یہ کتاب کی شائع شدہ حرف کی خوشبو ہے جس نے سب سے پہلے میرے بدن کی مساموں میں سرایت کیا۔ میں ابھی موسموں‘ بدنوں اور منظروں کی مہک سے آشنا نہ ہوا تھا جب کتاب کی مہک نے مجھے اپنا اسیر کیا۔ میرے والد صاحب نے زراعت کے بارے میں باقاعدہ درجنوں تحقیقی کتب تصنیف کیں اور تقریباً تیس برس تک’’کاشتکار جدید‘‘ کے نام سے فن زراعت کے بارے میں ایک پرچہ ترتیب دیتے رہے۔ وہ ہمیشہ چارپائی پر بیٹھ کر تہبند اور قمیض زیب تن کئے، حقے کی نال منہ میں دبائے کتابیں لکھتے کہ چارپائی کی ادوائن حوالے کی تحقیقی کتابوں کے بوجھ سے ڈھیلی ہوتی جاتی۔ وہ ان کتابوں کو گھر میں لکھتے رہے۔’’کاشتکار جدید‘‘ کا دائمی کاتب محمد صدیق جو کالوی تھا، وہ پیڑھی پر ٹانگیں سکیڑے کتابت کے خصوصی دھاریدار پیلے کاغذ پر ابا جی کے مضمون اتارتا رہتا۔ اس کتابت شدہ مواد میں بھی ایک نیم تیزابی مہک ہوتی تھی لیکن جب کبھی ابا جی کی کوئی نئی کتاب چھپ کر آتی تو میری عید ہو جاتی۔ میں اسے پڑھنے کی بجائے ناک سے لگا کر سونگھتا۔ کاغذ اور سیاہی کی آمیزش سے جو خوشبو جنم لیتی ہے اسے لفظوں میں بیان کرنا ایک سعی ٔلاحاصل ہے۔ کتاب کی خوشبو ان زمانوں میں مجھ پر یوں اثر کرتی تھی جیسے میری ناک کے آگے بے ہوشی کی دوائی سے رچا ہوا رومال ایک پل کے لئے لہرا دیا جائے تو انسان بے ہوش نہیں ہوتا۔ تھوڑا سست ہو جاتا ہے۔ اس طور جب ’’کاشتکار جدید‘‘ کا تازہ پرچہ چھپ کر آتا تو میں اس کی مہک کو بھی بدن میں اتارتا اور ہاں مختلف رنگوں میں چھپے ہوئے سرورق کی خوشبو بالکل جدا ہوتی، اس میں ایک کیمیائی سی مہک ہوتی۔ اس طور ’’نیو ماڈرن پریس‘‘ کی اندرونی فضا کی مہک میرے لئے بہارکا موسم ہوتی۔ نیم تاریک ماحول میں ہینڈ پریس پر سیاہی کے رولر گھومتے اور یہ سیاہی بلاکوں پر منتقل ہو کر سفید کاغذ پر حرفوں کی سیاہ تتلیاں ایجاد کر دیتی۔ ازاں بعد جب آوارگی زندگی کا منشور ٹھہری تو دنیا کی بڑی لائبریریوں کے حیرتوں کے جہانوں میں کچھ وقت بسر کر کے لطف اٹھائے کہ وہاں تو گویا کتابوں کی خوشبو کے موسم ہمیشہ کے لئے ٹھہرے ہوتے تھے، گویا لاکھوں کاغذ کے پھول یکبار کھل گئے ہوں۔ میری پہلی کتاب شائع ہوئی تو اسے بھی میں نے عشق خاص کے بدن کی مانند مہک آور پایا۔ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ کمپیوٹر اور کینڈل وغیرہ پر کتاب منتقل ہونے سے شائع شدہ کتاب معدوم ہو جائے گی۔ وہ شائد کتاب کی مہک سے کبھی آشنا ہی نہیں ہوئے۔ کمپیوٹر اور کینڈل وغیرہ میں کتاب دفن ہے جب کہ کاغذ پر شائع شدہ کتاب ایک انسانی بدن کی مانند دھڑکتی ہے اور اس میں خوشبو ہوتی ہے۔ کبھی تجربہ کر لیجئے گا کہ اگر آپ کسی کتاب کو تادیر پڑھتے ہیں تو بعدازاں آپ کی انگلیوں میں سے ایک ہلکی سی خوشبو ہو گی۔ جس تکیے تلے آپ کتاب رکھتے ہیں۔ وہ بھی معطر ہو جائے گا اور اگر آپ کو کتاب کی خوشبو نہیں آتی تو پھر آپ زندگی کی مہک سے بھی ابھی تک ناواقف ہیں۔ آج حسب عادت میں پھر آپ کو کتابوں کے ایک گلستان کی سیر کروائوں گا جہاں ڈال ڈال حرف کھلے ہیں اور ہر شاخ کہانیاں کہہ رہی ہے۔ سب سے پہلے انگریزی کتابوں کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس بار دو کتابوں نے میرے بدن اور ذہن نے نہاں خانوں میں مسرت اور سرخوشی کے کئی چراغ روشن کر دیے اور میرے اس استدلال کو تقویت بخشی کہ ادب زوال پذیر نہیں۔ بڑا تخلیقی ادب مسلسل جنم لے رہا ہے۔ پہلی کتاب ایک ناول میرے بہت پسندیدہ جاپانی مصنف ہاروکی موراکامی کی تازہ ترین کاوش ہے جس کا نام عجیب سا ہے یعنی ’’کلنگ کا منڈاٹور‘‘ یہ کامنڈا ٹور کیا ہے جسے ہلاک کرنا ہے ناول پڑھنے پر ہی عیاں ہوتا ہے۔ شائد نہیں بھی ہوتا۔ جیسے ارہان پاموک پر خالص تُرک مصنف الزام دھرتے ہیں کہ وہ مغرب زدہ ہے۔ اس کا نظریہ فن ترک نہیں بلکہ مغرب سے متاثر شدہ ہے۔ اسی طور موراکامی بھی سراسر جاپانی نہیں ہے بلکہ اس کے کئی ناول پڑھ کر احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ جاپانی ہے یہاں تک کہ کچھ ناولوں کے نام مثلاً’’نارویجن وڈ‘‘ وغیرہ مغربی گیتوں سے اخذ شدہ ہیں کہ موصوف ابتدائی دور میں کاروبار ہی مغربی موسیقی کا کرتے تھے۔ یوں اس کے پاس مغرب کی پاپ میوزک سے لے کر ٹھیٹھ کلاسیکی موسیقی تک کا وسیع علم ہے۔ جسے وہ بے دریغ اپنے ناولوں میں استعمال کرتا ہے۔ ویسے ہمارے ہاں جس بھی نئی سوچ والے کو مطعون کرنا مقصود ہوتا ہے اسے پہلے تو مغرب زدہ ٹھہرایا جاتا ہے۔ تب بھی وہ پوری طرح مطعون نہ ہو تو اس پر لبرل ہونے کا ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے۔ نتائج پھر بھی خاطر خواہ حاصل نہ ہوں تو اسے سیکولر قرار دے کر اپنے تئیں اس کا قلع قمع کر دیا جاتاہے۔ پاموک اور موراکامی اگر ہمارے ہاں ہوتے تو یہ سب لیبل ان پر لگا کر ان کا مکو ٹھپ دیا جاتا۔ ویسے وہ ہمارے ہاں ہوتے ہی کیوں۔ جہاں ہم ابھی تک چاند کے طلوع ہونے کے بارے میں نہائت سنجیدہ تحقیق میں مشغول ہیں۔ ہر برس اہل جاپان ہاروکی کے لئے ادب کے نوبل انعام کے لئے تیاریاں کرتے ہیں۔ ریلوے سٹیشنوں ‘ بک سٹورز اور فٹ پاتھی کھوکھوں پر اس کے ناول سج جاتے ہیں کہ اس برس تو یہ انعام جاپان چلا ہی آئے گا اور وہ ابھی تک نہیں آیا اور ہاں اس نوبل انعام سے بھی تو ہم شدید طور پر الرجک ہیں۔ اگر کسی کو مل جائے تو نہ صرف نوبل کمیٹی بلکہ انعام حاصل کرنے والے کے پیچھے بھی تو لٹھ لے کر پڑ جاتے ہیں اور اس کی خوب درگت بناتے ہیں کہ آخر نوبل انعام ہمیں پوچھ کر کیوں نہیں دیا جاتا۔ پاروکی کا نیا ناول انگریزی کی ایک اصطلاح کے مطابق ایک ’’مَسٹ رِیڈ‘‘ ہے۔ اسے ضرور پڑھنا چاہیے۔ میں نے اس کی ضخامت کے باوجود اول تا آخر پڑھا کہ یہ آپ سے چمٹ جاتا ہے۔ اپنے آپ کو پڑھواتا ہے۔ یوں جانئے جیسے بچپن میں ابن صفی کے ناول اتنے دلچسپ ہوتے تھے کہ دلہنیں سہاگ رات میں بھی انہیں ختم کر کے دم لیتی تھیں اور تب تک انتظار کرتے کرتے دولہا میاں کا دم نکل جاتا تھا۔ بس ہاروکی کا یہ ناول بھی ایک ایسا ہی تخلیقی معجزہ ہے۔ سہاگ رات برباد نہ ہو تو جو ایان علی ماڈل کی سزا وہ میری یا ہاروکی کی۔ دوسرا ناول جس نے مجھے اپنے پلاٹ کے سحر سے جکڑ لیا وہ محمد حنیف کا ’’ریڈ برڈز‘‘ ہے۔ محمد حنیف کے بارے میں ابھی یہ طے نہیں کیا جا سکا کہ وہ کیا ہے۔ ناول نگار ہے۔ بین الاقوامی سطح کا کالم نگار ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار ہے یا ٹیلی ویژن پر انگریزی اردو اور پنجابی کے نت نئے شعبدے دکھانے والا کاریگر ہے۔ انگریزی اور اردو پر اسے کمال کا عبور حاصل ہے اور جب وہ بی بی سی کے پروگرام میں پنجابی بولتا ہے تو ایسی ٹھیٹھ اور پر تاثیر جیسے ابھی تک اپنے اوکاڑے والے گائوں سے باہر قدم نہ رکھا ہو۔ علاوہ ازیں وہ نازک موضوعات کی تیز دھار پر چلنے والا ایک بازی گر بھی ہے۔ وہ کسی وقت بھی کٹ سکتا ہے۔ گر سکتا ہے۔’’ریڈ برڈز‘‘ اس کے پچھلے دو ناولوں سے سراسر مختلف اور بہت عجیب ہے۔ ایک خواب سراب کی کیفیت ہے جس میں ایک صحرا ہے۔ ایک گمشدہ امریکی پائلٹ ہے جو بھٹکتا پھرتا ہے۔ ایک بے آباد امریکی چھائونی ہے جس کی بیرکوں میں روحیں بسیرا کرتی ہیں۔ ایک ’’مَٹ‘‘ نام کا کتا ہے جس کا بھیجہ پگھل چکا ہے اور وہ عجیب و غریب حرکتیں کرتا ہے اور ایک زیریں سطح پر امریکہ کی نازل کردہ بربادیوں کے شائبے ہیں اور ہاں سرخ رنگ کے پرندے ہیں جو وجود میں آتے ہی سرخ سفوف میں بدل جاتے ہیں۔ یوں جانئے اسے پڑھتے پڑھتے آپ خود بھی ایک ’’مٹ‘‘ ہو جاتے ہیں اور آپ کا دماغ بھی فرائی ہو جاتا ہے، لیکن یہ ناول ایسا ہے کہ اس کے نتیجے میں آپ کا بھیجہ بھی پگھل جائے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہو گا۔ محمد حنیف ان دنوں ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے ایک ڈرامہ نہیں‘ ایک آپرا لکھ رہا ہے۔ جس کی موسیقی کی ذمہ داری غالباً ایک فلسطینی موسیقار کی ہے۔ آپرایوں جانئے کہ ایک میوزیکل ڈرامے کی شدید کلاسیکی شکل ہے یعنی مکالمے بلند آواز کی گائیکی کے ذریعے اداکیے جاتے ہیں۔ یقینا اس آپرا میں ضیاء الحق ‘ بے نظیر اور زرداری کے کردار ہوں گے تو انہیں کون سے اداکار ادا کریں گے۔ مجھے اس لئے بھی اس آپرا کا انتظار ہے کہ دیکھیے ضیاء الحق اور زرداری گلا پھاڑ پھاڑ کر گاتے ہوئے کیسے لگتے ہیں اور بے نظیر ایک مظلوم ہیروئن کے طور پر کیسے درد بھرے گیت گاتی ہے۔(جاری)