دوروز کی مہلت ختم ہونے کے باوجود مولانا فضل الرحمن وزیراعظم عمران خان کے استعفے اور نئے عام انتخابات کا اعلان ہونے تک ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں،گویا کہ سیاسی بحران شدیدہو گیا ہے۔دونوں فریق نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ کسی بھی حکومت سے یہ توقع رکھنا کہ وہ دھرنے سے گھبراکر گھر چلی جائے گی عبث ہے۔ فضل الرحمن حکومتی بھونپوؤں اور ان کے ہمنواؤں کی اس گردان کے با وجود کہ دھرنا فلاپ ہو گیا ہے اسلام آباد میں بڑی تعداد میں کارکنوں کے ساتھ موجود ہیں۔ حکومت کے لیے سب سے اچھی خبر تو یہی ہو سکتی ہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ کہیںکہ ہم نے جلسہ بھی کر لیا اور دھرنا بھی، اب ہم گھر جا رہے ہیں لیکن فی الحال ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ دوسراآپشن مولانا اور دھرنے کے شرکا کے خلاف طاقت کے استعمال کا ہے۔ وزیراعظم عمران خان ایک لحاظ سے بڑے طاقتور وزیراعظم ہیں لیکن کمزور بھی ہیں۔ ان کی طاقت کامنبع ریاستی اداروں بالخصوص افواج پاکستان کی طرف سے بھرپور حمایت ہے، آرمی چیف نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ مذموم مقاصد کیلئے امن ختم نہیں کرنے دیں گے۔قبل ازیں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور مولانا کے خطاب کے جواب میں فرما چکے ہیں کہ افواج پاکستان کی حمایت جمہوری طور پر منتخب حکومت کے ساتھ ہے،کسی ایک پارٹی کے لیے نہیں۔ اصولی طورپر ایسا ہی ہونا چاہیے لیکن ماضی میں الٹی گنگا بہتی رہی، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جب تک اپوزیشن کو مقتدر اداروں کی تھپکی نہ ملے حکومتوں کو ہلایا نہیں جا سکتا۔ بعض اوقات کسی کو نکالنا نہیں بلکہ ہلانا مقصود ہوتا ہے جیسا کہ عمران خان کے 126دن کے دھرنے اور فیض آباد پر تحریک لبیک کے دھرنے سے یہ آشکار ہوا کہ مقصد میاں نوازشریف کو’آنے والی تھاں‘ پررکھناتھا اب ایسی صورتحال نہیں ہے اور اگر مولانا کو کسی کی آشیرباد حاصل ہوتی تو وہ اداروں کے خلاف ہرز ہ سرائی نہ کرتے۔ دوسری طرف اپوزیشن کی دوبڑی سیاسی جماعتیں اپنی اپنی مجبوریوں اور مصلحتوں کے تحت دامے درمے سخنے مولانا کا ساتھ نہیں دے رہیں۔ پیپلزپارٹی کا استدلال تو سیدھا سادا ہے وہ صوبہ سندھ میں برسر اقتدار ہونے کے ناتے اپوزیشن میں بھی ہے اور حکومت میں بھی۔اگر نئے عام انتخابات ہو بھی جاتے ہیں تو مرکز میںپیپلزپارٹی کے برسراقتدار آنے کے امکانات قر یباًمعدوم ہیںبلکہ الٹا لینے کے دینے پڑسکتے ہیں یعنی صوبہ سندھ سے بھی اس کی چھٹی ہو سکتی ہے۔ جہاں تک مسلم لیگ (ن) کا تعلق ہے وہاں دوبیانیے ایک ساتھ چل رہے ہیں، ایک میاں نوازشریف کا اوردوسرا برادر خورد شہبازشریف کا۔نواز شریف غالبا ًیہ محسوس کرتے ہیں کہ ماضی میں فوجی قیادتوں نے انھیں پذیرائی نہیں بخشی اور قریباًآنے والے ہر فوجی سربراہ کے ساتھ ان کا تناؤ رہا۔ اس کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے ان کی سیا ست نے جنرل ضیاء الحق کی آمریت کی کوکھ سے جنم لیا لیکن اس کے بعد وہ بہت بڑے انقلابی بن گئے۔ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے بقائے باہمی کا رشتہ استوار کرنے کے بجائے وہ سویلین کنٹرول کے نام پر ہمیشہ غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں سا ت دہائیوں میں سے قریبا ً نصف مدت فوج برسراقتدار رہی ہے، یہ خواب فی الحال شرمندہ تعبیر ہونا مشکل نظر آتا ہے لیکن میاں صاحب اب تک اپنی ضد پر قا ئم ہیں۔ اب لگتا ہے کہ شدید علالت کے باعث ان کابیانیہ بھی نرم پڑگیا ہے اور شہبازشریف کے استدلال کو کہ فوجی قیادت سے محاذآرائی نقصان دہ ہو گی پارٹی میں پذیرائی حاصل ہو گئی ہے۔ اسی بنا پرچھوٹے میاں جو پہلے تو آزادی مارچ میں شر کت سے ہی انکاری تھے اور یہ معلوم ہو جانے کے بعد کہ بلاول بھٹو بھی اس میں بھرپور شرکت نہیں کریں گے،ان کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلاتے تھے۔ یہ بھی خاصا حیران کن موقف تھا کہ ہم حالیہ ٹر ین سانحے میں ہلاکتوں کے سوگ میں آزادی مارچ کے جمعہ کو ہونے والے جلسہ میں شرکت نہیں کریں گے۔ اپنی حلیف سیاسی پارٹیوں کے شورو غوغا کے بعد شہبازشریف اگلے روز سٹیج پر مولانا کے ساتھ کھڑے تھے اور انھوں نے دھواں دھار تقریر بھی کی لیکن بعدازاں واضح کردیا کہ مسلم لیگ (ن) دھرنے میںشریک نہیں ہو گی۔ پارٹی کے کارکنوں کی مولانا کے آزادی مارچ اور دھرنے میں شرکت برائے نام رہی،ویسے بھی میاں نوازشریف اوران کی صاحبزادی مریم نواز کارکنوں کو نکال سکتے ہیں جبکہ میاں شہبازشریف سے ان کی کیمسٹری نہیں ملتی۔نوازشریف اپنی علالت کی وجہ سے کو ئی فعال کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں اور جہاں تک مریم نواز کا تعلق ہے، رہا ہونے کے باوجود وہ ابھی میدان کا رزار میں نہیں اتریں گی۔ وزیر اعظم، ان کی کابینہ کے ارکان اور ایوان اقتدار میں تشویش کے آثارنمایاں نظر آتے ہیں، وزیراعظم عمران خان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ان کے حواریوں کا نیم دلانہ رویہ ہے۔ مثال کے طور پر چودھری برادران صلح صفائی کا مشورہ دے رہے ہیں۔پیر کے روز چودھری شجاعت حسین اپنی علالت کے باوجود چودھری پرویزالٰہی کی معیت میں مولانا سے ملاقات کرنے ان کی اقامت گاہ پہنچ گئے۔ مولانا آزادی ما رچ سے پہلے چودھری شجاعت کے گھر جا کر ان کی مزاج پرسی کر چکے ہیں لیکن وزیراعظم عمران خان کو اپنے حلیف کی عیادت کر نے کی بھی فرصت تک نہیں۔ مولانا کے دھرنے کا جو بھی نتیجہ نکلے وزیر اعظم عمران خان اور ان کے حواریوں کو اپنے طرز حکمرانی پر نظرثانی کر نی چا ہیے۔ اپوزیشن کے خلاف منتقمانہ رویے اور انھیں دیوار سے لگانے کی حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے۔ وزیراعظم کے جن مشیروں نے انھیں یہ خواب دکھایا تھا کہ لوٹی ہوئی دولت واپس آ نے سے خزانہ لبالب بھر جا ئے گا چکنا چورہو چکا ہے۔تا زہ مثال وزیراعظم کے مشیر برا ئے احتساب شہزاد اکبر کا’’مشن‘‘جس کے تحت انٹرپول سے سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار کے ریڈ وارنٹ جاری کرانا تھا بری طرح ناکام ہو گیاہے۔ انٹرپول نے لندن میں خود ساختہ جلاوطنی گزارنے والے اسحق ڈار کے نہ صرف وارنٹ گرفتاری جاری کرنے سے انکار کردیا بلکہ شواہد کی جانچ پڑتال کے بعد کلین چٹ دیتے ہوئے ڈیٹا حذف کرنے کی ہدایت بھی دے دی ہے۔ اپوزیشن فی الحال پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے کی غلطی نہیں کرے گی۔ خان صاحب نے اپنے دھرنے کے دوران اسمبلی سے استعفے دیئے تھے لیکن سپیکرسے ملاقات کر کے ان استعفوں کی تصدیق کا مرحلہ آیا تو تحریک انصاف کے تمام ارکان اڑن چھو ہو گئے تھے۔ شاید خان صاحب کو بعد ازخرابی بسیار یہ احسا س ہو جائے کہ پارلیمنٹ کو فعال بنایا جائے، آ رڈینننسز کے بجائے اتفاق رائے سے قانون سازی کی جائے، بالخصوص باقیات مشرف نیب کے قانون میں ترامیم کی جائیں۔ اس وقت تو حال یہ ہے کہ اس قانون کے تحت پوری اپوزیشن کے سر پر تلوار لٹکا دی گئی ہے اور حکمران جما عت کے ارکان اورحلیفوں پر اس کا اطلاق نہیں کیا جا رہا۔ایسے موقع پر ایک ایسا آرڈیننس لانا جس کے تحت 5کروڑ روپے سے زائد کی کرپشن کے ملزموں کو جیل میں سی کلاس دی جائے گی بے وقت کی راگنی ہے کیونکہ اس کا مقصد اپوزیشن کو مزید دباؤ میں لانے کے سوا کچھ نہیں ۔خان صا حب کو جلد یا بدیریہ احساس ہو جائے گا کسی بھی حکومت کی کامیابی ’ڈیلیوری‘ہے جس میں ابھی تک وہ ناکام ہیں۔ محض این آر او نہیںدونگا کی رٹ لگانے سے بات نہیں بنے گی۔