم ناکام ہوتے ہیں تو ہمارے اندر ایک انسان کے طور پر نشونما کا عمل تیز اور پختہ ہوتا ہے۔ہم اپنی زندگی کے مقصد اور معنی کو سمجھنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔یہ زندگی قدرت نے ہمارے لیے اس طرح مرتب کی ہے کہ ہمیں ہر وقت کچھ نیا سیکھنے اور خود کو آگے بڑھانے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ایک انفرادی ذات سے لے کر عالمی کردار تک نشونما یا بڑھوتری ہماری زندگی کا بنیادی حصہ ہے۔ 

5 ۔قدر یا اہمیت:ناکام ہونے کی صورت میں ہم زندگی میں کامیاب ہونے کی قدر سے واقف ہوتے ہیں۔ یہ قدر یا اہمیت ایسی ہے جس کی عدم موجودگی میں مستقبل کی کامیابی مل نہیں سکتی۔

آخر ناکامی پر قابو کیسے پایا جائے؟

اس سوال کے کئی جواب ہوسکتے ہیں۔یعنی ناکامی پر قابو پانے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں۔بس شرط یہ ہے کہ آپ ایک بار یہ سمجھ لیں کہ ناکامی ہوتی کیا ہے اور یہ آپ کی کس طرح ’خدمت‘کرتی ہے؟تب آپ کھلے دل اور کشادہ ذہن سے ناکامی کا استقبال کریں گے اور اس سے لطف حاصل کریں گے۔جی ہاں، اگر آپ چاہیں تو ناکامی لطف و انبساط بخشنے کا باعث بھی ہوسکتی ہے۔

اب آئیے کہ دیکھیں کہ ہم ناکامی سے کام لے کر کیسے کامیاب ہوسکتے ہیں۔ پہلی شرط یہ ہے کہ آپ اپنے نقادوں کو قطعی نظر انداز کر دیجیے۔جب آپ اپنی کسی کوشش میں ناکام ہوتے ہیں، تب آپ کے ارد گرد کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو پہلے سے قسم کھا ئے بیٹھے ہوتے ہیں کہ آپ کی ناکامی پرآپ کو اس طرح جتائیں گے:

’’میں نے تو تمھیں پہلے ہی کہا تھا!‘‘

’’تم اگر میری بات مان لیتے تو آج تمھیںیہ دن دیکھنا نہ پڑتا!‘‘

اس طرح کے تبصرہ نگاروں کو یکسر نظر انداز کر دیجیے۔ زندگی آپ کی ہے اور اس میں آنے والی ناکامی بھی آپ کی ہے۔اس میں کسی اور کا لینا دینا نہیں۔ کل اگر آپ کامیاب ہوجائیں گے، تب بھی یہی لوگ انھی باتوں کو دوسرے لہجے میں کریں گے، جس سے یہ تاثر ملے گا کہ ان کے کہنے پر چل کر ہی آپ کامیاب ہوئے ہیں!۔

دوسری بات یہ کہ آپ خود کو یہ پکا یقین دلا دیں کہ ناکام ہونا ضروری ہوتا ہے۔ یہ بھی ناکامی پر کنٹرول کرنے کا ایک طریقہ ہے۔دنیا میں جن لوگوں نے بھی عظیم کامیابیاں حاصل کی ہیں، انھیں اس سے پہلے بھیانک ناکامیوں کے تجربات بھی ہوئے تھے۔کرنے کی بات صرف اتنی ہے کہ ناکامیوں پر شکست قبول نہیں کرنا ہے۔ناکامی اگر رُلادے یا خون تھکوا دے، تب بھی آپ کو اس کا احسان ماننا چاہیے اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ،مسکر کر کہنا چاہیے:

’’کوئی بات نہیں، تم اپنا زور لگالو۔۔۔ آخری کامیابی تو میرا ہی ہی نصیب ہے‘‘۔

یہی بات ہم اگر اپنے بچوں کو بھی سمجھا دیں کہ کامیابی تبھی آپ کے قدم چومے گی، جب آپ کے اندر ناکامی کو جھیلنے کا حوصلہ ہوگا۔اس سے بچے اپنا مقصدِ حیات پانے کے لیے دنیا اور اس کے مسائل کو اپنی ٹھوکر پر رکھیں گے۔یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ بچوں ،خاص طور پر بچیوں کو کامیاب بنانے کے لیے والدین کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ وہ بچے یابچی کی اس وقت کوئی تعریف نہ کیاکریں، جب وہ انھیں خوش کرنے کے لیے کوئی اچھا کام کرے۔۔۔ بلکہ ان کی تعریف اس وقت کریں، جب وہ کچھ نیا سیکھنے یا نیا کرنے کے چکر میں ناکام ہوجائیں یا نقصان کر بیٹھیں۔یاپھر وہ کوئی تخلیقی قسم کی شرارت کریں،تب خوش ہو کر ان کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے۔ اس سے ان کی کامیابی کی راہ ہموار ہوگی۔

یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہم جب ہر کام درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو گویا ہر قسم کی ’ناکامی‘ سے بھاگ رہے ہوتے ہیں،جب کہ زندگی میںناکامی کے بغیر ہم کچھ سیکھ ہی نہیں سکتے۔

حضرت علی ؓ کا قول:’’میں نے خدا کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا ‘‘۔ 

