آج ایک ایسی شخصیت کے کردار وافکار پر لکھنے کا ارادہ کیاہے جسے بدقسمتی سے ہم نے بھلا دیاہے ۔ جس کی برسی ہرسال کی طرح امسال بھی خاموشی سے گزرگئی اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی ۔جی ہاں میں کاکاجی صنوبر حسین مومند کی بات کررہاہوں جنہوں نے انگریز سامراج کے خلاف مزاحمت کو اپنی زندگی کافریضہ سمجھتے ہوئے نہ صرف اپنی تقریر وتحریر کے ذریعے اسے للکاراتھا بلکہ عملی جدوجہد کے ذریعے بھی انہوں نے ان غاصبوں سے ٹکرلینے کی ٹھان لی تھی۔کاکاجی صنوبر حسین نے 1897ء کو پشاور سے چند کلومیٹردور مومندکے علاقے کژہ ولہ میںاس وقت آنکھ کھولی جب انگریز سرکار ایک طرف پورے برصغیر پر قابض ہوچکی تھی جبکہ دوسری طرف ڈیورنڈ لائن کھینچ کر اس نے افغان وطن کے بہت سے علاقوں کو بھی اپنے ماتحت ہندوستان میں ضم کیاتھا۔ کاکاجی نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے علاقے ہی کے ایک اسکول سے حاصل کی اور میٹرک اسلامیہ اسکول پشاور سے پاس کرنے کے بعد بازی خیل کے ایک پرائمری اسکول میںبطور استاد ملازمت بھی اختیار کرلی لیکن کچھ سال بعد ملازمت کو استعفیٰ دے کر سیاست کے میدان میں وارد ہوئے۔پہلے ’’انجمن زمینداران ‘‘ کے نام سے ایک سیاسی تنظیم کی بنیاد رکھی کیونکہ اسی زمانے میں علاقے کے زمینداروں کو دریائے باڑہ کی پانی کی تقسیم کا مسئلہ بھی درپیش تھا اور علاقے کے غریب عوام کو گوناگوں معاشی اور تعلیمی چیلنجز کا بھی سامناتھا جس کے حقوق کیلئے کاکاجی اٹھ کھڑے ہوئے۔ایک روایت کے مطابق کاکاجی اسی زمانے میں کانگریس اور باچاخان کی تحریک خدائی خدمتگار سے بھی وابستہ ہوئے لیکن جلد انہوں نے اس سے کنارہ کشی اختیار کی ۔ کیونکہ ان کے مطابق ایک تو کانگریس کی جدوجہدمیں پشتونیت کا تصور نہیں تھا دوسرا یہ کہ اس فلسفے کو اپنانے سے انگریز کو مزید یہاں پر پاوں جمانے کا موقع ملتاہے یوں انگریزوں کے خلاف مسلح جدوجہد کرناناگزیر ہے۔کاکاجی نے بعد ازاں’’ نوجوانان سرحد ‘‘ کے نام سے ایک سیاسی تنظیم قائم کی ،جسے بعد ازاں انہوں نے سبھاس چندر بوس کے ’’ نوجوان بھارت سبھا‘‘ نامی سیاسی تنظیم میں ضم کرکے وسیع پیمانے پرانگریزوں کے خلاف اپنی سیاسی اور مسلح جدوجہد شروع کر دی۔ انگریزسامراج کے خلاف جب اس خطے میں کاکاجی کی تحریک کے ساتھ ساتھ آزادی کی دیگر تحریکیں( مثلاً وزیرستان میں فقیر ایپی ، وادی پشاور حاجی صاحب ترنگزئی ، حاجی محمد امین ، باچاخان کی تحریک) بھی تیز ہوئیں تواسی سال یعنی23 اپریل1930ء کوپشاور میں قصہ خوانی کا سفاکانہ واقعہ بھی پیش آیا جس میں انگریزوں نے پشتون حریت پسندوں کے ایک جلسے پر اندھا دھند فائرنگ کرکے بے شمار لوگوں کو شہید اور زخمی کیا ۔اس موقع پرکاکاجی ، مفتی عبدالرحیم پوپلزئی اور کئی دیگر پشتون زعما کو گرفتار کرکے قلعہ بالا حصار میں نظر بند کردیا۔