انسان کی سوچ‘ منصوبہ بندی اورلائحہ عمل اپنی جگہ مگر قدرت کا اپنا نظام ہے۔اصلاحات کے نام پر عوام دشمن اقدامات سے کبھی کوئی حکومت پذیرائی حاصل کرسکی ہے اور نہ ہی مطلوبہ اہداف۔ خوبصورت بیانئے اور انقلابی اقدامات کے دعوؤں سے اصلاحات نہیں بلکہ مشکلات نے جنم لیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے مسند اقتدارسنبھالنے سے قبل جو دعوے اورروڈمیپ عوام کے سامنے رکھا‘اسکے مطابق انقلابی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اس مقصد کیلئے ڈاکٹر عشرت حسین کا چناؤ کیا۔وزیراعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین 2006سے ادارہ جاتی اصلاحات کیلئے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ سرکاری اداروں میں بہتری‘سالانہ 500ارب روپے نقصان کا خاتمہ اور قومی خزانے پرتنخواہوں اور پنشن کا دباؤ کم کرنے کیلئے کئی رپورٹس اور تجاویز تیار کیں مگر بدقسمتی کہئے یا خوش قسمتی ‘ان رپورٹس پر عملدرآمد شروع نہیں ہوسکا۔ وزیراعظم نے ڈاکٹر عشرت حسین کے تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی حکومت کے اداروں میں اصلاحات کابیڑا ایک مرتبہ پھر اٹھایا ‘ان کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے 13اجلاس منعقد کرتے ہوئے حتمی پلان 10مارچ کو وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کیا ۔ کابینہ ارکان نے کچھ تحفظات کیساتھ اس پلان کی بالآخر منظوری دیدی ہے۔ عوام اور سرکاری ملازمین کو اس فیصلے کے مضمرات سے وقتی طور پر تو لاعلم رکھا گیا ہے مگر یہ معاملہ زیادہ دیر پوشیدہ نہیں رکھا جاسکتا۔ وفاقی کابینہ اجلاس کے بعد سرکاری دستاویز ات کو کھنگالا تو معاملہ نہایت گمبھیر نکلا۔9ماہ کی کاوشوں کے بعد منظورہونیوالے پلان میں حکومت ‘ سرکاری ملازمین اور افسران کیلئے کوئی اچھی خبر نہیں۔پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی تحلیل سے برطرف اوروفاقی سیکرٹریٹ کے ایک ہزار سے زائد ملازمین کی تنخواہ پر امتیازی سلوک پر احتجاج سے جاںخلاصی نہیں ہوئی کہ چند دنوں وفاقی حکومت کی تنظیم نو کے نتیجے میں فارغ ہونیوالے سرکاری ملازمین کی بڑی تعداد ڈی چوک پرپڑاؤڈالنے والی ہے۔ جی ہاں! ڈاکٹر عشرت حسین نے چار وزارتوں کے ماتحت چار ادارے مکمل طور پر بند کرنے کی منظوری حاصل کرلی ہے جس کے نتیجے میںوزارت مذہبی امور کے ماتحت حج عمرہ ڈائریکٹوریٹ بندکردیا جائے گا ۔ڈائریکٹرجنرل‘ڈائریکٹر آئی ٹی اور نیٹ ورک ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ ختم جبکہ وزارت مذہبی امور کے ملازمین اور افسران کی تعداد یکم جولائی 2018کی سطح پر بحال کی جائے گی۔کابینہ ڈویژن کے ماتحت شیخ سلطان ٹرسٹ کراچی‘وزارت خزانہ کے ماتحت انڈسٹریل ڈویلپمنٹ بنک اور وزارت کشمیر کا ٹی بی ونگ اٹک بھی مکمل طور پر بند کردیا جائے گا۔ چار وزارتوں کے ماتحت 15اداروں کے انضمام اور 4ادارے صوبوں کی منتقل کرنے کی منظوری دیدی گئی ہے۔16ادارں کو ایکٹو نجکاری لسٹ جبکہ 30مزید اداروں کی نجکاری کی منظوری دی گئی ہے۔