29فروری کو دوحہ میںجب امریکی افغان امور کے ماہر زلمے خلیل زادے اور افغان طالبان کے نمائندے مُلا برادر تالیوں کی گونج میں دوحہ معاہدے پر دستخط کررہے تھے۔ ۔ ۔ تو انہیں اس وقت اس بات کا پورا یقین تھا کہ وہ پہلی فلائٹ سے مستقبل میں حکمرا نی کا خواب دیکھنے والے ملا برادر اور ان کے تمام سرکردہ کالی پگڑیوں میں اسلام آباد پہنچیں گے ۔اور پھر اسلام آباد سے ہماری وزارت خارجہ کے بابوؤں کے بابو شاہ محمود قریشی کی ہمراہی میں دوسری فلائٹ سے کابل اتریں گے۔اور گھنٹو ں میں کابل کے ایوان صدر پر افغان طالبان کا پھریرا لہرا رہا ہوگا۔ میںیہ تو نہیں کہوں گا کہ سپر پاور امریکہ جو چار دہائی سے افغانستان میں ہزاروں فوجیوں کی ہلاکت اور اربوں ڈالر کا بھاری نقصان اٹھا چکا ہے ۔ ۔ ۔ اور پھر ساتھ ہی مُلّا برادر اور ان کے دیگر برادران اتنے معصوم اور بے خبر تھے کہ انہیں افغانوں کی اس ہزار سالہ تاریخ کا شاید سرے سے علم ہی نہیں تھا کہ افغانستان کی پانچ ہزارسالہ تاریخ میں کبھی بھی کابل یا افغانستان کے کسی بھی حصے پر مُلاّئیت نے راج کیا ہو۔ پہلے بھی انہی صفحات پر اس معاہدے کے حوالے سے لکھ چکا ہوںکہ امریکی صدر ٹرمپ کا در اصل امریکی صدراتی الیکشن کی کامیابی کے لئے محض ایک ’’ٹرمپ کارڈ ‘‘ تھا۔جس کے لئے poorتو نہیں کہوں گا ،مگر برسوں سے کابل میں بیٹھنے کے لئے بے تاب و بے قرار ملاؤں نے یہ خواب دیکھا ہو کہ کابل میں حکومت ملے نہ ملے۔ ۔ ۔ مگر اس معاہدے کے نتیجے میںانہیں ساری دنیا میں یہ اعتبار مل جائے گا کہ وہ اب بھی اس تنازعے کے سب سے بڑے اور کلیدی کردار ہیں۔ سپر پاور امریکہ اور افغان طالبان کے نمائندہ ملا برادران یہ بات نظر انداز کر گئے کہ گزشتہ بیس سال کی خانہ جنگی کے دوران تنازعۂ افغانستان میں 3بڑے فریق بھی اس کا حصہ بن چکے ہیں۔ ۔ ۔ یعنی کابل میں نام نہاد ہی سہی ،مگر انتخابات کے نتیجے میں بیٹھنے والی پہلے کرزئی اور پھر دوسری بار اشرف غنی کی حکومت ۔ دوسرا فریق بھارت جس کے بارے میں اب تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اشرف غنی کی حکومت اصل میں بھارت کی ’’شیڈو ریاست‘‘ بن چکی ہے۔اور پھر ایران۔ ۔ ۔ جہاں افغان طالبان کا ایک بہت بڑا حلقہ برسوں سے اپنا بیس بنائے بیٹھا ہے۔اور اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اُس کی مرضی شامل کئے بغیر کوئی افغان امن معاہدہ نہیں ہوسکتا۔چار دہائی سے افغان تنازعے کے سب سے بڑے فریق یعنی پاکستان ،جس نے اس خونی جنگ کا سب سے بڑا ملبہ اربوں ڈالر کی املاک کی تباہی اور ہزاروں پاکستانی عوام کی شہادت کی صورت میں اٹھایا۔ ۔ ۔ اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ تمام تر مالی ،جانی نقصان کے باوجود وہ اس گیم سے باہر ہے۔کہ ہر قسم کے افغانیوں کو چاہے وہ افغان طالبان ہوں، یا کرزئی ،غنی جیسے moderate۔ ۔ ۔ احسان مندی کے بجائے اگر کسی سے اُن کی انتقام کی حد تک دشمنی ہے تو وہ پاکستان ہی ہے۔ 30 سالہ طویل خانہ جنگی کے بعد یہاں امریکہ کا 8ٹریلین ڈالر ، پاکستان کے70 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہو۔ ۔۔ اور جس میں امریکہ کے ساڑھے 4ہزار ،پاکستان کے ساڑھے 5ہزار۔ اور ڈیورنڈ لائن کے اس طرف اور اُس طرف 50لاکھ بے گناہ ،مظلوم پاکستانی اور افغانی ہلاک ہوئے ہوں۔ ۔ ۔ اُس کا اتنا آسان حل کہ زلمے خلیل زادے ،ملا برادر ایک تیسرے غیر فریق ملک میں بیٹھ کر دستخط کریںاور پھر سپر پاور امریکہ کی چھتر چھایا میںملاؤں کا پھریرا لہرادیا جائے۔ ۔ ۔ جی ہاں، افغانستان کی 5ہزار سالہ تاریخ میں مُلا کبھی بھی حکمراں نہیں بن سکا۔کوشش کروں گا کہ بہت زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں۔ اول تو افغانستان انتظامی اعتبار سے کبھی بھی کسی ایک حکمران کے تابع نہیں رہا۔بظاہر انتظامی طور پر اس کے 28صوبے ہیں۔۔ ۔ مگر ان 28صوبوںمیں ایک نہیں دو،بلکہ کئی افغان وارلارڈ اپنے اپنے مسلک اور نسل کے اعتبار سے ان علاقوں پر راج کرتے رہے۔جغرافیائی اعتبار سے افغانستان جنوبی اور وسطی ایشیا کا سنگم ہے۔پاکستان کے لئے اس لئے اہمیت کا حامل ہے کہ کم از کم مشرق اور جنوب میں دس مقامات پر اس کے صوبے کے ساتھ ہماری سرحدیں لگی ہیں۔افغانستان کی تاریخ کم و بیش 5ہزار سال پرانی ہے۔مگر بیشتر برسوں میں ہی باہر سے آنے والوںکا میدان جنگ بنا رہا۔کبھی ایک فاتح یہاں سے گزرتا تو دہلی پہ جا کے پڑاؤ ڈالتا ۔او ر اگر دہلی سے فتوحات کرتا ہوا نکلتا تو کابل کو تاراج کرتا ہوا سنٹرل ایشیا تک جاپہنچتا۔ یہاں پر غوری اور غزنوی اور تیمور خاندا ن نے بھی حکومت کی۔اور منگولوں نے بھی ایک عرصے تک اس کی اینٹ سے اینٹ بجائے رکھی۔عہد ِ جدید میں اور یہ بات میں 18ویں صدی کی ابتدا کی کررہا ہوں، نادر شاہ وہ پہلا حکمران تھا جس نے افغانستان کے بیشتر علاقوں پر فتوحات کے جھنڈے گاڑے۔نادر شاہ کے بعد احمد شاہ درانی نے کوئی 24سال حکومت کی ۔پھر تیمور شاہ نے 20سال۔تیمور شاہ کی وفات کے بعد سات سال زماں شاہ نے ۔پھر شاہ محمود اور شاہ شجاع کے بعد کہیں 1826ء میں آکر دوست محمدخان محمد زئی نے ایک ایسی حکومت قائم کی کہ جسے جدید سلطنت کا بانی کہا جاسکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جدید افغانستان کے اس بانی نے کابل پر قدم جماتے ہی ایک بار پھر پشاور کو ریاست ِ افغانستان بنانے کا منصوبہ بنایا۔دوست محمدنے خود کو امیر المومنین قرار دیا اور اس جنگ کو جہاد قرار دیا۔مگر دوست محمد اپنے ہی جنرلوں کی بغاوت کے سبب پشاور پہنچنے سے پہلے ہی واپس لوٹنے پر مجبور ہوگئے۔ یقینا یہی وہ وقت تھا جب برطانیہ برصغیر پاک و ہند سمیت اس پورے ریجن کو اپنی رعایا بنانے کے منصوبے کی تکمیل کرچکا تھا۔امیر دوست محمدکو بالآخر برطانوی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔مگربرطانوی حکمرانوں کا افغانستان میں حکومت جاری رکھنا آسان نہ تھا۔ ۔ ۔ اور یوں ایک بار پھر اُسے امیر دوست محمد سے معاہدہ کرنا پڑا۔ میں اس وقت پہلی ،دوسری اینگلو افغان وار کی تاریخ میں نہیں جاؤں گا۔مگر برطانیہ کو اس ریجن میں سب سے بڑاجانی نقصان افغانوں کے ہاتھوں ہی اٹھانا پڑا۔کہا جاتا ہے کہ اس جنگ میں 20ہزار برطانوی فوجی ہلا ک ہوئے۔امیر دوست محمد نے جب دوبارہ 1863ء میں اقتدار سنبھالا تویہ افغانستان کی تاریخ کا ایک روشن باب تھا۔ امیر دوست محمد خان کے انتقال کے بعد افغان تاریخ جن تھپیڑوں سے گذرتی ہوئی سن 1929ء میں نادر شاہ تک پہنچی اور جس کے بعد ظاہر شاہ نے 40سال تک کابل پر حکمرانی کی ۔اور پھر کابل میں بادشاہت کے خاتمے کے بعد سردار داؤد ،جو ایک ترقی پسند افغان حکمران کے طور پر سامنے آیا۔وہ آج کی تاریخ ہے۔جسے آئندہ بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔ سردار داؤد کے خاتمے کے بعد افغانستان چار دہائی تک جن تھپیڑوں سے گذرا،اُس کا باب رقم کرنے کے لئے بہت تفصیل میں جانا پڑے گا۔جسے سمیٹنے کی کوشش کروں گا۔(جاری ہے)