رانا محمد آصف 

اردو کے ممتاز اور مقبول ترین مصنف مستنصر حسین تارڑ کا ’’ذوقِ مطالعہ‘‘ 

 

٭...جتنا پڑھتا ہوں اپنی کم مائیگی کا احساس ہوتا ہے

٭...’’بجنگ آمد‘‘ کو اردو کی سب سے بڑی کتاب مانتا ہوں 

٭... کوشش کے باوجود ’’یولیسس‘‘ نہیں پڑھ سکا 

٭... اردو ادب بہت مختصر ہے 

٭...اردو کے ابتدائی ناولوں کو ناول نہیں مانتا 

٭... ہوزے سارا ماگو کو پڑھ کر بہت تبدیل ہوا

٭...’’میرا داغستان‘‘ کی ہر ہر سطر پڑھنے کے قابل ہے

 

٭ مطالعے کا شوق کیسے ہوا؟

مستنصر حسین تارڑ: یہ پیدا  ویدا کچھ نہیں ہوتا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ گھر کے ماحول کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے، میرا چھوٹا بھائی جو فوت ہو چکا، اس نے کبھی کوئی رسالہ نہیں پڑھا، وہ بھی میری طرح اسی ماحول میں پلا بڑھا تھا۔ ماحول بھی اثر انداز ہوتا ہوگا لیکن میرا احساس یہ ہے کہ انسان کے اندر کوئی ایسی چیز ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرف مائل ہوجاتا ہے۔جیسا کہ میں نے کہا بھی ہے کہ اگر میں مصنف نہ ہوتا تو قاری ہوتا۔ مطالعہ میرا کل وقتی کام ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔  حال ہی میں ایک تقریب میں اس پر بات بھی کی اور کئی ایسے نام جان بوجھ کر نہیں لیے جن سے لوگ آگاہ نہیں ہیں۔ تو میں جتنا پڑھتا ہوں اپنی کم مائیگی کا احساس ہوتا ہے۔ اتنا کچھ لکھا جارہا ہے اور اتنا بڑا لکھا جارہا ہے تو ہم کہاں پر ہیں۔ میرے خیال میں اس طرح موازنہ تو نہیں ہونا چاہیے۔ ہر کوئی اپنی زبان ، حالات اور مشاہدے کے مطابق لکھتا ہے۔ 

٭پہلی کتاب کب پڑھی، کون سی کتاب تھی، اس سے وابستہ کوئی یاد؟

 مستنصر حسین تارڑ: اس زمانے میں بچوں کے رسالے بہت نکلتے تھے۔ میں بچوں کے 32رسالوں کا سالانہ خریدار تھا۔ پہلی تاریخ سے دس تاریخ تک وہ آنا شروع ہوجاتے تھے۔ ایک تو ان سے پڑھنا شروع کیا۔ اس کے بعد آنہ لائبریریاں تھیں۔ رفتہ رفتہ وہاں جانے لگا۔ شروع شروع میں اے حمید ، شفیق الرحمن، نسیم حجازی متوجہ کرتے ہیں، پھر آپ سنجیدہ ادب کی طرف آتے ہیں۔ اس لیے یہ طے نہیں کہ ان میں سے  پہلی کتاب کون سی تھی۔ ویسے پہلی پوری کتاب قرآن پاک پڑھی تھی۔ کیوں کہ مجھے اسکول میں نہیں مسجد میں داخل کروایا گیا تھا اور دوسال وہاں گزارے۔ 

٭کوئی ایسی کتاب یا کتابیں جو اتنی دل چسپ معلوم ہوئی کہ ایک ہی نشست میں ختم  ہوگئی؟  

