وہ تصویر اب بھی میرے تصور میں تیر رہی ہے۔ اگر آپ بھی وہ تصویر دیکھتے۔ آپ بھی وہ تصویر فراموش نہ کر سکتے۔ وہ تصویر جس میں ایک نوجوان لڑکا اور ایک نوجوان لڑکی ایک ہی رسی کے دو سروں سے جھول رہے تھے ۔ وہ دونوں مسلمان نہیں تھے۔ وہ اونچی ذات کے ہندو بھی نہیں تھے۔ ان کا تعلق ان جاتیوں سے تھا جنہیں ’’شیڈول کاسٹ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ بھارت میں ان لوگوں کو ’’دلت‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ان لوگوں کی صحرائے تھر میں اکثریت ہے۔ وہاں کے ہندو اور مسلمان انہیں اپنے برتنوں میں کھانا کھانے نہیں دیتے۔ اس لیے تھر میں جتنے بھی ہوٹل ہیں وہاں ان لوگوں کے کھانے کے برتن اور چائے کے کپ الگ رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان برتنوں کو ’’سنہری برتن‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ انسانیت کی توہین ہے مگر افسوس کی بات یہاں تک محدود نہیں۔ افسوس کی بات ہیں ہے کہ یہ لوگ ایک دوسرے سے بھی فاصلہ رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کی بہت سارے قبائل ہیں۔ ہر قبیلہ اپنے آپ کو دوسرے قبیلے سے اتم اور اعلی سمجھتا ہے۔ اس لیے یہ لوگ آپس میں رشتہ داری نہیں کرتے۔ جس تصویر کا تذکرہ اوپر ہے؛ وہ تصویر شیڈول کا سٹ کے اس جوڑے کی تھی؛ جس میں لڑکی کا قبیلہ الگ اور لڑکے کا قبیلہ الگ تھا۔ وہ آپس میں پیار کرتے تھے مگر دقیانوسی روایات ان دونوں کے درمیاں دیوار بن گئیں۔ وہ اس دیوار کو توڑنے کی طاقت سے محروم تھے۔ اس لیے ان کے نابالغ ذہن میںیہ خیال آیا کہ اگر ہم آپس میں جڑ کر جی نہیں سکتے تو آپس میں مل کر مر تو سکتے ہیں۔ ان دونوں نے اس رات نیا لباس پہنا۔ دولہے اور دلہن کی طرح وہ سجے سنورے۔ پھر وہ درخت کے نیچے آئے۔ انہوں نے ایک ہی رسے سے دو پھندے بنائے اور پھر جھول کر موت کی وادی میں چلے گئے۔ ان کی دل ہلا دینے والی تصویر سندھی میڈیا اور سندھ کے سوشل میڈیا پر آئی اور پھر نئے واقعات کے لہروں میں بہہ گئی۔ مگر وہ تصویر میرے ذہن میں اب تک محفوظ ہے۔ میں اس تصویر کو کس طرح بھول سکتا ہوں؟ صحرائے تھر میں یہ پہلی خودکشی نہیں تھی۔ صحرائے تھر میں خودکشی ایک مضبوط روایت بن چکی ہے۔ مذکورہ جوڑے نے تو پیار میں دل ہار کر خودکشی کرلی مگر تھر میں عام طور پر لوگ غربت کی وجہ سے اپنی زندگی کو ختم کردیتے ہیں۔کیا یہ بات کوئی تسلیم کر سکتا ہے کہ تھر میں خودکشیوں کی ایک اہم وجہ وہاں کی این جی اوز ہیں! وہ این جی ازو جو تھر کے لوگوں کی زندگی میں روشنی لانے کے لیے آئیں مگر ان کی پالیسیوں کی وجہ سے لوگ اپنی زندگی کو موت کی آغوش میں پھینک دیتے ہیں۔ اس کا اصل سبب یہ ہے کہ تھر کے لوگ بہت غریب اور معصوم ہیں۔ جب این جی اوز والے ان کے پاس آتے ہیں تو وہ بڑی میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہیں۔ وہ انہیں بتاتے ہیں کہ ہم غربت ختم کرنے آئے ہیں۔ وہ غربت کا خاتمہ اپنے انداز سے اس طرح کرتے ہیں کہ وہ تھر کے لوگوں کو چھوٹے قرضے یا بکریاں دیتے ہیں۔ غریب لوگوں سے وہ پیسے ختم ہو جاتے ہیں۔ ان کی بکریاں بھوک اور بیماری کی وجہ سے مر جاتی ہیں۔پھر این جی اوز والے جب قرضہ واپس لینے آتے ہیں تب ان کا رویہ پولیس جیسا ہوتا ہے۔ وہ جیل اور سزا کی باتیں کرتے ہیں۔ کاش!بلاول کو کوئی بتائے کہ تھر میں احساس محرومی ہوتا تو وہ شاید ختم ہوجاتا مگر تھر میں احساس محرومی نہیں بلکہ موت مار محرومی ہے۔ اس محرومی کا مداوا یہ نہیں کہ کسی چھوٹی ذات والے تھری ہندو کو اسلام کوٹ سے اٹھا کر اسلام آبادمیں بٹھایا جائے اور اسے سینیٹر یا مشیر بنایا جائے۔ اس قدم سے تو تھر میں محرومی اور زیادہ شدت پکڑتی ہے۔ پیپلز پارٹی تو تھر کو ان افراد سے محروم کردیا جو پہلے تھوڑا بہت سماجی کام کرتے تھے۔ اب وہ وہاں نہیں ہیں۔تو تھر والے مدد کے لیے کس کے پاس جائیں؟ اب وہ جہازوں میں اڑتے پھرتے ہیں۔ مگر اہلیان تھر کے پاس ابھی تک بغیر ایئرکنڈیشنڈ بس کا کرایہ تک نہیں۔ اس لیے جب ان کے چھوٹے بچے بیمار ہوتے تو وہ انہیں کپڑوں میں لپیٹ کر کندھے پر رکھتے ہیں اور کئی کلومیٹرس کا فاصلہ پیدل طے کرتے ہیں۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ جب وہ شہر کی ہسپتال میں پہنچتے ہیں تب ڈاکٹر انہیں بتاتے ہیں کہ بچہ زندگی سے محروم ہو چکا ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئیے کہ اس صورت میں بھی ہسپتال والے اس غریب تھر کے باسی کو ایمبولینس نہیں دیتے۔ وہ اپنے بچے کی لاش کندھے پر رکھ کر پیدل گاؤں واپس جاتا ہے۔افسوس کہ بلاول کو یہ باتیں کوئی نہیں بتاتا۔ بلاول سے جو بھی مل سکتے ہیں وہ ان کو خوش کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ آپ سے تھر کے لوگ بڑی محبت کرتے ہیں۔ آپ نے کرشنا کوہلی کو سینیٹر اور رام جی کوہلی کو مشیر بنا کر تھر کے لوگوں کے دل جیت لیے ہیں۔ اور جب کسی ذریعے سے بلاول کو تھر میں کی جانے والی خودکشیوں کی بارے میں پتہ چلتا ہے کہ وہ حیران ہوکر پوچھتا ہے کہ تھر کے لوگ خودکشیاں کیوں کر رہے ہیں؟ بلاول کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ اگر اس نے تھر کے لوگوں کی احساس محرومی کو ختم کردیا ہے تو پھر انہیں خوش رہنا چاہئیے۔ بلاول حیرت کا شکار ہوکر تھر کے کسی چالاک شخص کو کہتا ہے کہ اسے اس بارے میں تحقیق کرنے کے بعد رپورٹ دی جائے۔ تھر کے لوگوں کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ انہیں ایسے حکمران ملے ہیں جو ہاتھ کے کنگن کو آرسی میں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ بلاول نے بیرون ملک تعلیم حاصل کی ہے۔ بلاول اب سیاست میں نیا نہیں ہے۔ اب تک بھی اس کو معلوم نہیں ہو پایا کہ تھر کے لوگ خودکشیاں کیوں کرتے ہیں؟ کاش ! کوئی بلاول کو بتائے کہ سائیں دنیا کا کوئی بھی شخص خوشی سے خودکشی نہیں کرتا۔ خودکشی وہ کرتے ہیں جن کے دل مغموم اور مایوس ہوتے ہیں۔ وہ جو حالات سے مقابلے میں ہار جاتے ہیں یا جو حالات کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔وہ لوگ جو بہت ڈرپوک ہوتے ہیں۔ وہ خوف کی وجہ سے بھی خودکشی کا رخ کرتے ہیں مگر تھر میں خودکشیوں کا بنیادی سبب غربت ہے۔ غربت بھی اس درجے کی جس درجے پر پہنچ کر انسان سے بھوک برداشت نہیں ہوتی۔ سندھ کے وزیر بلاول کو رپورٹ دیتے ہیں کہ انہوں نے تھر کے لوگوں کے سارے دکھ دور کردیے ہیں۔ اگر تھر کے لوگ خوش ہوتے تو خودکشیاں کیوں کرتے؟ کاش! بلاول کو کوئی اس سوال کا جواب سمجھائے۔