نومسلم محمد اسد کی خودنوشت سوانح حیات پڑھ کر ہمیشہ کچھ نہ کچھ نیا جاننے کو ملتا ہے‘ قبول اسلام کے اسباب اور واقعات کو انہوں نے جس سادگی اور دلچسپ انداز سے بیان کیا ہے وہ چشم کشا ہیں‘ ایک واقعہ آپ بھی پڑھیے۔ ’’ستمبر 26ء میں ایک مرتبہ اپنی بیوی کے ساتھ میں زمین دوز ٹرین پر سوار تھا کہ اچانک میری نظر ایک آدمی پر پڑی جو میرے سامنے والی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ کوئی دولت مند اور خوشحال تاجر معلوم ہوتا تھا۔ ایک چھوٹا سا خوبصورت بیگ اس کی گود میں رکھا تھا اور ہیرے کی ایک بڑی سی انگوٹھی اس کی انگلی میں نظر آ رہی تھی۔ دفعتاً مجھے یہ خیال آیا کہ یہ دراصل اس خوشحالی اور فارغ البالی کا عکس ہے جو ان دنوں یورپ میں ہر شخص میں دیکھی جا سکتی تھی۔ اس خوشحالی سے پہلے افراط زر کے چند سال گزرے تھے۔ جنہوں نے اقتصادی زندگی کو بالکل درہم برہم کر دیا تھا اور بدحالی اور بری ہئیت میں رہنا ہی اصول بن گیا تھا لیکن اب لوگوں کی اکثریت اچھا کھاتی اور اچھا پہنتی ہے ۔ اس لحاظ یہ شخص جو میرے سامنے بیٹھا ہوا تھا لوگوں سے کچھ مختلف اور نیا نہ تھا‘ لیکن جب میں نے اس کے چہرہ پر نظر ڈالی‘ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں کسی مطمئن اور پرمسرت چہرہ کو نہیں دیکھ رہا ہوں۔ وہ مجھے بے چین اور غیر مطمئن نظر آیا‘ صرف بے چین ہی نہیں بلکہ بہت زیادہ غمزدہ اور حرماں نصیب بھی۔ اس کی نظریں کھوئی ہوئی خلا کو گھور رہی تھیں اور اس کے ہونٹ کے دونوں کنارے کسی تکلیف سے بھنچے ہوئے تھے ایک غیر جسمانی تکلیف!‘‘ اس کے پہلو میں ایک مہذب خاتون بھی بیٹھی تھیں۔ ان کے چہرہ پر بھی بے چینی اور بے اطمینانی کے آثار تھے جیسے وہ کسی ایسی چیز کے متعلق سوچ رہی ہوں جس کے سوچنے سے انہیں تکلیف ہو رہی ہو ایک پھیکی مسکراہٹ ان کے ہونٹوں پر پھیلی ہوئی تھی۔ جس کے متعلق میرا خیال یہ ہے کہ اس کا تعلق عادت سے تھا۔ پھر میں نے کمپارٹمنٹ میں اور لوگوں کی طرف نظر دوڑائی اور ان سب کے چہروں کو نگاہوں سے ٹٹولنے لگا جو بلا استثناء خوش حال نظر آ رہے تھے اور خوش پوشاک تھے ہر چہرہ پر میں نے ایک پوشیدہ الم کی جھلک دیکھی اتنی پوشیدہ کہ خود ان سب کو بھی اس کا احساس نہ ہو گا۔اس بات نے مجھ پر اتنا اثر کیا کہ میں نے اس کا ذکر اپنی بیوی سے کیا وہ بھی ایک ماہر فنکار اور آرٹسٹ کی طرح تمام لوگوں کو دیکھنے لگی پھر حیرت کے ساتھ میری طرف رخ کر کے کہنے لگی۔ آپ بالکل صحیح کہتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ سب جہنم کی تکلیفیں برداشت کر رہے ہوں میں یہ سوچتی ہوں کہ ان پر جو گزر رہی ہے ان کو اس کی خبر بھی ہے یا نہیں!‘‘ ’’جب میں گھر واپس آیا تو اتفاقاً میری نظر میز پر پڑی۔ اس پر قرآن مجید کا نسخہ رکھا ہوا تھا جو میرے مطالعہ میں رہتا تھا۔ میں اس کو بند کر کے کسی دوسری جگہ رکھنا ہی چاہتا تھا کہ غیر شعوری طور پر اچانک میری نگاہ کھلے ہوئے صفحہ پر پڑ گئی اس میں یہ آیت لکھی تھی۔ الھکم التکاثر ‘حتیٰ زرتم المقابر ‘کلا سوف تعلمون‘ ثم کلا سوف تعلمون‘ کلا لو تعلمون علم الیقین‘ لترون الجھیم‘ ثم لترونہا عین الیقین ‘ثم لتسلئن یومئیذ عن النعیم۔ (غفلت میں رکھا تم کو بہتات کی حرص نے یہاں تک کہ جا دیکھیں قبریں ‘ کوئی نہیں آگے جان لو گے پھر کوئی نہیں آگے جان لو گے کوئی نہیں اگر تم جانو یقین کر کے ‘بیشک تم کو دیکھنا ہے دوزخ۔ پھر دیکھنا ہے اس کو یقین کی آنکھ سے پھر پوچھیں گے تم سے اس دن آرام کی حقیقت۔) میں ایک لمحہ کے لئے گم سم سا ہو گیا میرا خیال ہے کہ کتاب میرے ہاتھ میں جنبش میں تھی پھر میں نے اپنی بیوی سے کہا دیکھو۔ سنو کیا یہ اس کا جواب نہیں ہے جو رات کو ہم نے ریل پر دیکھا تھا۔‘‘ ’’اس بات کا واضح اور کھلا ہوا نتیجہ یہ تھا کہ میں اپنے ایک مسلمان ہندوستانی دوست کے ہاں گیا جو اس وقت برلن میں مسلمانوں کی انجمن کے صدر تھے اور ان سے اسلام قبول کرنے خواہش ظاہر کی۔ انہوں نے اپنا داہنا ہاتھ میری طرف بڑھا دیا۔ میں نے بھی داہنا ہاتھ ان کے ہاتھ پر رکھ دیا اور دو گواہوں کی موجودگی میں میں نے کہا: اشھدان لا الہ الا للہ و اشھد ان محمد رسول للہ۔ میرے دوست نے کہا کہ آپ کا نام (Leopold)ہے۔ لیو کے معنی یونانی میں شیر کے ہوتے ہیں اس لئے ہم آج سے آپ کو ’’محمد اسد‘‘ کہیں گے۔ چند ہفتے بعد میری بیوی نے بھی اسلام قبول کر لیا۔‘‘ ’’جہاز پر یمنی مسافر تھے ان میں ایک پست قدآدمی بھی تھا جس کی ناک عقاب کی مانند تھی اور چہرہ سے سختی اور طاقت کا اظہار ہوتا تھا۔ لیکن ان کی حرکات و سکنات بہت متوازن اور باوقار تھیں۔ جب ان کو یہ معلوم ہوا کہ میں ابھی حال ہی میں مسلمان ہوں تو انہوں نے بڑی خصوصی محبت کا برتائو کیا۔ ہم گھنٹوں جہاز پر بیٹھے باتیں کرتے رہتے تھے اور وہ مجھے یمن کے پہاڑوں میں اپنے گائوں کی باتیں بتاتے رہتے۔ ان کا نام محمد صالح تھا۔ ‘‘ ’’ایک شام کو جب میں ایک ڈیک میں ان کی قیام گاہ پر گیا تو مجھے پتہ چلا کہ ان کا ایک دوست بخار میں مبتلا ‘ لوہے کے پلنگ پر لیٹا ہوا ہے۔ مجھے معلوم ہوا کہ جہاز کا ڈاکٹر تیسرے درجہ کے مسافر کے پاس آنے کی زحمت اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہے۔ جب مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ ملیریا کا بخار ہے تو میں نے اس کو کونین کی چند گولیاں دیں۔ جب میں اپنے کام میں مشغول تھا تو دوسرے یمنی محمد صالح کو گھیر کر ایک طرف کھڑے ہو گئے اور آپس میں کچھ سرگوشی کرنے لگے وہ مجھے اجنبی نظروں سے گھور رہے تھے۔ آخر میں ان میں کا ایک آدمی جس کا قد لانبا اور چہرہ سانولا تھا اور آنکھیں سیاہ اور چمکدار معلوم ہو رہی تھیں۔ میری طرف بڑھا اور میرے سامنے فرنک کی ایک تھیلی پیش کی۔ ’’یہ ہم نے مل کر جمع کیا ہے اس کا افسوس ہے کہ رقم کچھ زیادہ نہیں ہے۔ لیکن ہمیں امید ہے کہ آپ اسے قبول کر لیں گے۔‘‘ میں گھبرایا ہوا کسی قدر پیچھے کی طرف ہٹا‘ پھر میں نے ان کو بتایا کہ دوا میں نے روپیہ حاصل کرنے کے لئے نہیں دی تھی۔ ٹھیک ہے ‘ ٹھیک ہے ہم جانتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہم امید رکھتے ہیں کہ آپ ان پیسوں کو قبول کر لیں گے۔ یہ اجرت نہیں‘ بلکہ ہدیہ ہے آپ کے بھائیوں کی طرف سے۔ ہم آپ سے بہت خوش ہیں اور اس لئے یہ پیسے آپ کو دے رہے ہیں آپ مسلمان ہیں۔ ہمارے بھائی ہیں اور ہم سب سے بہتر اور افضل ہیں۔ اس لئے کہ ہم لوگ مسلمان خاندان میں پیدا ہوئے‘ ہمارے آبائو اجداد بھی مسلمان تھے لیکن آپ نے اسلام کو اپنے دل سے پہچانا ہے۔ رسول اللہ کے واسطہ سے یہ چند پیسے ضرور قبول کر لیجیے۔ میرے بھائی۔ لیکن چوں کہ ابھی تک میں یورپین عادات اور تہذیب سے متاثر تھا۔ اس لئے میں نے انکار پر اصرار کیا ۔ ان کے مسلسل اصرار اور میرے مسلسل انکار کی وجہ سے وہ خاموش تو ہو گئے‘ لیکن ان کے چہروں پر غم کے آثار نظر آنے لگے۔ گویا میں نے صرف ان کا روپیہ لینے سے انکار نہیں کیا تھا بلکہ ان کی محبت و خلوص کو بھی ٹھکرا دیا تھا۔ اس وقت اچانک مجھے احساس ہوا کہ جس دنیا سے میں آ رہا ہوں وہاں لوگوں نے ’’من وتو‘‘ کے درمیان دیواریں حائل کر دی ہیں اور جس امت سے اب میرا واسطہ ہے‘ اس کے افراد کے درمیان کوئی حجاب یا دیوار حائل نہیں ہے۔یہ سوچ کر میں بولا ’’لائو بھائیو‘ پیسے مجھے دیدو‘ میں اس کو قبول کرتا ہوں اور آپ حضرات کا شکر گزار ہوں۔‘‘