مستنصر حسین تارڑ: بے شمار! میں اس وقت دیمک کی طرح تھا، وہ یہ نہیں دیکھتا کہ میں ساگوان کھا رہی ہوں یا کیکر، اس کا کام ہے کھانا ، تو دل چسپی نہ بھی ہو تو کھاجانا ہوتا ہے۔ میں نان اسٹاپ پڑھا کرتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ نسیم حجازی کا بڑا زخیم ناول آیا، ان دنوں یومیہ چار آنے کرایہ ہوتا تھا۔ میں ایک دن لے آیا اور اگلے دن صبح جا کر کتاب واپس کردی۔ لائبریری والے نے سوچا کہ یہ تو آٹھ دس دن میں ختم ہونے والی کتاب ہے اور مجھ سے کہا کہ تم نے پڑھا نہیں۔ میں نے اس سے کہا کہ تم کوئی بھی صفحہ پلٹ کر پوچھ لو میں کہانی بتادوں گا۔ وہ کتاب میں نے ایک دن میں پوری پڑھ لی تھی۔ اس زمانے میں فرق نہیں پڑتا تھا۔ اس زمانے میں صرف کتاب چاہیے ہوتی تھی، ہم ایم اسلم کی چار سو کتابیں پڑھ گئے ، تیرتھ رام فیروز پوری کے ترجمے پڑھ گئے ، رئیس احمد جعفری کو پڑھا اور جب سارا کچھ ختم ہوگیا تو آگے بڑھے۔ میں اکثر یہ کہتا ہوں کہ اردو ادب بہت مختصر ہے تو لوگ برا بھی مناتے ہیں۔ اسے شروع کرتے ہیں اور یہ ختم ہوجاتا ہے، کیوں کہ اردو کی عمر کم ہے۔ اردو کے جو ابتدائی ناول تھے ، ڈپٹی نذیر احمد کے ناول یا امراؤ جان ادا وغیرہ  میں انھیں ناول ہی نہیں مانتا ۔ وہ بڑے بچکانہ سے ناول تھے، ان میں کوئی گہرائی نہیں تھی۔ اس لمحے برادرز کرامازوف لکھا جارہا تھا۔ اس فرق کو سمجھنا چاہیے کہ ہم نے کہا سے آغاز کیا۔ اس کے باوجود اردو میں بہت اچھے ناول لکھے گئے۔ یہ بڑی کمال کی بات ہے کہ جہاں آغاز اتنا معمولی ہے وہاں جدید دور میں آتے آتے قرۃ العین کے چار پانچ ناولوں کا بڑے ناول کے طور پر حوالہ دیا جاسکتا ہے۔   

٭ آپ کے سرہانے کون سی کتاب یا کتابیں رہتی ہے، کوئی مستقل بیڈ بُک؟

 مستنصر حسین تارڑ: نہیں، میں کتاب ایک آدھ مرتبہ ہی پڑھتا ہوں۔ مستقل اس طرح کہہ لیں کہ جو کتابیں میں دو تین بار پڑھ چکا ہوں تو ان میں ایک تو ’’بجنگ آمد‘‘ ہے، اسے میں اردو  کی سب سے بڑی کتاب کہتا ہوں۔ اتنی ریڈایبل کتاب یوسفی صاحب کی بھی نہیں ہے۔ یوسفی صاحب کا مزاح مینوفیکچرڈ ہے، وہ میرے پسندیدہ ترین لکھنے والوں میں سے ہیں،  یہ میں ان کے نقص کے طور پر نہیں کہہ رہا۔ آپ آج بھی ’’بجنگ آمد‘‘ پڑھیں آپ اس کے اسیر ہوجائیں گے۔ اس کے بعد رسول حمزہ توف کی ’’میرا داغستان ‘‘ ہے، اس کی ایک ایک سطر پڑھنے کے لائق ہے۔ اسی طرح والٹ وٹمین کی شاعری ہے وغیرہ وغیرہ۔ 

٭ مطالعے کے لیے وقت کیسے نکالتے ہیں ؟کیا کوئی خاص وقت مقرر کررکھا ہے؟ 

 مستنصر حسین تارڑ: میرا کوئی مصروف شیڈیول نہیں، میں صبح سیر کو جاتا ہوں، واپس آکر آرام کرتا ہوں، پھر کھانا کھاتا ہوں اور اس کے بعد شام تک جو بھی میرے زیر مطالعہ ہوتا ہے وہ پڑھتا رہتا ہوں، ان میں اخبار اور جرائد بھی شامل ہیں۔ ساڑھے سات بجے میں لکھنے بیٹھ جاتا ہوں۔ یہ گزشتہ چالیس پچاس سال سے میرا معمول ہے۔ میں شام کو بھی اس لیے باہر نہیں جاتا کہ میرے ذہن میں وہی چل رہا ہوتا ہے کہ آئندہ  مجھے کیا لکھنا ہے۔ یہ مجھے زیادہ اچھا لگتا ہے۔ 