ہماری عادت بن چکی ہے کہ ہم ناکامی کے اسباب تلاش کرنے کے بجائے، اپنی نااہلی چھپانے کے لئے تاویلات اور توجیہات ڈھونڈنے لگتے ہیں۔تاریخ میں بہت سی شخصیات ہیں، جن پر زندگی کی ایک ناکامی نے ترقی و کامیابی کے دروازے کھول دیے تھے۔ہمیں ان کی زندگی میں آنے والی ناکامیوں کو دیکھ کر، کامیابی کی شاہ کلید کے حصول کی کوشش کرنا چاہیے۔

بنجمن فرینکلن ماڈل

جدید امریکی مفکر اور بابائے قوم سمجھے جانے والے بنجمن فرینکلن نے زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ان 13 صفات کی فہرست بنائی ،جنھیں وہ اپنانا چاہتا تھا۔ ان صفات کی اہمیت کے حساب سے اس نے ان کی ترجیحی فہرست تیار کی۔ ہرصفت کے لیے ایک الگ صفحہ استعمال کیا ۔ اس کے بعد بنجمن فرینکلن نے ایک وقت میں ایک صفت پر ایک ہفتہ توجہ مرکوز کی۔ اگر وہ اس صفت کو اپنانے میں ناکام رہتا تو اس کے آگے ایک سیاہ نشان لگا دیتا تھا۔ اس طرح اس نے مستقل مزاجی کے ساتھ باری باری تمام صفات پر کام کیا۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آیا کہ اسے کسی کے سامنے بھی سیاہ نشان نہیں لگانا پڑا۔ گویا وہ اْن اچھی عادات کو اپنا چکا تھا۔ اس تکنیک کے ذریعے اس نے اپنے ایسے روّیوں کو جو کہ اس کے لیے نقصان دہ تھے، اس طرح ترک کیا کہ نئے اور فائدہ بخش روّیوں کو اپناکر زندگی کو کامیاب بنایا۔

ہیری پوٹر ناول سیریز کی تخلیق کارجے کے رولنگ ،مصنفہ کے طور پر کیریئر شروع کرنے سے پہلے ایمنسٹی انٹرنیشنل لندن میں بطور سیکرٹری کام کرتی تھیں۔ وہ لڑکپن ہی سے مصنف بننے کا خواب دیکھتی آئی تھیں۔اس لیے اپنے دفتر میں کام کے دوران سب سے چھپ کر کہانیاں تحریر کیا کرتی تھیں ۔ ان کی کہانیوں میںایک لڑکا ہیری پوٹرہیرو ہوتاتھا۔جب دفتری اوقات میں کہانیاں لکھنے کی بات کھل گئی تو اس ’جرم‘ میںجے کے رولنگ کو ملازمت سے نکال دیا گیا۔جس کے بعد انھوں نے پوری توجہ لکھنے پر مرکوز کرلی۔ آج پوری دنیا ان سے اور ان کے کردار ہیری پوٹر سے واقف ہے۔ملازمت میں ناکامی نے جے کے رولنگ کی شہرہ آفاق کامیابی کی راہ ہموار کی۔

کے ایف سی کے بانی کرنل ہرلینڈ ڈیوڈ سینڈرز(Harland David Sanders) اپنا عالمی کاروبار شروع کرنے سے پہلے کئی بار ملازمتوں سے فارغ کیے جاتے رہے۔ہرلینڈ ڈیوڈ سینڈرز 1920 ء میں اپنے علاقے کنٹیکی میںسیلزمین کے طور پر کام کرتے تھے مگر تیز مزاج رکھتے تھے،اس لیے انھیں آئے دن نوکری سے نکال دیا جاتا تھا۔ آخر انھوں نے تنگ آکر اپنا ایک ریسٹورنٹ کھولا مگر ان کی بدمزاجی کے باعث وہ بھی بند ہوگیا۔اس طرح پے در پے ناکامیوں کے باعث وہ مایوس ہوکر گوشہ نشین ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد انھوں نے پھر ہمت پکڑی اور اپنا فرائیڈ چکن مقبول بنا کر فروخت کرنے کے لیے امریکا بھر کے دورے پر نکلے ۔اس بار بالآخر انھیں کامیابی ملی ۔ 1964 ء میں کرنل سینڈرز 74 سال کی عمر میں 6 سو سے زائد فرینچائیز آئوٹ لیٹ کھول چکے تھے ۔اس طرح دنیا کے مشہور برانڈ کے ایف سی کی بنیاد پڑگئی۔

سو میرے عزیز دوستو! کامیابی کا رازمسلسل ناکامی ہے۔ آپ جس حد تک چاہیں، ناکام ہو سکتے ہیں۔اس لیے کہ آپ کو دوبارہ کوشش کرنا ہے۔ خود کو یہاں تک تیار کر لیں کہ آپ کے خیالات بھی ناکام ہو سکتے ہیں۔ جب آپ کے ساتھ ایسا ہو تو پھر ناکام ہونے والے خیال، آئیڈیا پر آپ ’غیرضروری‘ یا ’مسترد‘ کاٹیگ لگاکر، اسے فی الحال تحت الشعور یا ذہن کے تاریک گودام میں پھینک دیں۔ کامیابی کے لیے اپنی کوششوں کو نمبر گیم کے تحت کھیلنے کی تیاری کریں۔اگر دس بار ناکام ہوئے ہیں تو گیارہ مرتبہ کامیابی کی کوشش کریں۔ یہ اضافی ایک نمبر ہی اس جدوجہد میں آپ کی شاہ کلید ہے۔

٭…٭…٭