15وزارتوں کے 42اداروں کا ایگزیکٹو ڈیپارٹمنٹ ‘17وزارتوں کے 117اداروں کو خودمختار اورسیکرٹریٹ ٹریننگ انسٹیٹیوٹ بنانے کی منظوری دی گئی ہے۔ بدقسمتی کیساتھ وفاقی حکومت کے اداروں کی تنظیم نو کے نام فارغ ہونیوالے سینکڑوں سرکاری ملازمین کے مستقبل کے بارے میں دستاویز ات اور ارکان خاموش ہیں چونکہ ڈاکٹر عشر ت حسین سمجھتے ہیں کہ انکا یہ فارمولہ تیر بہدف ثابت ہوگا۔ سرکار ی اداروں میں انقلاب آجائے گا۔ عوام کے مسائل حل اور سالانہ اربوں روپے کا نقصان اور خزانے پر بوجھ کم ہوجائے گا۔حیران کن طور پر ڈاکٹر عشرت حسین نے کہنہ تجربے کے باوجود اس حقیقت سے پردہ نہیں اٹھایا کہ ماتحت ملازمین یا چند سرکاری ادارے قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کے ذمہ دار نہیں ۔ سرکاری اداروں میں اصلاحات کیلئے ٹاپ لیول پر اصلاحات کی ضرورت ہے جہاں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے گریڈ 20سے گریڈ 22تک کے افسران براجمان ہیں۔ ورلڈ بنک نے 20سال قبل پاکستان کو ایک رپورٹ کے ذریعے آگاہ کردیا تھاکہ دنیا بہت تیزی کیساتھ سپلائزیشن دور میں داخل ہوچکی ہے۔ضلعی نظام سنبھالنے والے یاکسی وزارت میں فائز افسر کو اچانک وزارت خزانہ‘توانائی‘صنعت وپیداوار یا تجارت میں تعینات کرکے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے جاسکتے۔متعلقہ تجربے کے حامل افسران کو کارگردگی کی بنیادپر پانچ اہم ترین وزارتوں میں 5سال کے لیے تعینات کردیا جائے تواداروں میں اصلاحات نہیں بلکہ انقلاب بپا ہوجائے گا۔ وہ وزارتیں جہاں ایڈہاک ازم کا خوفناک راج قائم ہے‘جہاں پسند ناپسند‘قومیت اور مخصوص گروپ کی اجارہ داری ہوچکی ہے۔ اس اجارہ داری کا احوال بھی پڑھ لیجئے۔ وزیراعظم نے فروری 2019میں سوئی سدرن اور سوئی نادرن کے ایم ڈی تعینات کرنے کی ہدایت کی تاکہ دونوں کمپنیوں میں ایڈہا ک ازم کا خاتمہ اور عوام کو بہترسروسز میسر ہوسکیں۔ لیت ولعل سے کام لینے کے بعد تقرری کا عمل شروع ہوا‘ جنوری 2020 میں وزیراعظم کو تین ناموں کی سمری ارسال کی گئی۔ وزیراعظم نے انٹیلی جنس بیورو کی رپورٹ پڑھی توششدررہ گئے ۔ سمری میں شامل دونام بطور قائمقام ایم ڈی اور ڈپٹی ایم ڈی سوئی نادرن خدمات سرانجام دے رہے تھے۔آئی بی کی رپورٹ دونوں افسران کے خلاف تھی جبکہ تیسرے امیداوار کو نیب کی تحقیقات کاسامنا تھا۔ یوں وزیراعظم نے سمری مسترد کرتے ہوئے سوئی نادرن میں اعلیٰ ترین عہدوں پر تعینات دونوں افسران کو ہٹانے کی ہدایت کرتے ہوئے نیا پینل طلب کیا ۔ 10فروری کو سیکرٹری پٹرولیم کو سرکاری طورپرآگاہ کیا گیا مگر آج تک کوئی کارروائی عمل نہیں لاجاسکی اور ایک سال بعد بھی مستقل ایم ڈی کی تعیناتی کاعمل مکمل نہیں ہوسکا۔افسرشاہی اور مشیروں کی ’رنگ بازیاں‘ جانے کب تک جاری رہیں گی؟عوام کی فلاح اور حقیقی خدمت کے پیش نظر تیار ہونیوالے پلان ہی حقیقی تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔ عوام کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کے بجائے مشکلات پیدا کرنے والی حکومتوں کا شیرازہ بکھرجایاکرتاہے۔حقیقی تبدیلی کب تک؟ کے سفر کا آئندہ انحصار کپتان کی دانشمندی پر ہے۔