٭کیا ٹی وی کے دور میں بھی یہی معمول رہا؟ 

مستنصر حسین تارڑ: اس زمانے میں اتنا نہیں رہا۔ اس دور میں سیریل زیادہ لکھے۔ اس میں بہت وقت لگتا ہے۔ اس لیے میں نے زیادہ کام ٹی وی سے علیحدہ ہونے کے بعد کیا ۔ یا صبح کی نشریات ہوتی تھی، اس کے بعد میرے پاس سارا وقت ہوتا تھا۔ 

٭ ایسی کتابیں جنھیں پڑھنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ 

مستنصر حسین تارڑ: گھر میں ان کا ڈھیر لگا رکھا ہے۔ الکیمسٹ کے مصنف پائلو کوئلو کی ’’ہپی‘‘ درمیانی سے کتاب تھی وہ تو پڑھ ڈالی ہے۔ محمد حنیف کا ناول ’’ریڈ برڈز‘‘ حال ہی  میں پڑھا ہے۔ ہاروکی موراکامی کا نیا ناول آیا ہے وہ بھی رکھا ہوا ہے اسے پڑھنا ہے۔ اسی طرح نوبیل انعام یافتہ جے ایم کوئٹزی کا ایک ناول بھی پڑھنا ہے اور اسی طرح آٹھ دس کتابیں اور ہیں۔ 

٭کتاب کا انتخاب کیسے کرتے ہیں، موضوع، مصنف یا فہرست دیکھ کر یا کوئی اور طریقہ؟ 

مستنصر حسین تارڑ: ایک تو الل ٹپ طریقہ ہے جو بھی کوئی نئی کتاب نظر آتی ہے خرید لیتا ہوں۔ پچھلے دنوں میں نے ایک اور سلسلہ شروع کیا ہے، آج کل بہت سا ٹریش بھی میں پڑھ رہا ہوں، تو یہ سلسلہ شروع کیا ہے مثلاً جنھوں نے بکرز پرائز حاصل کیا ہے انھیں پڑھا جائے۔ وہ شروع ہوتا ہے گزشتہ تیس چالیس سال سے۔ اس میں کوئی نہ کوئی بنیادی خصوصیت ہوتی ہے۔ یا کوئی دوست تجویز کردیتا ہے اور نوبیل والے تو میں پڑھتا ہی رہتا ہوں۔ 

٭ کوئی ایسی کتاب جسے پڑھنے کے بعد سوچنے کے انداز میں تبدیلی آئی یا شخصیت پر اس کا گہرا اثر ہوا؟ 

مستنصر حسین تارڑ: سچی بات یہ ہے کہ مجھے ہر بڑی کتاب تبدیل کردیتی ہے۔ میں بین اوکری کو پڑھتا ہوں تو میرے اندر تبدیلی آجاتی ہے ، ہوزے سارا ماگو کو پڑھ کر بہت تبدیل ہوا۔ میرا اوریجنل کچھ نہیں ہے، جو کچھ میں نے پڑھا ہے یا اس نے مجھ پر اثر کیا ہے ، کچھ عطار کا ہے، کچھ ان بڑے لکھنے والوں کا ہے اور پھر اس میں کچھ تڑکا میرا لگ جاتا ہے۔ 

