کیا ہم سب بے بس ہیں ؟ کیا خان صاحب بھی بے بس ہیں ؟ کب تک نام نہاد اشرافیہ گِدھوں کی طرح اس ملک کو نوچتی رہے گی ؟ کب تک صبر کیے ہم بیٹھے رہیں گے ؟ کب تک ، آخر کب تک ؟ بتوں سے تجھ کو امیدیں ، خدا سے نو میدی مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے خبر یہ ہے کہ بھوک ، بے روزگاری ، بے یقینی اور گرانی کے باوجود عمران خاں اب بھی ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں ۔ اس سے بھی زیادہ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار ،باقی تینوں وزراء اعلیٰ سے کہیں زیادہ قابلِ قبول ہیں ۔ راز کی بات یہ ہے کہ گیلپ کا یہ سروے اپریل میں ہوا تھا ، جب بھارتی پائلٹ پکڑ لیا گیا تھا ۔ خفت اور شرمندگی مودی کے چہرے پر تھوپ دی گئی تھی ۔ساتھ ہی حکمت اور ہوشمندی کے ساتھ جنگ ٹالنے کی کوشش کی جا رہی تھی ۔ انکشاف یہ بھی ہے کہ عمران خاں کی58فیصدقبولیت کے مقابلے میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی تائید 74فیصد ہے۔خیراس پہ پھر بات ہوگی۔ 60صفحے کی دستاویز ہے ۔ پڑھنے ، سمجھنے کے لیے کم از کم ایک پہر درکار ہے ۔ پیر ، منگل ،بدھ اور جمعرات کو رات دس بجے نشر ہونے والا پروگرام’’مقابل‘‘ اب ناچیز کی ذمہ داری ہے ، ظفر ہلالی جس میں جادو جگاتے ہیں ۔ جنوبی پنجاب پہ بات کرنے کے لیے قاف لیگ کے طارق بشیر چیمہ مدعو کیے گئے ۔ پریشان کر دینے والا سوال یہ تھا کہ اس پر قاف اور نون لیگ کا موقف یکساں کیسے ہو گیا ۔آٹھ نو عشروں سے چیمہ صاحب کا خاندان سیاست میں ہے ۔ ان کے مرحوم والد 1951ء سے 1954ء تک بہاولپور کی صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر تھے ۔ ان کے ایک بھائی طاہر بشیر چیمہ جڑواں بہاولنگر کی تحصیل ہارون آباد سے انتخاب کے اکھاڑے میں اترتے ہیں ۔وہ خود بہاولپور کی تحصیل یزمان منڈی سے ۔اب کی بار ان کی صاحبزادی نے الیکشن لڑا ۔وہ قاف لیگ میں ہیں اور بھائی کا خاندان تحریکِ انصاف میں ۔ عمران خان کے حلیف ہیں مگر ناراض حلیف۔ وہی جو نپولین نے کہا تھا ’’سیاست میں حلیف ہوتے ہیں یا حریف ، دوست کوئی نہیں ہوتا ۔‘‘ شریف خاندان کی طرح قاف لیگ بھی یہ کہتی ہے کہ ایک نہیں ، دو صوبے بنانے چاہئییں۔ ایک بہاولپور اور دوسرا ملتان ۔دریا کی سی روانی سے چیمہ صاحب نے گفتگو کی ۔ کہا کہ بہاولپور صوبہ رہ چکا ، ون یونٹ میں کھپایا گیا تو ریاستِ پاکستان نے پیمان کیا تھا کہ بصورتِ دیگر بہاولپور پھر سے صوبہ بنادیا جائے گا ۔ یاد دلایا کہ 1970ء میں کیسی شاندار تحریک بہاولپور صوبے کے لیے برپا ہوئی تھی ۔ خون بہا تھا، لاشیں گری تھیں ۔پورے پنجاب میں پیپلزپارٹی جیت گئی تھی لیکن بہاولپور میں ہاری کہ الگ صوبے کی حمایت سے بھٹو نے انکار کر دیا تھا ۔ یاد دلایا کہ قومی اسمبلی میں بہاولپور کے نمائندوں نے 1973ء کے آئین پہ دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔ ’’ہم نے بہت قربانیاں دی ہیں اور ہمارے تجربات بہت تلخ ہیں ‘‘ بار بار انہوں نے کہا۔ عرض کیا کہ قربانیاں تو ہزارہ صوبے کے لیے بھی کم نہ تھیں ۔یاد ہے کہ ایبٹ آباد کے در و دیوار نے معصوم انسانوں کو تڑپتے دیکھا تھا۔ بابا حیدر زماں ہیرو بن کے ابھرے تھے ۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے فرزند گوہر ایو ب ان کی موجودگی میں سر جھکائے مودب نظر آتے ۔ پھر کیا ہو ا؟ جیتا جاگتا لہو بھلا کیسے دیا گیا ۔ ایسی شاندار تحریک دھند کی طرح تحلیل کیسے ہو گئی ۔ چیمہ صاحب سے گزارش کی کہ سیاست میں سب سے اہم چیز شخصیات ، پارٹیاں اور موقف نہیں ، حالات ہوتے ہیں ۔ یہ کہ وقت کا دھارا کس رخ پہ بہہ رہا ہے ۔ تقدیر اسی کا نام ہے ۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے پروردگار کا پیغام انسانوں تک پہنچایا تھا: زمانے کو برا نہ کہو، میں ہی زمانہ ہوں ۔ اس کی زمیں بے حدود ، اس کا افق بے ثغور اس کے سمندر کی موج دجلہ و دنیوب و نیل جذبات میں گندھی آواز ،مگرچیمہ صاحب ضبط کیے رہے ۔ دلیل پہ دلیل لڑھکاتے رہے ۔ آخر کودماغ پہ دل غالب آیا ۔ جذبات نے فتح پائی تو بے قرار ہو کر بولے : عجب حلیف ہیں ۔جنوبی پنجاب کے بارے میں ہم سے بات نہ کی اور نہ بلدیاتی الیکشن پر ۔ عرض کیا : چوہدری شجاعت حسین کی وزیرِ اعظم بہت عزت کرتے ہیں ۔ چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے سپیکر ہیں ۔ باہم آپ بات کیوں نہیں کر لیتے ۔ کہر اور دھوپ کے موسم بتانے والے سیاستدان نے چمک کر کہا : ہر بار ہمی ان سے بات کریں ؟ ہر بار ہمی اس دروازے پر دستک دیں ؟ زیرِ لب شکایت بھی کی کہ حلیف ہونے کے باوجود میرے خلاف امیدوار تحریکِ انصاف نے کھڑا کر دیا تھا ۔ کہا کہ وہ ان کے ممنون بہرحال نہیں ۔ تو پھرکیا یہ اقتدار کا جھگڑا ہے ؟ ناقدری کی شکایت ہے ؟ چیمہ صاحب کیا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہر معرکے میں قاف لیگ تحریکِ انصاف کی ہم رکاب ہو سکتی ہے لیکن ہمارا حال تو پوچھیں ، ہمارا حصہ تو ادا کریں ۔ دلوں میں جھانکا نہیں جا سکتا ۔سلطان باہو،وہ نادرِ روزگار شاعر، وہ عارف ، جس نے اورنگ زیب عالمگیر کے سر پہ شفقت کا ہاتھ ر کھا تھا ،جس سے اقبالؔ نے فیض پایا ۔ اس نے یہ کہا تھا : دل دریا سمندروں ڈونگھے، کون دلاں دیاں جانے ہو وچے بیڑے، وچے جھیڑے، وچے ونجھ مہانے ہو دل کا دریا سمندر سے بھی گہرا ہوتاہے ۔ اسی میں کشتیاں ، اس میں جنگیں ، اسی میں ملّاح ۔ کون اس کے راز پا سکتاہے ؟ تو کیا شکایت یہ ہے کہ شہر یار آفریدی تک وزیر بنا دیئے گئے مگر مونس الٰہی نہیں،ہر ایرے غیرے سے مشورہ کیا جاتا ہے مگر ہنر مندوں سے نہیں۔ ایک چونکا دینے والا نکتہ اس پروگرام میں سابق سیکرٹری خزانہ علامہ وقار مسعود نے اٹھایا ۔ اپنے خاص شائستہ لہجے میں نشاندہی کی : ہر سال دس ارب ڈالر ملک سے فرار ہو جاتے ہیں ۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی کچہری میں اعدادو شمار پیش ہوئے تھے۔ سالِ گزشتہ 16بلین ڈالر سمندر پار پہنچا دیے گئے ۔ خاں صاحب اور ان کی پارٹی واویلا کرتی رہی ۔ وعدہ کرتی رہی کہ آئندہ اس کی اجازت نہ دی جائے گی ۔اس کے باوجود وہ قانون جوں کا توں ہے ، جو کالا دھن سفید کرنے اور بیرونِ ملک ڈالر بھیجنے والوں کو کھلی چھٹی دیتاہے ۔ کہا کہ بھارت میں زرِ مبادلہ کے ذخائر 420بلین ہیں ۔ اس کے باوجود عام شہریوں کو ڈالر خریدنے اور رکھنے کی اجازت نہیں ۔ پاکستان کی معیشت زبوں حال ہے ۔ پھر بھی جو چاہے ، جتنے ڈالر چاہے خرید لے ۔ کرنسی بدلنے کی دکان پر جائے اور ملک سے باہر بھیج دے ۔ 1992ء میں میاں محمد نواز شریف نے یہ دروازہ اشرافیہ کے لیے کھولا تھا ۔ یہ ڈاکٹر صاحب نے کہا۔ کوئی منہ پھٹ ہوتا تو چیخ کر کہتا ’’ لٹیروں کے لیے‘‘۔ جنرل مشرف اقتدار میں آئے تو انہوں نے سوراخ بند کر نے کا وعدہ کیا تھا مگر کھلا رکھا ۔شریف اور زرداری خاندانوں کو سرمایہ ملک سے باہر بھیجنا تھا، دبئی ، سوئٹزرلینڈ ، برطانیہ اور امریکہ ۔ جنرل مشرف نے اپنا وعدہ کیوں پورا نہ کیا ۔ اس کے سوا کیا کہ ہر بار اشرافیہ غالب آتی ہے ۔مکار لومڑی فریب دیتی ہے ۔ یہ ملک اس کی چراگاہ ہے ۔ کیا ہم سب بے بس ہیں ؟ کیا خان صاحب بھی بے بس ہیں ؟ کب تک نام نہاد اشرافیہ گِدھوں کی طرح اس ملک کو نوچتی رہے گی ؟ کب تک صبر کیے ہم بیٹھے رہیں گے ؟ کب تک ، آخر کب تک ؟ بتوں سے تجھ کو امیدیں ، خدا سے نو میدی مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے