نامور فرانسیسی دانشور اور ادیب والٹیئر نے کہا تھا ، ’’غیرمہذب ،وحشی قوموں کو چھوڑ کر تاریخ انسانی میں ہمیشہ کتابوں نے انسانوں پر حکومت کی ہے۔ ‘‘والٹیئر کو یہ بات شائد پسند نہ آتی، لیکن اس کا یہ بیان یہ الہامی کتب کو شامل کرنے سے ہی مکمل اور درست ثابت ہوتا ہے۔ یہ کتابیں ہی ہیں جو انسانی ذہن کو کشادہ اور وسیع کرتی ، اس میں سوچنے، سمجھنے، الجھنیں سلجھانے کی استعداد پیدا کرتی ہیں۔ نان فکشن یعنی سنجیدہ کتابوں کی اپنی جگہ ہے، مگر اپنے مطالعے کا ایک خاص حصہ ضرور فکشن کو دینا چاہیے ۔ انسان کے اندرنرمی، گداز اور شدت احساس پیدا کرنے کے لئے فکشن (ناول، افسانہ، ڈرامہ وغیرہ)کی بہت اہمیت ہے۔اسی طرح شاعری جمالیاتی ذوق کی تربیت کرتی ہے۔ہم میں سے ہر ایک کو تجربہ ہوا ہوگا کہ ابتدائی زندگی میں بعض اشعار یا تک بندی اچھی لگتی ہے، جیسے جیسے ہم مطالعہ کرتے، سوچ پختہ ہوتی ہے، تب شاعری کا ذوق بھی بہتر ہوجاتا ہے۔ہلکا، عامیانہ شعر تب ناگوار گزرتا ہے۔ اس سب کے لئے مگر اپنے آپ پر کچھ محنت کرنا پڑتی ہے۔صرف اچھے لباس، جوتوں، ٹائی ، کوٹ وغیرہ پر پیسے خرچ کرنے کے بجائے اپنی اندر کی شخصیت کو سنوارنے، سجانے ، دیدہ زیب بنانے پرکام کرنا پڑتا ہے۔اسکے لئے اہل علم کی صحبت اور زندگی کے بغور مشاہدے کے ساتھ کتابوں سے دل لگانابڑا ضروری ہے۔ یہ تمہید اسی مطالعے کے لئے باندھی گئی کہ ہمارے شہر لاہور میں آج کل کتابوں کا سالانہ میلہ لگا ہوا ہے۔ ہر سال لاہور کے مشہور ایکسپوسنٹر میں کتاب میلہ یا بک فیئر لگتا ہے۔ اس باریکم فروری سے شروع ہوا، آج اس کا آخری دن ہے،رات دس بجے اختتام ہوگا۔ کتابوں کی خریداری کے لئے ہر بار بجٹ مختص کرتے ہیں، ہمیشہ وہ کم پڑ جاتا ہے۔ کتابیں خریدنا تو خیر ایک شاندار کام ہے ہی، کتابوںمیں کچھ وقت گزارنا اور محاورے کے مطابق آنکھیں سینکنا بھی دل خوش کن امر ہے۔ کتاب میلے جا کر سب سے بڑی خوشی یہ ملتی ہے کہ کتاب کلچر ابھی ختم نہیں ہوا۔ آج بھی ہزاروں ، لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو کتاب پڑھتے اور اسے ڈھونڈنے کے لئے جتن کرتے ہیں۔ہرسال لاکھوں لوگ یہاں وزٹ کرتے اور کروڑوں کی کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔ اس بار محسوس ہوا کہ بک ایکسپو کی انتظامیہ کو صرف منافع کمانے کے بجائے اسے پھیلانے پر توجہ دینی چاہیے۔ کراچی سے پہلے چند پبلشرز آتے تھے، اب وہ بھی نہیں آتے، اسلام آباد ، ملتان کے ناشر حضرات بھی عنقا تھے۔اس بار فی سٹال کرایہ پچپن ہزار تھا، جوخاصا زیادہ ہے۔دوسرے شہروں کے ناشر حضرات کو تو مفت سٹال لگانے دینا چاہیے ۔اس بار پبلسٹی بھی کم کی گئی۔بہت سے لوگوں کو علم ہی نہیں ہوسکا۔ افتتاح کے لئے بھی کسی بڑی نامور شخصیت کو بلانا چاہیے۔ ویسے تو میں سوچ رہا تھا کہ اگر وزیراعظم عمران خان، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی یا وزیراعلیٰ پنجاب، گورنر صاحبان اپنے اہل خانہ سمیت کتابیں خریدنے آتے تو کتاب کلچر کو کس قدر فروغ ملتا۔ عمران خان کتاب پڑھنے والے آدمی ہیں، وہ برطانوی اخبارات میں کالم بھی لکھتے رہے ہیں۔ انہیں ایسی جگہوں پر جانا چاہیے ۔ وزیراعظم کا کتاب خریدنانئی نسل کے لئے بڑی ترغیب ثابت ہوسکتا ہے۔ ہر سال کتاب میلہ کے موقعہ پر اور ویسے عمومی طور پر بھی اکثر دوست کتابوں کی فہرست تجویز کرنے کا کہتے ہیں ۔ یہ کام آسان نہیں، ہر ایک کا اپنا ذوق اور میلان طبع ہے، اسی کے مطابق ہی پڑھنا چاہیے۔ کسی کی دلچسپی فکشن میں زیادہ ہے توکسی کے لئے ضخیم ناول پڑھنا دشوار ہے، بہت سے لوگ مذہبی لٹریچر میں زیادہ شغف رکھتے ہیں، کوئی تاریخ پر کتابیں پڑھنا چاہتا ہے۔اس لئے پہلے اپنے آپ سے سوال کریں کہ کس میں دلچسپی ہے، پھر اس شعبے کے حوالے سے اہم اور ضروری کتابیں خریدی جائیں۔کتاب میلہ کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہاں سستی اور معیاری کتابیں چھاپنے والے کئی سرکاری، نیم سرکاری ادارے بھی سٹال لگاتے ہیں۔ نیشنل بک فائونڈیشن نے بہت سی اعلیٰ کتابیں شائع کی ہیں، اردو سائنس بورڈ ، اقبال اکیڈمی اور سب سے بڑھ کر مجلس ترقی ادب جس نے ٹائن بی کی مطالعہ تاریخ اور فریزئر کی شاخ زریں چھاپی ہے، انجمن ترقی اردو وغیرہ سے بہت اچھی کتابیں نہایت مناسب داموں مل جاتی ہیں۔ میرے جیسے لوگ جنہیں شروع کے زمانے میں کوئی رہنمائی کرنے والا نہیں ملا، ہم تو کتابوں کی دکان پر جا کر ورق گردانی کرکے اندازہ لگاتے۔ جہاں دلچسپی محسوس ہوتی، وہ کتاب لے لی جاتی۔ زیادہ بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ اپنی پسند کا موضوع منتخب کیجئے اور اس میں بنیادی نوعیت کی کتابیں پڑھ ڈالئے، وہ کتابیں جنہیں امہات الکتب(کتابوں کی مائیں)کہا جاتا ہے۔آغاز بے شک ہلکی پھلکی ، دلچسپ کتابوں سے کریں۔ کوئی افسانوی مجموعہ، سفرنامہ، مزاح کی کتاب وغیرہ۔جیسے جیسے پڑھنے کا سٹیمنا بنتا جائے ،زیادہ میچور مطالعے کی طرف آ جائیں۔اردو فکشن میں تو ویسے بھی بہت زیادہ آپشن نہیں۔ چند ایک لکھنے والے ہیں، انہیں پڑھنا شروع کر دیں۔پانچ سات اردو کے ممتاز افسانہ نگار ہیں، سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، احمد ندیم قاسمی، غلام عباس، انتظار حسین، عصمت چغتائی وغیرہ۔اشفاق احمد، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب کا اپنا ایک سکول آف رائٹنگ ہے۔ اشفاق احمد کے ساتھ کچھ تعصب برتا گیا، ورنہ انکے پہلے دونوں افسانوی مجموعے کمال کے ہیں۔ بانوقدسیہ کے ناول ’’راجہ گدھ‘‘ کے ساتھ بھی ہمارے لبرلز نے خاصے تعصب سے بے اعتنائی برتی ہے۔ یہی لوگ اگرچہ کہتے ہیں کہ ادیب کی شخصیت، اس کے نظریے سے اس کے ادب کو نہ ناپو۔ اشفاق احمد، بانوقدسیہ، ممتاز مفتی کے ساتھ انہوں نے اگرچہ یہی کیا۔افسانہ نگاروں میں میرے نزدیک اسد محمد خان ، حسن منظر ، سید رفیق حسین اور ابوالفضل صدیقی کو بھی شامل کرنا چاہیے۔نئے لکھنے والوں میں کئی نام ہیں، علی اکبر ناطق ان میں نمایاں ہیں۔نیلوفر اقبال اور ایم الیاس بھی بہت عمدہ لکھنے والے ہیں۔ ناول نگاری میں بھی چند ایک نام ہی ہیں۔ قرتہ العین حیدر، مستنصر حسین تارڑ، عبداللہ حسین، مرزا اطہر بیگ۔عینی آپا کے کئی ناول مشہور ہیں، جس نے آگ کا دریا اور آخر شب کا ہم سفر نہیں پڑھا ، اس نے بہت کچھ مس کیا۔ عبداللہ حسین کا سب سے مقبول ناول ’’اداس نسلیں ‘‘اگرچہ انہیں خود باگھ زیادہ پسند تھا، نشیب ان کا ناولٹ ہے،آخری ناول ’’نادار‘‘ لوگ بھی کسی سے کم نہیں۔تارڑ صاحب کے ناولوں پر کئی بار بات کی ہے، ہر بار جی چاہتا ہے کہ مزید لکھا جائے۔’’ بہائو‘‘، ’’راکھ‘‘،’’ خس وخاشاک زمانے‘‘،’’ ڈاکیہ اور جولاہا‘‘، ’’قربت مرگ میں محبت‘‘ اور تازہ ترین شاہکار ناول’’ منطق الطیر‘‘۔ویسے میرے خیال میں نئے پڑھنے والے کو تارڑ صاحب کے ناول پیار کا پہلا شہر سے ابتداکرنی چاہیے، بڑا سویٹ سا کومل سُروں والا ناول ہے ، جپسی، دیس ہوئے پردیس سے گزر کر راکھ اور پھر بہائو تک پہنچنا چاہیے۔، بہائو کو سمجھنا اتنا آسان نہیں۔ان کی سب کتابیں سنگ میل پر دستیاب ہیں۔بانوقدسیہ آپا کا اوپر ذکر آ گیا، جمیلہ ہاشمی کا نام چھوٹ نہ جائے ۔ ان کے دو اہم ناول تلاش بہاراں اور حسین بن منصور حلاج پرلکھے ’’دشت سوس‘‘کو ضرور پڑھنا لینا چاہیے۔ مرزا اطہر بیگ نے اردو ادب میں جدید ناول کے تجربات کئے، ان کا ضخیم ناول غلام باغ دلچسپ ہے، سائبر سپیس کے منشی دوسرا ناول جبکہ تیسرا حسن کی صورتحال ہے۔عاصم بٹ کاناول دائرہ دلچسپ ہے، اختر رضا سلیمی نے اپنے ناول جندر میں ایک بڑے لینڈ اسکیپ کا احاطہ کیا، پہلا ناول ’’جاگے ہیں خواب میں ‘‘بھی دلچسپ ہے۔علی اکبر ناطق کا ناول’’ نولکھی کوٹھی‘‘دیہی پنجاب کی عمدہ عکاسی ہے۔ پچھلے سال انیس اشفاق کا ناول دکھیارے پڑھا تھا، اس بار ایکسپو سے عکس(کتاب محل) پبلشر نے ان کا نیا ناول ’’پری ناز اور پرندے‘‘بھی پڑھنے کو دیا ، سنگ میل نے انیس اشفاق کا دوسرا ناول خواب سراب بھی شائع کر رکھا ہے۔بھارت ہی کے سید محمد اشرف کا ناول ’’نمبردار کا نیلا‘‘ایک زمانے میں مشہور ہوا تھا۔پچھلے سال اجمل کمال نے آج کے زیراہتمام ان کا ناول ’’خواب سراب‘‘ شائع کیا، پڑھ کر کئی دنوں تک اس کے ٹرانس میں رہا۔ ویسے شمس الرحمن فاروقی کے شاہکار ناول’’ کئی چاند تھے سرآسماں ‘‘کوپڑھ لیں تو برسو ں ٹرانس سے نہیں نکل پائیں گے۔ایک سٹال پر یہ ناول نظر آیا۔ اروندھتی رائے کا ناول ’’بے پناہ شادمانی کی مملکت ‘‘بھی بک ایکسپو میں موجود ہے۔ مزاح نگاری میں بھی تین چار نام ہی ہیں۔ یوسفی صاحب کی چار کتابیں(چراغ تلے، خاکم بدہن ،زرگزشت، آب گم)ہیں ، پانچویں پچھلے سال ان کے لیکچرز، مضامین کا مجموعہ شائع ہوا۔ شفیق الرحمن کی چند مشہور کتابیں (حماقتیں، مزید حماقتیں، کرنیں، دجلہ وغیرہ )ہیں، کرنل محمد خان کی تین کتابیں (بجنگ احمد، بہ سلامت روی،بزم آرائیاں )اور ایک انگریزی سے تراجم ہیں۔ابن انشا کی کتابیں اس بار نظر نہیں آئیں، اردو کی آخری کتاب، خمارگندم ،نگری نگری پھرا مسافراور ان کے کالموںکے مجموعے ۔سید ضمیر جعفری کے شگفتہ مضامین کے مجموعے اور ڈائریاں بھی چھپ چکی ہیں۔اردو کے بے مثال نثر نگار مختار مسعودکی بھی چار شاہکار کتابیں(آواز دوست، سفر نصیب، لوح ایام ، سفر شوق)ہیں، آواز دوست کے درجنوں ایڈیشن شائع ہوئے، آج بھی یہ صرف ڈیڑھ سوروپے میں دستیاب ہے۔مقدور ہو تو مرزافرحت اللہ بیگ کی کتابیں دلی کا آخری مشاعرہ، نیرنگ خیال،ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی پڑھیں اورڈپٹی صاحب کے پوتے شاہد احمد دہلوی کی زبان کا چٹخارہ لینے کے لئے ان کی کتابیں اور خاکے پڑھ ڈالئے۔ملاواحدی، اخلاق احمد دہلوی اور اشرف صبوحی کی کتابیں بھی کتاب میلے میں انجمن ترقی اردو اور دیگر سٹالوں پر میسر ہیں ۔زبان کا مزہ لینا ہو تو ان سب کو پڑھیں۔