دوسروں کے کام آنااوردوسروں کونفع پہنچانا اسلام کی روح اور ایمان کا تقاضاہے۔ ایک سچے مسلمان کی یہ نشانی ہے کہ وہ ایسے کام کرے، جس سے عام لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔مثلارفاعی ادارے بنانا، ہسپتال وشفاخانے بنانا،مدارس،دانش گاہیںبنانا، کنویں اور تالاب بنانا، دارالامان بنانا وغیرہ، یہ ایسے کام ہیں کہ جن سے مخلوقِ خدا فیض یاب ہوتی ہے اور ان اداروں کے قائم کرنے والوں کے حق میں دعائیں کرتی رہتی ہے ۔ یہ ایسے ادارے ہیں کہ جو صدقہ جاریہ میں شمار ہوتے ہیں۔ اس کااجرو ثواب مرنے کے بعد بھی اس شخص کو ملتاہے اوراس کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے ۔ہمدردی اور احترامِ انسانیت جس کا ہمارا دین مطالبہ کرتا ہے ، وہ ایک معاشرتی اصلاح کا کامیاب نسخہ ہے، جس کی بدولت معاشرے کے افراد ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک اسلامی وفلاحی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور امن وسکون کا گہوارہ بن جاتا ہے۔ انسان کے دکھ درد کو بانٹنا حصولِ جنت کا ذریعہ ہے۔ کسی زخمی دل پر محبت و شفقت کا مرہم رکھنا اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ ہے۔کسی مقروض کے ساتھ تعاون کرنا اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کوحاصل کرنے کاایک بڑا سبب ہے۔ کسی بیمارکی عیادت کرنا مسلمان کا حق بھی ہے اور سنت رسول بھی ہے۔بھوکے کو کھانا کھلانا عظیم نیکی اور ایمان کی علامت ہے۔ دوسروں کے کام آنا ہی اصل زندگی ہے، اپنے لئے تو سب جیتے ہیں، کامل انسان تووہ ہے ،جو اللہ کے بندوں اور اپنے بھائیوں کیلئے جیتا ہو۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو باہمی ہمدردی اور خدمت گزاری کا سبق دیا۔ طاقتوروں کو کمزوروں پر رحم و مہربانی اور امیروں کو غریبوں کی امداد کرنے کی تلقین فرمائی۔مظلوموں اور حاجت مندوں کی فریا درسی کی تاکید فرمائی۔یتیموں، مسکینوں اور لاوارثوں کی کفالت اور سر پرستی کا حکم فرما یا ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی’’حیات طیبہ‘‘ خدمت خلق سے لبریز ہے، سیرت طیبہ اس امرپرگواہ ہے کہ بعثت سے قبل بھی آپ خدمت خلق میں مشہور تھے، بعثت کے بعد خدمت خلق کے جذبہ میں مزید اضافہ ہوا، مسکینوں کی دادرسی ،مفلوک الحال پر رحم وکرم ،محتاجوں ،بے کسوں اورکمزورں پر مددآپ کے وہ نمایاں اوصاف تھے جس نے آپ کو خدا اور خلق خدا سے جوڑ رکھا تھا، غیر مسلم بڑھیا کی گٹھڑی اٹھاکر چلنا ،فتح مکہ کے موقع سے عام معافی کا اعلان اس کی روشن مثالیں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک تربیت میں پروان چڑھے اصحاب عظام رضوان اللہ علیہم خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار تھے، حضرت ابوبکرصدیق کا تلاش کرکے غلاموں کو آزاد کرانا ،حضرت عمرفاروق کا راتوں کولباس بدل کر خلق خدا کی دادرسی کیلئے نکلنا ،حضرت عثمان کا پانی فروخت کرنے والے یہودی سے کنواں خرید کر مسلم وغیر مسلم سب کیلئے وقف کردینا دوسروں کے کام آنے اوردوسروں کونفع پہنچانے کی تاریخ کے مشہور واقعات ہیں، انصار کا مہاجرین کیلئے بے مثال تعاون بھی اسی زمرہ میں آتاہے۔