کوئی آنکھوں میں لے کر وفا کے دیے دیکھو بیٹھا ہے رستے میں تیرے لیے اپنی مٹھی میں کوئی بھی لمحہ نہیں اور کہنے کو ہم کتنے برسوں جئیے اچھا شعر مجھے کھینچتا ہے، رات کی رانی خوشبو میں دھلتی ہے تو راہی کے پائوں میں حلقہ ڈال دیتی ہے۔ گرمیوں کے ٹھنڈے سائے اور سردیوں کی گرم دھوپ اپنے لمس سے رگ و پے میں اتر جاتی ہے۔ سخن کی اثر آفرینی جنہیں محسوس ہوتی ہے وہ تو فرحت و انبساط میں نہال ہو جاتے ہیں۔ فراز نے درست ہی تو کہا تھا کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔ وہ خود ہی گل کھلاتی ہے بلکہ اس سے پہلے وہ کونپلوں کی صورت نمو کرتی ہے۔ ٹہنیاں سبز گہنے نہیں لیتی ہیں، گل خیال بھی کھلتا ہے اور انہیں پر سوچوں کی تتلیاں بھی منڈلانے لگتی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ کیا ہوتا ہے کہ مردہ زمین زندہ ہو جاتی ہے۔ موسموں کا تغیر کیسا ہے قدرت کا سحر یا معجزہ۔ یہ محبت بھی تو بہار کی طرح ہوتی ہے۔ اندر کے سارے موسم بدل دیتی ہے۔ اس بات کا خیال مجھے آصف شفیع کے دو شعر پڑھ کر آیا۔ آصف شفیع نئی نسل کا نمائندہ شاعر ہے اور طرحدار بات کرتا ہے: کتنے ملبوس زخم نے بدلے جب سنورنا پڑا محبت میں پار اترے تو پھر سمجھ آئی کیوں اترنا پڑا محبت میں کچھ کہی اور کچھ ان کہی دھوپ چھائوں کی طرح ہوتی ہے کہ جیسے بارش میں دھوپ نکل آئے یا دھوپ میں بارش ہونے لگے یہ کچے پکے موسم اندر کے تغیرات ہی تو ہوتے ہیں’’شاید اس کا نام محبت ہے، شیفتہ آگ آگ سی ہے دل کے جو اندر لگی ہوئی‘‘اب مجھے پتہ نہیں کہ میں بہار پر لکھ رہا ہوں یا محبت پر۔ یا پھر بہار کے ذکر پر محبت جاگ اٹھی ہے۔ پھر آصف شفیع یاد آ گیا کہ ’’ضرب فرحت کی ابھی اور گھائو اس پر، شوق مرتا ہی نہیں ایک محبت کر کے‘‘ اک تعلق تو بہرطور بہار اور محبت کا ہے کہ دیوانے گریباں تو چاک کرتے ہیں۔ بہار اور محبت دونوں میں بہت خودسری ہے۔ ظہیر کاشمیری کہاں یاد آئے کہ نمو سے ہر غزل میں نے ان سے شیخوپورہ کے ایک مشاعرے میں سنی تھی: گلچینوں نے صیادوں نے گلشن کو کیا تاراج بہت پیڑوں میں نمو کا زور بہت شاخوں پر پپیہے مور بہت یہ تو چلیے انہوں نے میرے وطن کا حال بیان کر دیا کہ یہ بہت سخت جان ہے اور قدرت نے اس میں بہت ساری توانائی اور قوت رکھی ہے۔ پھر مور کے ناچ سے تو جنگل بھی ناچنے لگتا ہے۔ محبت تو محبت ہے کہ نہ یہ سمجھ والوں کی سمجھ میں آتی ہے۔ یہ تو اپنا آپ دکھاتی ہے، محسوس کرواتی ہے ’’محبت کو زندگی سمجھا، اس محبت نے مار ڈالا مجھے‘‘ اس محبت کو جو لوگ سیاستدانوں میں تلاش کرتے ہیں یا دنیا داروں میں، مجھے وہ بہت معصوم لگتے ہیں۔ ویسے بھی محبت کا تعلق تو دل سے ہوتا ہے اور بقول ابوالکلام سیاستدان کے سینے میں دل ہی نہیں ہوتا۔ دل کے بغیر زندہ رہنا ایک الگ کمال ہے بلکہ ہنر ہے جبکہ محبت کرنے والے بے ہنر ہوتے ہیں۔ بات چل نکلی ہے تو فاطمہ قمر بار بار لکھ رہی ہیں کہ عمران خان نے اپنے قریب ترین اور لنگوٹیا کا جنازہ نہیں پڑھا۔ لوگ جواب میں لکھ رہے ہیں کہ یہ کوئی ضروری نہیں تھا بہر حال خان صاحب وزیر اعظم ہیں۔ ان کی اور بھی ذمہ داریاں ہیں۔ میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔ چلیے اتنا کافی ہے کہ وہ نعیم الحق کے مرنے پر آبدیدہ ہو گئے۔ آنسو بہر حال ایسے ہی نہیں بنتے۔ جہاں تک نماز جنازہ میں شامل ہونے کا تعلق ہے یقینا کوئی جواز ہو گا۔ مجھے یاد ہے سراج منیر جیسے شخص کے جنازے میں میاں برادران شریک نہیں ہوئے حالانکہ ان کی ساری انتخابی تحریک اس شخص نے چلائی تھی اور خود کو ان کے لیے خرچ کر لیا تھا۔ یہ مصرع بھی غالباً سراج منیر کا تھا ’’تجھے نواز رہا ہے خدا نواز شریف‘‘ پھر بھی حتمی بات کوئی نہیں ہے سارے جھگڑے تو زندگی تک ہیں کون مرتا ہے پھر کسی کے لیے اس مکھڑے سے آپ کو عطا اللہ عیسیٰ خیلوی بھی یاد آیا ہو گا کہ ایک زمانے میں یہ غزل اس کی پرسوز اور پرورد آواز میں ہر جگہ پھیل گئی تھی۔ اسی نے پھر گایا کہ آئے گا عمران اور بنے گا نیا پاکستان۔ اب کبھی ملاقات ہوئی تو پوچھوں گا لالہ جی کیسا لگا نیا پاکستان۔ جو بھی ہے عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی تو واقعتاً محبت کرنے والا ہے۔ اسی بات نے اس کی آواز میں ایسا سوز بھر دیا کہ بڑے بڑے گائیک پیچھے رہ گئے کمال نغمہ گری میں ہے فن بھی اپنی جگہ مگر یہ لوگ کسی درد نے سریلے کیے واقعتاً ظاہر سے ہٹ کر باطن میں کچھ ہوتا ہے۔ کوئی اضافی چیز یعنی بالکل بہار کی طرح جو اپنا اثر دکھاتی ہے۔ پیڑوں پر آثار مرتب ہونے لگتے ہیں۔ رنگ روپ سب کچھ بدل جاتا ہے۔ وہی جو رئیس المتغزلیں حسرت موہانی نے کہا تھا: رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام دہکا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام میرے معزز قارئین! آپ بھی تو بدلا ہوا موسم محسوس کر رہے ہونگے۔ اس تبدیلی کی مناسبت سے آپ کے ذہن میں بھی ایسے ہی بدلتے ہوئے خیالات آتے ہونگے۔ یہ تغیر قدرت کا بہت بڑا انعام ہے۔ خزاں کا موسم بھی تو اپنی جگہ ہے کہ پھلوں میں رس پڑتا ہے اور پھر سردی کی اپنی افادیت اور اب بہار کی آمد آمد تو اڑتی سی اک خبر ہے زبانی ظہور کی۔ شاعروں نے کیا مشاہدہ کر رکھا ہے۔ آپ بہار کی صبح کو سنیں تو آپ کو پرندوں کی چہکار سنائی دے گی کہ وہ بھی ایک آسودگی محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔ جب احساس آواز میں ڈلتا ہے تو اس کو بھی بس محسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ اللہ کا یہ انعام امیر اور غریب سب کے لیے ہے۔ چاند کی چاندنی بھی ہر جگہ چٹکتی ہے۔ گل رُت اللہ کا انعام ہے جس پر اس ذات کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ علی الصبح سیر کا لطف بڑھ گیا ہے۔ صبا شام جہاں کو مہکاتی ہے۔ خوشبو سے بھری تازگی احساس کو جگاتی ہے’’کوئی بھولا ہوا یاد آ جاتا ہے‘‘ ’’جیسے ویرانے میں چپے سے بہار آ جائے اور بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے‘‘کہنے کا مطلب ہے کہ اللہ حضرت انسان پر بہت مہربان ہے کہ اسے کبھی ایک حالت میں نہیں رکھتا وگرنہ اس کو زنگ لگ جائے۔ سچ مچ ہم اللہ کی کون کونسی نعمت کو جھٹلائیں گے۔ ممکن نہیں۔ ہائے ہائے میر نے کیا خوب کہا ہے: چلتے ہو تو چمن کو چلیے کہتے ہیں کہ بہاراں ہے پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم بادو باراں ہے