ایک فلم بین سینما سے نکل رہا تھا۔ اندر جانے والے نے اس کے چہرے کے پریشان کن تاثرات دیکھ کر پوچھا’’فلم کیسی ہے؟‘‘اس نے گھمبیر لہجے میں جواب دیا اسٹوری و سٹوری تو ہے کہانی نہیں ہے۔ اندر جانے والے نے پہلے خریدے ہوئے ٹکٹ کی طرف دیکھا اور پھر گھڑی کی طرف آخری شوتھا اور کسی دوسری فلم کا ٹکٹ ملنا بھی مشکل تھا اس نے زبردستی مسکراتے ہوئے کہا آج اسٹوری والی فلم دیکھتے ہیں کہانی والی پھر سہی‘ پاکستان کے انتخابی سیاسی منظر نامے پر بھی ایک اسٹوری چل رہی ہے اور تماش بینوں کو توقع ہے کہ 25جولائی کی شام اس اسٹوری سے ایک کہانی نکل آئے گی اور وہ نہ صرف دلچسپ ہو گی بلکہ زیادہ دیر بھی چلے گی۔ آج کل کے دور میں جب فلموں کا دورانیہ مسلسل کم ہو رہا ہے سسپنس ‘ کامیڈی‘ ماردھاڑ اور رومانس سے بھر پور ساڑھے چار گھنٹے کی فلم دیکھنے کو مل جائے‘ تماش بینوں کو اور کیا چاہیے خصوصاً جب فلم میں سات سپر ہٹ گانے بھی ہوں۔ فی الوقت تو لگتا ہے کہ ہر سیاسی جماعت اپنی اپنی اسٹوری کو گھسیٹنے میں لگی ہوئی ہے جیسے کوہلو کا بیل جسے کوہلو ہر صورت کھینچنا ہے۔ چونکہ اس کی آنکھوں پر کھوپے چڑھے ہیں اس لیے اسے احساس نہیں کہ وہ مسلسل ایک دائرے کے سفر میں ہے لیکن تماش بینوں کو سب نظر آ رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف پوری امید سے ہے کہ اس مرتبہ اقتدار ایک پکے پھل کی طرح اس کی جھولی میں گرے گا ۔اگر ہلکی سی کسر رہ گئی تو وہ جیپ ‘ باپ اور ماسٹر کی مدد سے اس پھل کو پکا لے گی۔ پاکستان مسلم لیگ ن 25جولائی کی فلم کا وہ بیل ہے جس کی آنکھوں سے غلطی سے کھوپے اتر گئے تھے اور اسے پتہ چل گیا تھا کہ وہ تو ایک دائرے کے سفر میں ہے اور کوہلو کھینچنے سے جو تیل نکلتا ہے وہ بھی تیلی لے جاتا ہے اب وہ کوہلو کھینچنے سے انکاری ہے۔ بھلا مالک کو اتھرے بیل کب پسند آتے ہیں؟ انہیں میڈرڈ کی گلیوں میں تھوڑے دوڑانا ہے ۔وطن عزیز میں بیلوں کے دو ہی فائدے رہ گئے ہیں‘ خاص طور پر زرعی شعبہ کی جدیدیت اور ٹریکٹر آنے کے بعد ایک کوہلو اور دوسرے قربانی ‘اس لیے قربانی اتھرے بیل کے نصیب میں لکھ دی گئی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اس فلم کا غمگین ہیرو ہے جس پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے ہوں لیکن وہ پھر بھی اپنے عشق میں صادق ہے اور کج رو حسینہ کے پیچھے ہے۔ اس کے دل میں یہ یقین چھپا بیٹھا ہے کہ حسینہ تحریک انصاف سے روٹھ جائے گی اور اس کی قسمت جاگ جائے گی۔ لیکن حسینہ سنگ دل ہے اور ستم پر ستم ڈھائے جا رہی ہے۔ لیکن فلم میں اس کی حیثیت سائیڈ ہیرو سے زیادہ نہیں جسے ہیروئن کی بہن پر سمجھوتہ کرناہو گا۔ فلم میں کچھ مہمان اداکار بھی ہیں ظاہر ہے ان کا کام ہیرو کو وہ معاونت فراہم کرنی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ ہیرو ہے اور اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتاہے۔ کچھ کامیڈین ہیں اور باقی ہیروئن کے سسرالی۔ عام فہم زبان میں انہیں الیکٹ ایبلز کہہ لیں۔ ضروری نہیں ہے کہ اسٹوری ایسے ہی چلے ۔اسکرپٹ رائٹر کوکبھی کبھار ٹوئسٹ(twist)ڈالنے کے لیے ہیرو کو زیادہ مشکل میں دکھانا پڑتا ہے اور ولن کو طاقتور‘ لیکن اس فلم کے ولن کو شروع سے ہی مار پڑ رہی ہے اور اتنی مار کہ خطرہ بڑھ گیا ہے کہ کہیں تماش بین ولن کو ہی ہیرو نہ سمجھ لیں اور ہیرو آخر میں زیرو ہو جائے۔ اس صورت میں یہ اسکرپٹ رائٹر کی بڑی کمزوری ہو گی۔ لیکن چونکہ اسکرپٹ رائٹر کافی پرانا اور منجھا ہوا ہے اس لیے توقع یہ ہے کہ ایک ٹوئسٹ سے وہ ہیرو کو زیرو ہونے سے بچا لے گا۔ اگر تمام مہارت کے باوجود نہ بچاپایا تو؟ سوال اسکرپٹ رائٹر کو برا لگتا ہے۔ لیکن جو کہانی اسٹوری کے بعد شروع ہو گی وہی اصل کہانی ہو گی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہیرو کی ہیروئن سے شادی ہو جائے اور وہ ہنسی خوشی رہنا شروع کر دیں۔چاروںطرف گُل گلزار ہواور خوشیوں کے شادیانے بج رہے ہوں ۔کہانی ہمیشہ اسکرپٹ رائٹر کے بغیر چلتی ہے اور میکے اور سسرال کی کش مکش شروع ہو جاتی ہے ۔اگر دلہن آزاد خیال ہے تب مصیبت اگر برقع میں تو پریشانی۔ دیور ‘دیورانی سالا ‘سالی ان کی ضرورتیں اور فرمائشیں ہیرو کو اپنی جیب دیکھنا پڑے گی اور اچھلتی کودتی ہیروئن کو باورچی خانہ۔ اگر ہیرو گھر کے معاملات حل نہ بھی کر پائے تو چلتا ہے‘ لیکن ہمسائے کو اس کے گھر میں جھانکنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ہیرو کو غصہ آتا ہے وہ ہمسائے پر کڑھتا ہے کہ اپنے گھر میں دیکھتا نہیں اور ہمارے اوپر ہنستا ہے پھر پہلے وہ ہمسائے سے معاملات طے کرنے چل پڑا ہے۔ یہاں اچانک اسکرپٹ رائٹر کو احساس ہوتا ہے کہ کردار تو اپنے آپے سے باہر ہو رہے ہیں اور خود ہی اپنا اسکرپٹ لکھنا شروع کر دیا ہے یہاں اسے غصہ آتا ہے اور ساری کہانی کو لپیٹ کر پھر سے اسٹوری لکھنا شروع کر دیتا ہے۔ تماش بینوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اسکرپٹ رائٹر بے شک کہانی کو کنٹرول نہیں کر سکتا لیکن اسے لپیٹ ضرور سکتا ہے۔ یہ تو وہ کہانی ہے جو ہوتی آ رہی ہے لیکن تماش بینوں کو اس مرتبہ کچھ بدلی ہوئی کہانی کی توقع ہے۔ ہیرو کا کنبہ چونکہ بڑا ہو گا اور اس کے لیے کھانا بھی زیادہ پکے گا۔ بوجہ لنگر خانہ الگ سے چلانا پڑے گا ان حالات میں ہیرو کی توجہ تو کمائی پر ہونی چاہیے چونکہ ہیرو بڑے ناز نخروںمیں پلاہے اور اسے گھر چلانے کا تجربہ بھی نہیں ہے تو اسکرپٹ رائٹر کو بار بار مداخلت کرنا پڑے گی۔ وہ کہانی میں اسٹوری ڈالنے کی کوشش کرے گا ۔ظاہر ہے ہیرو یہ نہیں چاہے گا اور نہ ہی تماش بینوں کو یہ مداخلت پسند آئے گی اس لیے خطرہ بڑھ جائے گا کہ ہیرو کو گھر کے معاملات سے الگ کر دیا جائے اور پہلے اس کے خاندان سے ہی کسی کمائو کو مرکزی کردار دیا جائے۔ پھر سسرالیوں کی باری آ سکتی ہے اگر یہ نہ ہوا تو ولن جو جیل جا چکا ہو گا وہ فوراً رہا ہو کر بھی آ سکتا ہے یا پھر مہمان اداکاروں میں بغاوت ہو جائے ۔اس صورت میں شاید کہانی دلچسپ ہو جائے اور تماش بین خاموشی سے فلم دیکھتے رہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ تماش بینوں کو اسکرپٹ رائٹر کی مشکلوں کا اندازہ نہیں کہ کیسے اسے ایک ہی اسٹوری کو بار بار لکھنا پڑتا ہے اور اس طرح لکھنا پڑتا ہے کہ ہر مرتبہ نئی معلوم ہو۔ تماش بین تو بڑی آسانی سے کپڑے جھاڑ کر کھڑے ہو جاتے ہیں ۔پسند نہ آئے تو ہوٹنگ شروع کر دیتے ہیں کچھ گندے انڈے اور سڑے ہوئے ٹماٹر بھی لے آتے ہیں اور جب سے سوشل میڈیا آیا ہے گندے انڈوں اور سڑے ٹماٹروں کی طلب میں بھی خاصا اضافہ ہو گیا ہے۔ اب بیچارے اسکرپٹ رائٹر کو پہلے گندے انڈوں اور ٹماٹروں سے بچائو کی ترکیب کرنی پڑتی ہے اس کا سارا وقت اسی میں گزر جاتا ہے اور کہانی اپنے آپ چلنا شروع کر دیتی ہے۔ کہانی کی اپنی مجبوری ہے اس کے پر اڑنے والے نہیں یہ مرغی کے پر ہیں مرغی بھی ولایتی ۔جس کے پر زیادہ دیر پھڑ پھڑا بھی نہیں سکتے۔ یہ دیسی مرغی کی طرح اڑ کر کھیت کھلیانوں میں بھی نہیں نکل سکتی۔ اسکرپٹ رائٹر اسے دبوچ ہی لیتا ہے ۔تماش بینوں کا کیا ان کا تو کام ہے۔ اسکرپٹ رائٹر کو قصائی بننے میں دیر نہیں لگتی اور چکن کڑاہی کا اپنا ہی مزہ ہے۔ اسٹوری ڈسٹ بن میں اور کہانی کڑاہی میں انٹرول میں کڑاہی کا اپنا مزہ ہے۔