اسلام آباد(خبر نگار)عدالت عظمیٰ نے جعلی ڈگریوں کی تصدیق سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے ڈگریوں کی تصدیق کے عمل میں غیر ضروری تاخیر پر شدیدبرہمی کا اظہار کیا ہے ۔ دوران سماعت قائم مقام چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ کتنی شرم کی بات ہے کہ ڈگریوں کی تصدیق کا معاملہ مالی کو سونپ دیا گیا، کسی کو اس ملک کا درد نہیں،مالی کام کریگا تو سیکرٹری تفریح کریگا ،ملک کو اس نہج پر ایسے رویوں نے پہنچایا۔جسٹس گلزار احمد نے سوال اٹھایا کہ کیا سرکاری افسران گاڑیوں پلاٹ اور مراعات کے لیے بیٹھے ہیں،دنیا کے سامنے پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے بیٹھے ہیں ،کیا سرکاری ادارے افسران کی ذاتی میراث ہیں ،کیا مجاز افسران نشہ میں بیٹھے ہوتے ہیں؟۔عدالت نے سیکرٹری وزارت بین الصوبائی تعاون کے طرز عمل پر برہمی کا اظہار کیا اور آبزرویشن دی کہ اگر دوبارہ ایسا واقعہ ہوا تو سیکرٹری ذاتی حیثیت میں ذمہ دار ہوگا ، سرکاری افسران کام کرے تو ملک کا یہ حال نہ ہو ،سیکرٹری آئی پی سی یقینی بنائے آئندہ ایسا واقعہ نہ ہو۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے وزارت ریلوے کی نوشہرہ کینٹ میں زمین کو کمرشل پلازے کیلئے سب لیز کرنے کا معاملہ فیصلے کیلئے وفاقی کابینہ کو بھیج دیاہے ۔ جسٹس اعجا زلااحسن نے کہاکہیں ایسا نہ ہو کہ ریلوے کو اجازت دیں تو وہاں پلازے کھڑے ہو جائیں وزارت دفاع بھی بیان حلفی دے کہ وہ بھی اس زمین کو صرف فوجی مقاصد کیلئے استعمال کرے گی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ اگر ریلوے کو اجازت دے دی تو پھر اس فیصلے کو مثال بنا کر پورے پاکستان میں استعمال کیا جائے گا یہ بھی ایشو ہے کہ زمین کینٹ کو واپس کرنے پر وہ بھی پلازے بنائیں گے معاملہ میں وفاقی حکومت کو فیصلے کا اختیار دینا بہترین حل ہو گا ۔عدالت نے قرار دیا کہ زمین کے استعمال کا فیصلہ کرنا وفاقی حکومت کا اختیار ہے ۔ عدالت نے حکم دیا کہ معاملے پر وفاقی کابینہ دو ماہ میں فیصلہ کرے اور رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جائے ۔علاوہ ازیں عدالت عظمٰی نے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی نااہلی کی درخواست کی سماعت کرنے والے بینچ میں شامل ایک جج پردرخواست گزار کے وکیل کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ مقدمے کی سماعت سے الگ ہونا متعلقہ جج یا بینچ کی صوابدید ہے ۔سپریم کورٹ نے گیس انفراسٹریکچر ڈویلپمنٹ سرچارج سے متعلق کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی۔ جسٹس مشیر عا لم نے کہا کہ یہ بتادیں لیوی ٹیکس ہے یا فیس اور اگر اس کیس میں لارجر بینچ کی ضرورت پڑی تو معاملہ چیف جسٹس کو بھیجیں گے ۔دریں اثنائعدالت عظمٰی نے کیس کی سماعت جنوری 2020ء تک ملتوی کرتے ہوئے وفاق اور صوبائی حکومتوں سے سرکاری رہائش گاہوں کے بارے نئی رپورٹ طلب کرلی۔علاوہ ازیں عدالت عظمٰی نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے متعلق عدالتی فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواستوں کی سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی استدعا پر غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ صورتحال تبدیل ہوچکی ،اس مسئلے کا حل نکلنا چاہیے ۔ جسٹس گلزار احمد نے کہاحکومت کو سوچنا چاہیے معاملے کوحل کیسے کرنا ہے ۔