اڈیارڈ کپلنگ نے اپنی ایک نظم میں لکھا تھا کہ ’’مشرق‘ مشرق ہے اور مغرب‘ مغرب ہے اور کبھی یہ دونوں آپس میں مل نہیں سکتے‘‘ مگر بعض اوقات’’مغرب‘‘ مشرق میں آ کر یوں ’’مشرقی‘‘ بن جاتا ہے کہ جسے دیکھ کر خود اہل مشرق رشک کرنے لگتے ہیں۔ ’’آخر کار وہ لمحہ آ ہی گیا جب مجھے دولہا کے گھر والوں کا سامنا کرنا تھا۔ وہ مجھے پہلے ہی دل و جان سے قبول کر چکے تھے۔ میں ایک سٹول پر بیٹھی ہوئی تھی اور میرے چاروں طرف گائوں کے بڑے بزرگ جمع تھے۔داڑھی والے‘ مہندی رنگے بالوں والے‘چھوٹے اور بڑے بھانجے‘ بھتیجیاں ‘ رشتے دار ان کی بیٹیاں‘ بہویں‘ سوتیلی بہنیں… سب ہنس رہے تھے۔ خوش ہو رہے تھے۔ چیخ رہے تھے‘ بہت کچھ بول رہے تھے۔ ایک پر ایک چڑھ کر گھونگھٹ میں سے میرا چہرہ، میری غیر ملکی نیلی آنکھوں کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ میرے ہاتھوں میں قرآن تھما دیا گیا اور میرے شوہر کی ضعیف والدہ نے اپنے روایتی انداز میں مجھے خوب دعائیں دیں اور میرا نام کلثوم رکھ دیا گیا‘‘ یہ دلہن تھیں ایلس فیض اور ان کے میاں کا نام فیض احمد فیض ہے۔ جی ہاں! پاکستان کے صف اول کے شاعر جناب فیض احمد فیض۔480صفحات پر مشتمل ایلس فیض کی حال ہی میں مکتبہ سنگ میل کی طرف سے شائع کردہ خود نوشت ’’کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں‘‘ میں جوں جوں پڑھتا گیا، مجھ پر ایک جہان حیرت وا ہوتا گیا اور ایلس فیض کی وفا شعاری کا نقش میرے دل پر گہرے سے گہرا ہوتا چلا گیا۔ کہاں انگلستان کی عطربیز فضائوں میں رہنے والی ’’مغربی میم‘‘ اور کہاںفیض کے پنجابی دیہاتی گھر کالا قادر کی اونچی نیچی ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈیاں جہاں ریلوے اسٹیشن سے بجلی کے چراغوں سے محروم گائوںمیں جانے کا واحد ذریعہ ہچکولے کھاتا تانگہ تھا۔ ایلس فیض وہاں فیض احمد فیض کی والدہ اور دوسرے رشتہ داروں سے ملنے لاہور سے گائوں جاتیں اور خوشی خوشی کئی دن وہاں گزارتیں۔ فیض احمد فیض کی ایلس فیض سے شادی 1941ء میں سری نگر میں ہوئی تھی۔ ایلس فیض اپنے نکاح کا احوال اپنی خودنوشت میں یوں لکھتی ہیں ’’شیخ عبداللہ میرے پاس آ کر جھکے اور نہایت نرم الفاظ میں بولنا شروع کیا۔ پہلے اردو میں اور پھر انگریزی میں۔ انہوں نے مسلم روایات کے مطابق میری رضا مندی معلوم کی۔ میرے ہاں کہنے پر نکاح نامہ تیار کیا گیا۔ معاہدے میں یہ طے کیا گیا کہ جب تک میں ان کے نکاح میں ہوں فیض دوسری شادی نہیں کریں گے۔ ہمارا نکاح نامہ اسی انداز سے تیار کیا گیا جس طرح میری بہن اور ڈاکٹر تاثیر کے لئے سر محمد اقبال نے تیار کیا تھا۔ 9مارچ 1951ء کو فیض احمد فیض کو کچھ اور ساتھیوں اور چند آرمی افسران کے ساتھ ایک ناکام بغاوت کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔ اس وقت فیض پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر تھے۔ یہ کیس راولپنڈی سازش کیس کے نام سے مشہور ہوا۔ فیض احمد فیض کی شخصیت‘ ان کی شاعری‘ ان کی کمیونزم سے جذباتی و عملی وابستگی اور ان کی زندگی کی کہانی میرا موضوع نہیں۔ میرا موضوع ایلس فیض کی وفا شعاری ‘ دیہاتی انداز کی پنجابی جائنٹ فیملی میں ان کا رچ بس جانا‘ فیض کے ساتھ ان کی قلبی وابستگی اور ان کی خودنوشت ہے۔ فیض کے مقدمے کے بارے میں ایلس لکھتی ہیں’’ہمیں فیض کے لئے ایک بہت قابل وکیل کی ضرورت تھی۔ فیض کے بڑے بھائی نے ہمیں منظور قادر کے بارے میں بتایا کہ وہ فیض کا مقدمہ لڑیں گے وہ بہت اچھی طرح ملے بات کی مگر ان کا جواب صاف انکار تھا‘ وہ جانتے تھے کہ ہمارے پاس زیادہ پیسے نہیں ہیں‘‘ ایلس نے مشکلات کے اس دور کے بارے میں لکھا کہ جب اپنا سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔’’ہمارے بہترین دوستوں میں سے ایک تھے فیض کے ماموں اقبال۔ وہ سرکاری ملازم تھے‘ لیکن وہ ہمارے لئے اس مدت میں ایک سایہ بن گئے اور ایک بے لوث مشیر۔ انہوں نے کہا کہ تمہارے پاس جو رقم ہے اسے بنک میں ہی رہنے دو۔ اگر حالات بہت ہی خراب ہو جائیں اور تم انگلینڈ واپس جانا چاہو تو اس رقم سے ٹکٹ خرید سکو گی۔ میں نے یہ سن کر اصرار کیا کہ میں ہمیشہ پاکستان میں ہی رہوں گی چاہے کچھ ہو جائے۔ ایلس فیض کبھی کبھی شدید گرمی میں ریل گاڑی کے تھرڈ کلاس اور کبھی انٹر کلاس میں رات بھر لاہور سے حیدر آباد تک کا سفر کرتیں اور اگلے روز گرد میں اٹی ہوئی وہاں پہنچتیں اور جیل میں فیض سے ملاقات کرتیں اور فیض احمد فیض کا حوصلہ بڑھاتیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا کا کہنا یہ ہے کہ کوئی بھی نظریاتی مقصد اس وقت تک ادب پارہ تخلیق نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ مقصد شاعریا آرٹسٹ کی رگ و پے میں رچ بس کر تخلیقی عمل سے نہ گزرے۔ فیض احمد فیض کی شاعری دوسرے ترقی پسند شعراء کے مقابلے میں اسی لئے ادبی سرمایہ بن گئی ہے کیونکہ فیض نے اپنی نظریاتی سوچ اور اپروچ کو اپنی جذباتی وابستگی کا حصہ بنا لیا اور غم دوراں اور غم جاناں کو یک جان دو قالب کر دیا۔ پس دیوار زنداں میں کہے گئے فیض کے یہ اشعار دیکھیے۔ ؎ بجھا جو روزنِ زنداں تو دل یہ سمجھا کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہو گی چمک اٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے کہ اب سحر ترے رخ پر بکھر گئی ہو گی غرض تصور شام و سحر میں جیتے ہیں گرفت سایۂ دیوار و در میں جیتے ہیں یوں ہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق نہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی ریت نئی ایلس فیض نے دوسرے ملکوں کی سیرو سیاحت بھی کی۔ وہ 1962ء میںماسکو گئیں۔ انہوںنے ماسکو کا بڑا دلچسپ سفر نامہ لکھا ہے جو اس کتاب میں شامل ہے۔ وہ لکھتی ہیں ’’روس میں غیر ملکی زبانیں بہت پڑھائی جاتی ہیں اور ہر زبان میں آنے والی کتابیں پڑھی بھی جاتی ہیں۔صرف ماسکو میں بچوں کے لئے ہر سال 3000سے زائد کتابیں شائع ہوتی ہیں۔1970ء کے آواخر اور 1980ء کے اوائل میں ایلس فیض احمد فیض کے ساتھ جنگ زدہ بیروت لبنان میں مقیم رہیں جہاں گولیاں برستی اور بم گرتے تھے۔ ایلس نے بیرون کے لوگوں کی زندہ دلی یاسر عرفات کی بہادری اور فلسطینیوں کے جذبہ آزادی کے بارے میں چشم دید واقعتا بڑے دلچسپ پیرائے میں لکھے ہیں۔ ایلس فیض نے یہ آٹو بائیو گرافی انگریزی میں لکھی جسے نیئر رباب نے نہایت خوش ذوقی اور ادبی چاشنی کے ساتھ اردو کا پیرہن پہنایا ہے اور مکتبہ سنگ میل نے شائع کیا ہے۔ فیض کا انتقال1984ء جبکہ ایلس اس جہان فانی سے 2003ء میں رخصت ہوئیں۔ ایل س کی خودنوشت میں بیروت فلسطین اور ویت نام وغیرہ کے زخموں کا آنکھوں دیکھا احوال پڑھنے کو ملتا ہے اور قاری کی آنکھوں کو بار بار نم کر دیتا ہے۔ یہ کتاب محض فیض احمد فیض کی برطانوی بیوی کی لکھی ہوئی داستان حیات نہیں بلکہ ایک قد آور ادبی شخصیت کی لکھی ہوئی کتاب ہے۔ یہ کتاب ان لوگوں کو ضرور پڑھنی چاہیے جو محبت تو کرتے ہیں مگر محبت کی طاقت سے واقف نہیں ہوتے۔ یہ کتاب محبت کی لازوال داستان بھی ہے۔ ایلس شاعرہ بھی تھیں۔ وہ ’’ایک نظم فیض کے نام‘‘ کا اختتام یوں کرتی ہیں۔ نہ صدائیں کوئی نہ ہی اقرار ہے تمہارے لئے مرے گیت کا نہ آغاز ہے نہ انجام ہے اک محبت فقط‘ جاوداں جاوداں