کیا ہندوستان کا تصور کانگریس کے بغیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ خیال محض نریندر مودی کو ہی آسکتا ہے جو ’کانگریس مکت بھارت‘ کی بات کرتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جدید ہندوستان جیسا بھی ہے، جو بھی ہے وہ کانگریس کی ہی بدولت ہے۔ جنگ آزادی سے لے کر جدید ہندوستان کے قیام تک اور پھر ملک کے آئین سے لے کر جمہوری نظام تک ہر جگہ کانگریس پارٹی کے نقش قدم صاف نظر آتے ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ فی الحال ملک کے سیاسی پس منظر میں کانگریس کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ محض پارلیمنٹ میں کانگریس کی کبھی کبھار آواز تو سنائی دے جاتی ہے۔ باقی پورے ملک میں کانگریس سمٹ سی گئی ہے۔ کانگریس کی یہ صورت حال نہ تو ملک کے حق میں ہے اور نہ ہی ملک والوں کے حق میں ہے۔ اسی لیے ہر سیکولر ہندوستانی کا یہی خیال ہے کہ کانگریس پارٹی کو پھر سے اپنے قدموں پر کھڑا ہونا چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کانگریس کو ایک نئی زندگی کس طرح ملے! اس سوال کا کوئی سیدھا اور سادہ جواب نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ابھی پچھلے ہفتے پرینکا گاندھی نے جس طرح سون بھدر میں قبائلیوں کے بے رحم قتل کے بعد پرامن احتجاج کے ذریعہ یوگی سرکار کو جھکنے پر مجبور کر دیا اس سے یہ محسوس ہوا کہ کانگریس کو دوسری زندگی مل سکتی ہے۔ پرینکا نے جو وہاں کیا، یعنی پارٹی کو عوام کے مسائل سے جوڑ کر ہی دوبارہ زندہ کیا جا سکتا ہے۔ مگر پرینکا کا یہ طریقہ عمل کانگریس کے لیے کوئی نیا نہیں تھا۔ خود ان کی دادی اندرا گاندھی نے سنہ 80-1977 ء کے درمیان یہی حکمت عملی اختیار کی تھی۔ یہاں یہ ذکر کر دوں کہ اندرا گاندھی کو سب بحیثیت وزیر اعظم تو یاد کرتے ہیں، لیکن بحیثیت لیڈر حزب اختلاف ان کا ذکر عموماً نہیں ہوتا۔ مگر اندرا گاندھی بحیثیت اپوزیشن قائد اس ملک کی سب سے کامیاب اپوزیشن لیڈر تھیں۔ ذرا آپ خود غور فرمائیے کہ 1977 ء میں وہ بری طرح چناؤ ہاریں۔ پھر ایمرجنسی کی وجہ سے وہ رسوائے زمانہ ہو گئی تھیں۔ چناؤ کے بعد اندرا گاندھی کا نام لینا بھی گناہ تھا۔ لیکن اتنی بڑی ہار کے بعد تین سال سے کم مدت میں انھوں نے اس وقت مرار جی کی مقبول جنتا پارٹی حکومت کو اقتدار سے باہر کیا، جنتا پارٹی کو توڑ دیا اور دسمبر 1980 ء میں وہ دوبارہ اقتدار میں بحیثیت وزیر اعظم واپس بھی آگئیں۔ لیکن اندرا گاندھی نے یہ کمال کیا کیسے! 1977 ء میں اپنی ہار کے بعد وہ کچھ عرصے کے لیے خاموش رہیں۔ لیکن مجھے یاد ہے کہ 1978 ء میں پورے مشرقی اور شمالی ہندوستان میں زبردست باڑھ آگئی اور تمام گاؤں، دیہات اور شہر ڈوب گئے۔ بس اندرا گاندھی نکل پڑیں اور اس آفت میں کبھی ناؤ پر سوار ہو کر تو کبھی پیدل تو کبھی کسی اور طرح مجبور اور بے آسرا ہندوستانیوں کے بیچ شہر شہر، گاؤں گاؤں پہنچ گئیں۔ اس سلسلے میں خود میرے ساتھ جو واقعہ پیش آیا اس کا ذکر بھی یہاں کر دوں۔ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اندرا کیسی لیڈر تھیں۔ ہوا یہ کہ میں (مصنف) 1978 ء میں اپنے وطن الٰہ آباد میں تھا۔ جب باڑھ آئی تو میں اپنے نوجوان دوستوں کیساتھ راحت رسانی کے کام پر نکل پڑا۔ دو دن بعد ہم کو پتہ چلا کہ شہر کے نزدیک ایک گاؤں کے سارے راستے محدود ہو گئے ہیں اور وہاں لوگوں کی حالت بہت خراب ہے۔ ہم لوگوں نے طے کیا کہ ہم اس گاؤں میں راحت کا سامان ضرور پہنچائیں گے۔ خیر، ہمارا گروپ وہاں پہنچا۔ لیکن واقعی اس گاؤں میں داخل ہونا محال تھا۔ چاروں طرف پانی اور کیچڑ سے دلدل ہو رہا تھا۔ پہلے تو ہم لوگ بھی ہمت ہار گئے۔ لیکن پھر کسی طرح اسی کیچڑ اور دلدل میں چل کر اندر گئے۔ راستے میں بدبو سے برا حال تھا۔ اندر داخل ہو کر راحت کا کام کیا۔ لوگ بہت خوش ہوئے۔ پھر واپس لوٹ رہے تھے کہ یکایک کانوں میں آواز آئی ’اندرا گاندھی زندہ باد‘۔ اب ہم نے اسی کیچڑ والے پانی میں سر اٹھا کر دیکھا تو اندرا گاندھی کیچڑ میں لت پت ہمارے سامنے تھیں۔ ہم حیرت زدہ رہ گئے۔ انھوں نے پہلے ہم کو راحت کا کام کرنے کے لیے شاباشی دی۔ پھر وہ غریب لوگوں سے ایسے گھل مل گئیں جیسے وہ انہیں میں سے ایک ہوں۔ تھوڑی دیر میں وہ وہاں سے د وسرے دیہات چلی گئیں۔ لیکن ہم اور سارے گاؤں والے بس اس وقت اندرا کے گرویدہ ہو گئے۔ اسی طرح سنہ 1980 ء تک ملک میں کہیں بھی عوام کے ساتھ کوئی ناانصافی ہوتی تو وہ وہاں پہنچ جاتیں۔ یہاں تک کہ بہار کے گاؤں بیلچی میں کچھ دلت مارے گئے تو وہاں وہ ہاتھی پر سوار ہو کر پہنچ گئیں۔ حد یہ ہے کہ 1978 ء اور 1980 ء کے بیچ وہ پارلیمنٹ بھی بہت کم گئیں۔ آخر وہ 1980 ء کے چناؤ میں پھر واپس اقتدار میں آگئیں۔ یہی حکمت عملی ابھی پرینکا گاندھی نے سون بھدر میں اختیار کی اور عوام کا دل جیت لیا۔ کانگریس کے لیے اپنے پیروں پر پھر سے کھڑے ہونے کا بس ایک یہی راستہ ہے اور اسی راستے سے وہ دوبارہ اقتدار تک پہنچ سکتی ہے۔ کانگریس 1977 ء میں جتنی بری حالت میں تھی، آج وہ اس سے بہتر حال میں ہے۔ اس لیے ہمت ہارنے کی ضرورت نہیں۔ پرینکا نے اندرا کا جو طریقہ اختیار کیا، اسی راستے سے کانگریس دوبارہ کھڑی ہو جائے گی۔ اور یہی ملک کے حق میں بہتر ہوگا۔(بشکریہ سیاست ،دہلی)