فرمایا: انسانوں میں سے بدترین وہ ہیں، جن کے شر کی وجہ سے ان کی عزت کی جائے۔کب تک، آخر کب تک؟ ’’نون لیگ والوں کی طرح پی ٹی آئی پہ آپ بڑ ھ چڑھ کر حملے کر رہے تھے‘‘ یہ خان صاحب کے ایک مداح کا پیغام ہے۔ جس پروگرام کا انہوں نے حوالہ دیا، بے شک وزیر اعظم پہ اس میں کچھ تنقید کی۔ یہ بھی لیکن عرض کیا،بیشتر حلقوں میں ان کی حمایت برقرار ہے۔ فدائین اور عشّاق میں کمی نہیں آئی۔ کیا یہ نون لیگ کا اندازِ فکر ہے؟ کیا کیجیے، نرگسیت اور شخصیت پرستی پھلتے پھولتے خود پسندی میں ڈھلنے لگتی ہے اور کامل توثیق کا مطالبہ کرتی ہے۔ جواں سال ہیں، ان سے برسوں کے مراسم ہیں۔ ہمیشہ ان کا احترام ملحوظ رکھا۔ مزاج مگر ایک خاص سانچے میں اتر جائے تو ایسا ہی ہوتاہے۔ سب لحاظ اور ساری مروّت دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ جذبات کے وفور میں سب کچھ بھلا دیا جاتاہے۔ ایک پل کو جی چاہا کہ پروگرام کے اقتباسات انہیں بھیج دوں، پھر خاموشی ہی میں عافیت جانی۔ زمانہ گزرا ایک درویش نے کہا تھا: عافیت گمنامی میں ہوتی ہے گمنامی نہ ہو تو تنہائی میں تنہائی نہ ہو تو خاموشی میں خاموشی نصیب نہ ہو تو صحبتِ سعید میں کون ان نوجوانوں سے بحث کر سکتاہے۔ حاصل ہی کیا؟ 1970ء اور 1980ء کے عشرے میں فخرِ ایشیا، قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو کے حامیوں سے مکالمے کا کوئی امکان کسی طرح بروئے کار نہ آتا۔کیا آج بھی قائدِ اعظم ثانی میاں محمد نواز شریف کے علم برداروں سے گفتگو کا کوئی نتیجہ ممکن ہے؟ دلائل کے خواہ انبار لگا دیے جائیں۔ شخصیت پرستی اس معاشرے کے مزاج میں ہے۔ ہڈیوں کے گودے تک براجمان۔ تین چار عشرے گزرجانے کے بعد پیپلزپارٹی بات سننے لگی۔ اب وہ ان پارٹیوں میں سے ایک ہے، جس کا میڈیا سیل اخبار نویسوں کو جرائم پیشہ ثابت کرنے کی کوشش میں جتا نہیں رہتا، دراں حالیکہ وہی سب سے بڑا ہدف ہے۔ جماعتِ اسلامی بھی ان جماعتوں میں سے ایک ہے۔۔۔اور یا للعجب مولانا فضل الرحمٰن کے حامی بھی۔ تنقید کرتے ہیں، وہ بھی کم کم اور اکثر شائستگی کے ساتھ۔ اس حال میں کہ دائم ان کا مذاق اڑایا جاتاہے۔ مستقلاً ان پہ پھبتیاں کسی جاتی ہیں۔ غور و فکر کا عمق نصیب ہو تو کردار کشی کرنے والوں کو ادراک ہو کہ فائدہ نہیں، اس میں نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ میرؔ درد کا شعر اس موضوع پر نہیں لیکن کیسا گرہ کشا۔ دردؔ تو جو کرے ہے جی کا زیاں فائدہ اس زیان میں کچھ ہے اللہ کے آخری رسولؐ نے یہ ارشاد کیا: غیبت اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے۔ سوال ہوا کہ اگر واقعی وہ عیب اس کی شخصیت میں کارفرما ہو۔ اس مفہوم کا جملہ آپؐ نے کہا: یہی تو غیبت ہے، ورنہ بہتان! یہ امّت روایات میں کھو گئی حقیقت خرافات میں کھو گئی کم لوگوں کو ایسے اور اتنے حسد کرنے والوں سے واسطہ پڑا ہوگا، جتنا اس نادرِ روزگار اسد اللہ خان غالبؔ کو۔ اپنا دور ہی کیا،ڈیڑھ سو برس بیت جانے کے بعد بھی وہ سب سے بڑے شاعر ہیں۔ عظیم ترین نثر نگار بھی۔ عبد القادر حسن مرحوم کہا کرتے: وہ اردو زبان کے پہلے کالم نگار بھی تھے۔ کیسا کیسا جملہ ان کے خطوط میں ہیرے کی طرح دمکتا ہے۔ اپنی علالت کے ذکر میں لکھا:: اتنی دیر میں بستر سے اٹھتا ہوں، جتنی دیر میں قدّ آدم دیوار اٹھتی ہے۔ 