انگریزوں کے خلاف مزاحمت کے نتیجے میں کاکاجی نے بالآخر آزاد قبائلی علاقے کا رخ کیا اور غازی آباد لکڑو باجوڑ میں مردِ حر حاجی صاحب ترنگزئی کی مزاحمتی تحریک کا حصہ بن گئے جہاں پر انہوں نے اپنی زندگی کے سب سے معتمدترین ساتھی صاحبزادہ محمداسلم کو بھی کھودیا۔ تقسیم ہند کے بعد اپنے اسی وفادار ساتھی شہید صاحبزادہ اسلم کی یادمیں کاکاجی نے ’’اسلم ‘‘ کے نام سے ایک سیاسی اورترقی پسند ادب کا علمبردار رسالہ جاری کیا۔کاکاجی نے اس سے پہلے بھی شعلہ کے نام سے باجوڑ سے ایک رسالہ جاری کیاتھا جس کے مضامین اور پذیرائی سے تنگ آکر انگریزوں نے اس پابندی لگادی۔ ایک جری سیاستدان کے ساتھ ساتھ کاکاجی صنوبر حسین مومند ایک سچے صحافی اور ادیب وشاعر بھی ثابت ہوئے ۔ادبی میدان میں ان کا بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے پشتو ادب کی پہلی تنظیم ’’اولسی ادبی جرگہ ‘‘ کی بنیاد رکھی ۔ باقاعدہ اپنا شعری مجموعہ لکھنے کے علاوہ کاکاجی نے فارسی زبان کے مشہور شاعر عمر خیام کی تین سو کے لگ بھگ رباعیات کو بھی پشتو زبان میں منظوم ترجمہ کیا۔اس کے علاوہ کاکاجی نے شاہ ولی اللہ کی عمرانیات ومعاشیات ،طٰہ یٰسین کی کتاب فتنۃ الکبریٰ اور ابن بطوطہ کے سفرنامے کا پشتو ترجمہ بھی کیاہے ۔اسی طرح سوانح حضرت عمرفاروق ؓاور حضرت ابوذر غفاریؓ تالیف کرنے کے علاوہ انہوں نے مضمون وانشاء ، پشتو ادبیات اورپشتو صرف ونحواور مقالات صنوبر کے نام سے بھی کتابیں لکھیںجن میں بدقسمتی سے تاحال طبع نہیں ہوئے ہیں۔ کاکاجی انجمن ترقی پسند مصنفین کے صدر بھی رہے اور اس تنظیم اورترقی پسند خیالات کی بناپر گرفتار بھی ہوئے۔ کاکاجی کو آخری مرتبہ اکتوبر 1958ء کو ایوب خان آمریت کے زمانے میںگرفتارکیا گیا ۔پہلے انہیں راوالپنڈی جیل میں رکھا گیا اورپھر بعد میں انہیںلاہور ڈسٹرکٹ جیل بھیجا گیا۔اس اسارت کے دوران لاہور جیل میں اردو ادب کے ترقی پسند ادیب وشاعر احمد ندیم قاسمی کی بھی کاکاجی سے ملاقات ہوئی تھی ۔ قاسمی مرحوم اپنے ایک مضمون میں ان کے بارے میںلکھتے ہیں کہ ’’جیل کی چار دیواری میں بڑے بڑوں کی شخصیتیں عریاں ہوجاتی ہیں، وہاں انسان ذرہ ذرہ کی ضرورتوں کا محتاج ہوتاہے اور اپنے آپ کو اگھل ڈالتاہے مگر ڈھارس اس وقت بندھتی ہے جبکہ ایک چپ چاپ شخصیت جیل کی چاردیواری کے اندر محبت اور ہمدردی کا آفتاب بن کر جگمگانے لگتی ہے اور یہی وہ شخصیت تھی صنوبرکاکاجی جس سے میری پہلی ملاقات جیل میں ہوئی ۔پٹھانوں کے بارے میں میں نے سنا تھا کہ بہت مخلص لیکن بہت کرخت ہوتے ہیں مگر کاکاجی صنوبر حسین خان سے مل کرمیں نے محسوس کیا کہ یہ لوگ سراپا خلوص ہیں اور جو لوگ حق گوئی اور سچائی سے ڈرتے ہیں وہ اس ڈر کے مارے ان صفات کو کرختگی کا نام دیتے ہیں۔ میں 1958ء کے مارشل لاء کے دوران کاکاجی سے متعارف ہوا اور میری رجائیت میں قوت اور صلاحیت پیدا ہوئی ۔ دعوے سے کہتاہوں کہ میں اپنی نصف زندگی میں ہزاروں لوگوں سے ملاہوں ،ان میں سے دوتین ہی ایسے تھے جنہیں اپنی شخصیت میں نفوذ کرتامحسوس کیا۔