٭ آپ کے خیال میں کتاب  (یا کتب بینی )اہم کیوں ہے؟ 

مستنصر حسین تارڑ: اس کا تو بہت لمبا جواب ہوسکتا ہے۔ بنیادی طور پر کتاب ایک مستقل معجزہ ہے جو نازل ہوتا رہتا ہے۔ عام طور پر معجزے ظہور پذیر ہوتے ہیں اور ختم ہوجاتے ہیں لیکن یہ مستقل ہے۔ مثلاً آپ دوستوئیفسکی کی کوئی کتاب اٹھائیںمثلاً ’’براردرز کرامازوف‘‘ ، وہ آپ کو اپنے عہد میں لے جاتا ہے۔ آپ ایک بہت بڑی شخصیت کی نجی زندگی میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اس کے ہم نشیں بن جانتے ہیں، یہ کتنی بڑی بات ہے کہ آپ ایک معمولی شخص ہیں اور آپ ٹالسٹائی سے مکالمہ کررہے ہیں، اس کے حالات سن رہے ہیں اس کے گھر میں گھوم پھر رہے ہیں، اس کے عہد میں زندہ ہیں۔ یہ سب سے بڑی بات ہے۔ مثلاً میں جب قرآن پاک پڑھتا ہوں، اردو ہی میں پڑھتا ہوں، تو پڑھتے پڑھتے آپ رسول اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ کے زمانوں میں پہنچ جاتے ہیں،یہ معجزہ ہے۔ قرآن کے تراجم میں فتح محمد جالندھری اور اپنے دوست عربی کے بڑے اسکالر محمد کاظم کا ترجمہ پڑھتا ہوں یہ بہت ہی عمدہ ترجمہ ہے۔ 

٭ایسی کتابیں جو مستقل سامنے رہتی ہوں؟ 

مستنصر حسین تارڑ: مجید امجد، منیر نیازی، امیر مینائی کے مجموعے سامنے رہتے ہیں، غالب کا تو ہے ہی۔ اسی طرح بلھے شاہ، شاہ حسین کا کلام ہے۔ زیادہ تر  فکشن کی نہیں شاعری کی کتابیں سامنے رہتی ہیں۔ 

٭ کوئی ایسی کتاب ، آپ کے خیال میں جسے سبھی کو پڑھنا چاہیے؟  

مستنصر حسین تارڑ: ہر ایک کی اپنی دل چسپی اور اپنا رجحان  ہے کہ وہ زندگی کو کس نظر سے دیکھتا ہے ، اس کی ترجیحات کیا ہیں۔ کسی نے ہیرالڈ رابنز کو پڑھنا ہے ، کسی نے وہی وہانوی کو تو یہ سب کی اپنی مرضی ہوتی ہے۔  

٭کتاب کی زیادہ قیمت کی عام شکایت ہے، اس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟

 مستنصر حسین تارڑ: قیمت زیادہ ہے۔ مجھ جیسے لوگ بھی اس میں مجرم ہیں۔ ہم لوگ زیادہ احتجاج نہیں کرتے۔مثلاً جب وہ زیادہ قیمت رکھتے ہیں اور میں کچھ کہتا ہوں تو ناشر کہتا ہے کہ آپ کی کتابیں تو بکتی ہیں آپ کو کیا فرق پڑتا ہے، یا تو نہ بک رہی ہوں۔ ان کا ایک اور جواز ہوتا ہے مثلاً وہ کہتے ہیں کہ باہر اہم لکھنے والوں کی کتاب ہمیشہ مہنگی ہوتی ہے۔ لیکن یہ بات یہاں لاگو ہونی نہیں چاہیے۔ مجھے اس اعتبار سے شرمندگی ہوتی ہے۔ میں نے کئی بار ایسا احتجاج بھی کیا ہے کہ میں اتنی مہنگی کتاب نہیں دوں گا جس کی وجہ سے انھوں نے تھوڑا سا دھیان بھی رکھنا شروع کیا ہے۔ 

٭آپ کے پاس دیگر ممالک سے بھی کتابیں آتی ہیں، کیا دیگر ممالک  کے مقابلے میں بھی ہمارے ہاں کتاب مہنگی ہے؟ 

مستنصر حسین تارڑ: جی ہاں۔ پھر اس میں مواد کا بھی فرق ہے۔ باہر اگر آپ نے اورحان پامک کی دو ہزار کی کتاب خریدی ہے تو اس میں ویسا میٹر بھی تو ہے، اس فرق کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے۔ 