1857ء کے ’’غدرکا حوالہ دیتے ہوئے ایک دوسرے مکتوب میں ہے ’’تمہارے خط نے میرے ساتھ وہ کیا، جو پیرہن نے یعقوب کے ساتھ کیا تھا۔‘‘ اردو غزل کے اس تاجدار نے کہا تھا: یا رب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر نہیں ہوں میں استاد ابراہیم ذوقؔ کے حامیوں سے متعلق یہ کہا تھا ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے تمہی کہو یہ اندازِ گفتگو کیا ہے ذوقؔ بڑے شاعر تھے مگر غالبؔ؟ غالبؔ سے کسی کا کیا موازنہ۔ بانگِ درا کے دیباچے میں لکھا گیا:غالبؔ نمودار نہ ہوئے ہوتے تو اقبالؔ بھی نہ ہوتے۔سید ابو الاعلیٰ مودودی نے کہا تھا: زمانہ بڑا بے رحم صرّاف ہے۔ کھوٹے کو تو کھرا تسلیم ہی نہیں کرتا، کھرے کو بھی بہت تامل کے بعد کھرا مانتا ہے اگر آج وہ ہمارے درمیان ہوتے تو شاید یہ اضافہ کرنا پسند کرتے: مداریوں اور شعبدہ بازوں پہ زمانہ جلد فدا ہو جاتاہے۔ یہ الگ بات کہ آخر کار وہ تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ کسی بھی فرد یا گروہ پہ آخری فیصلہ اس کے دعووں نہیں بلکہ اعمال پہ صادر ہوتا ہے۔ تین برس بیتنے کو آئے، اب تک کون سا کارنامہ خان صاحب نے انجام دیا ہے؟ معیشت اور سیاست تو الگ، صحت، تعلیم، پولیس، عدلیہ اور افسر شاہی کی اصلاح کے لیے کوئی ایک قدم؟ اب تک اگر وہ کچھ نہ کر سکے تو بقیہ دو برس کی مہلت میں کیسے انقلاب برپا کردیں گے؟ آدمی کی افتادِ طبع ہی اس کی تقدیر ہے۔ خان صاحب کا مزاج یہ ہے کہ ہر ناکامی کا ذمہ دار مخالفین کو ٹھہرایا جائے۔ مخالف کس کے نہیں ہوتے؟ اولیا اور پیغمبرانِ عظام ؑ تک سبھی کے۔۔ پھر اپنی ساری توانائی کیا وہ ان کی مذمت میں لٹا دیتے ہیں؟ کب تک وہ شریف اور زرداری خاندان کے عیوب پر اپنی عظمت کی داستان استوار کر تے رہیں گے۔منزل تو بہت دور کی بات ہے، جو آدمی اپنا راستہ بھی متعین نہ کر سکے، ظفرمندی کے بہشتِ بریں کا دروازہ اس پہ کھل کیسے سکتاہے۔ اپنے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو بھی انہوں نے مشکل میں ڈال دیا ہے۔ کب تک یہ بوجھ وہ اٹھائے گی، کب تک؟ جس حکمران کی کابینہ کا عالم یہ ہو کہ ایک ڈیڑھ گھنٹے میں، اس کی کارروائی حرف بحرف اخبار نویسوں تک جا پہنچتی ہو؟ جس کا حال یہ ہو کہ اس کی پارٹی کے اڑھائی درجن ارکان برسرِ عام بغاوت کا علم بلند کریں؟ جسے آئے دن غیر ذمہ دارانہ بیانات پر وزرا کو تنبیہ کرنی پڑے، وہ کوئی تاریخ ساز معرکہ سر فرمائے گا؟ خان صاحب ایک دیر آشنا آدمی ہیں۔ بہت تاخیر سے خیال ان کے قلب و دماغ میں نمو پاتا ہے۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ایسے’’مردانِ کار‘‘ کو آزادی دے رکھی ہے، ایک آدھ کے سوا ہر قابلِ ذکر پارٹی میں سہانا وقت وہ بتا چکی ہیں۔ سیالکوٹ کی شائستہ اطوار اسسٹنٹ کمشنر سے جو سلوک انہوں نے کیا، رفتہ رفتہ اس کے مضمرات ان پر کھلیں گے۔ تب کھلیں گے،جب مداوا مشکل نہیں، شاید ناممکن ہو۔ کوئی دانا حکمران ہوتا تو اسی روز انہیں معافی مانگنے کا مشورہ دیتا۔ معافی! جو اخلاقی عظمت کی دلیل ہوتی ہے۔ گاہے سب داغ دھبے جو دھو ڈالتی ہے۔ فرمایا: جسے حکمت عطا کی گئی، اسے خیرِ کثیر بخشا گیا۔۔۔اور فرمایا کہ پروردگار جس پہ رحم کرنا چاہے، اس کی آنکھ اپنے آپ پہ کھول دیتا ہے۔ اپنی غلطیوں اور خامیوں کا ادراک اور مداوا کرنے کا شعور۔ فرمایا: انسانوں میں سے بدترین وہ ہیں، جن کے شر کی وجہ سے لوگ ان کی عزت کریں۔ کب تک، آخر کب تک؟