خدمت خلق کا یہ جذبہ مذکورہ چند صحابہ کرام میں ہی منحصر نہیں تھا بلکہ آپﷺ کے تمام اصحاب کا یہی حال تھا۔انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے نظام مصطفی کی عملی تصویر دنیا کے سامنے پیش کی، اپنے کردار سے سماجی فلاح وبہبود اور خدمت خلق کا وہ شاندار نقشہ تاریخ کے اوراق میں محفوظ کردیا جس کی نظیر دنیا کا کوئی نظام حیات پیش نہیں کرسکتا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم معاشرتی معاملات اور اخلاقیات کو اپنی زندگی کے ٹائم ٹیبل میں شامل ہی نہیں کیا حالانکہ یہ بھی دین کے اہم ترین حصے ہیں اورہمارے ایمان باللہ ،ایمان بالرسالت اورایمان بالیوم الآخرت کامطالبہ اورعملی تقاضاہے۔جن جھمیلوں میں ہم نے اپنے آپ کوپھنسادیاہے ان سے نکل کرہمیں خودیاسماج کے بااثر افراد ،تنظیموںاور اداروں سے جڑ کردوسروں کے کام آنے اوردوسروں کونفع پہنچانے کے لئے میدان میں کودپڑنا چاہئے،اوراس عمل وکردارسے دنیا کو انسانیت کا بھولا ہوا سبق یاد دلائیںاوراس کے ساتھ ساتھ اپنی نئی نسلوں میں بھی دوسروں کے کام آنے اوردوسروں کونفع پہنچانے کا جذبہ پروان چڑھائیں،یہ صرف ایک خدمت کاکام ہی نہیں بلکہ دلوں کے فتح کرنے کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ اسلام کی اشاعت کا موثر ہتھیار بھی ہے۔ دوسروں کے کام آنا،دوسروں کو نفع پہنچانا اسلام کی روح اور ایمان کا تقاضا ہے۔ ایک اچھے مسلمان کی یہ خوبی ہے کہ وہ ایسے کام کرتا ہے جو دوسرے انسانوں کے لئے فائدہ مند ہوں۔ اس نیکی کے ذریعے صرف لوگوں میں عزت واحترام ہی نہیں پاتابلکہ اللہ تعالی کے ہاں بھی درجات حاصل کرلیتا ہے۔ پس شفقت و محبت، رحم و کرم، خوش اخلاقی، غمخواری و غمگساری خیرو بھلائی، ہمدردی، عفو و درگزر، حسن سلوک، امداد و اعانت اور خدمت خلق! ایک بہترین انسان کی وہ عظیم صفات ہیں کہ جن کی بدو لت وہ دین و دنیا اور آخرت میں کامیاب اور سرخرو ہو سکتا ہے۔ دوسروں کے کام آنااوردوسروں کونفع پہنچانے کے اس عمل خیرکاحدوداربعہ محدود نہیں ہے بلکہ اس کی بے شمار جہتیں ہیں۔ اچھے اسلوب میں بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔ اپنے کارو بار اور زراعت وغیرہ میں کسی دوسرے کو شریک کرنا۔کسی کو اچھاا ور نیک مشورہ دیناجس سے مشورہ کرنے والے کا بھلا ہو۔کسی بیمار کا علاج کرادینا۔کسی بھوکے پیاسے کو کھانا کھلادینا و پانی پلادینا۔کسی غریب کی مادی و معاشی مدد کردینا۔ یتیموں و غریبوں کی شادی کرادینا۔ اسباب فراہم کردینا۔کسی حاجت مند کو بنا سود کے قرض دینا۔کوئی سامان کچھ مدت کے لیے ادھار دینا۔کسی کو تعلیم دلا دینا۔ننگے بدن کو لباس فراہم کرنا۔ درخت اور پودا لگا دینا جس سے انسان و حیوان فائدہ اٹھائیں۔کسی زخمی کی مدد کردینا۔کسی بھولے بھٹکے کو راستہ بتادینا۔کسی مسافر کی مدد کردینا۔کسی کی جائزسفارش کے ذریعہ کوئی مسئلہ حل کردینا۔کسی کا کام کرنے کیلئے اس کے ساتھ جانا۔ کسی کو گاڑی کے ذریعہ اس کے گھر یا منزل مقصود تک پہنچا دینا۔اپنے کام کے ساتھ دوسرے کا بھی کام کر دینا۔مثلا اپنا سامان خریدنے گئے دوسرے کا سامان بھی لیتے لائے۔کسی مظلوم کا حق دلا دینا۔راستہ سے تکلیف دہ چیزکا ہٹا دیناوغیرہ ،غرض یہ کہ دوسروں کے کام آنے کی بے شمار صورتیں اورجہتیں ہیں ۔