٭ کوئی کتاب مستعار مانگے تو عام طور پر کیا جواب ہوتا ہے؟ 

مستنصر حسین تارڑ: میرے پاس کتابیں ٹھہرتی نہیں ہیں۔ ایک تو میرا ’’ریڈنگز‘‘ والوں کے ساتھ کانٹریکٹ ہے۔ وہ میرا بڑا احترام کرتے ہیں، ابتدا میں ان سے کتابیں خریدنا شروع کیں تو انہوں نے مجھ سے پیسے لینے سے انکار کردیا۔ میں نے اصرار کیا تو انہوں نے کہا ہمیں کچھ فرق نہیں پڑتا، آپ کا ہمارے ہاں آنا ہی ہمارے لیے بڑا اعزاز ہے۔ (مسکراتے ہوئے) میں نے انہیں جواب دیا کہ کاشت کار گھرانے کا ہوں، اگر مولوی ہوتا آپ کی بات مان لیتا۔ میں نے مفت کتاب لینے سے انکار کردیا۔ پھر طے یہ پایا کہ جو بھی کتابیں آئیں، ان میں سے جو پسند آئے وہ رکھ لوں اور باقی واپس کردوں۔ لیکن میں انھیں سبھی واپس کر دیتا ہوں۔ 

٭کوئی ایسی کتاب جس کے گم ہوجانے یا عدم دستیابی کا آج بھی افسوس ہوتا ہو؟

مستنصر حسین تارڑ: نقصان ایسا کوئی نہیں ہوا۔ اتنی کتابیں ہیں کہ مجھے یاد بھی نہیں رہا۔ میرا اپنا نقصان ہوجاتا ہے مجھے پتا نہیں چلتا۔ 

٭ کون سی کتاب یا کتابیں کوشش کے باوجود پوری نہیں پڑھ سکے؟

مستنصر حسین تارڑ: اردو کی کتابوں کی بات نہیں کروں گا کیوں کہ اس کا ادب پہلے ہی بہت مختصر ہے۔ کئی دیگر کتابیں ہیں، مثلاً یولیسس کو پچھلی صدی کا بڑا ناول سمجھا جاتا ہے ، میں نے دو تین مرتبہ کوشش کی لیکن نہیں پڑھا گیا۔ وہ مشکل کتاب ہے۔ کافی ایسی کتابیں ہیں جنھیں نہیں پڑھ پایا۔ پھر میں ان کتابوں کو تنگ نہیں کرتا۔ پہلے م مشکل ہو بھی رہی ہو تو میں پڑھ لیتا تھا، کیوں کہ پہلے وقت زیادہ ہوتا تھا۔ میں نے اگر خون کا گھونٹ بھر کے 50صفحے پڑھ لیے اور وہ کتاب مجھے پکڑ نہیں سکی تو بس پھر چھوڑ دیتا ہوں۔ 

’’عشق کا طریقہ۔۔۔!‘‘ 

تارڑ صاحب سے ان کے مطالعے کی باتیں شروع ہوئیں تو ان کے لکھنے کے عادات کا تذکرہ بھی چل نکلا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ہمیشہ ہاتھ سے لکھتے ہیں، جس زمانے میں انگریزی کالم لکھتے تھے اس وقت ٹائپ رائٹر کا استعمال کرتے تھے۔ اس کے لیے دل چسپ تشبیہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا ’’یہ اُسی طرح ہے نا کہ دیسی عورت سے عشق کرنے کا طریقہ کچھ اور ہوتا ہے  اور گوری سے محبت کرنے کا پیٹرن ہی علیحدہ ہوتا ہے۔‘‘ تارڑ صاحب کا برس ہا برس سے  معمول ہے کہ وہ ساڑھے سات بجے اپنے اسٹڈی روم میں لکھنے کے لیے چلے جاتے ہیں۔ قلم کے استعمال کے بارے میں ان کا کہنا کہ اس سے بھی تو کچھ برآمد ہونا ہوتا ہے جب کہ ٹائپ رائٹر ایک مردہ شے ہے۔ پھر زمانہ بدلتا بھی رہتا ہے، جب ٹائپ رائٹر نیا نیا متعارف ہوا تو مغرب کے بھی کئی بڑے ادیبوں نے اسے استعمال کرنے سے انکار کردیا تھا، ان میں سے کئی یہ کہتے تھے کہ اس کی ’’ٹِک ٹِک‘‘ ہمارا دھیان بٹاتی ہے۔ اس لیے میں بھی اس سے گریز ہی کرتا ہوں۔ 

٭…٭…٭