حکومت کرنا کتنا مشکل ہے اب کوئی عمران خان سے پوچھے۔ یقینا ان پر وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ کھلے گا۔ ان کی بائیس سالہ سیاسی جدوجہد میں زیادہ تر بدعنوانی پر بیانات جاری ہوئے‘ ریاستی اداروں میں بدانتظامی اور مخصوص سیاسی خاندانوں کی ریاستی خزانے پر ملکیت پر عمران خان مسلسل گرجتے برستے رہے۔ عام لوگ شاید ان سے یہی سننا چاہتے تھے لیکن کچھ تعلیم یافتہ حلقے چاہتے تھے کہ عمران خان کی وفاقی پارلیمانی نظام کی آئینی جیت پر گفتگو سنیں‘ مرکز اور صوبوں کے درمیان تعلقات کے بارے میں خیالات جان سکیں۔ اکیلے عمران خان ہی کیوں مسلم لیگ ن ‘ جماعت اسلامی‘ جمعیت علمائے اسلام اور دیگر کئی جماعتوں کے سربراہ بھی اس موضوع پر خاموش رہتے ہیں یا پھر ان کی دلچسپی کا یہ موضوع ہی نہیں ہوتا۔ پیپلز پارٹی‘ ایم کیو ایم‘ اے این پی اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں البتہ صوبائی حقوق کی بات کرتی ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ ان جماعتوں کا وفادار ووٹ بینک مقامی زبان‘ کلچر ‘ ادب اور سیاسی حقوق کا مطالبہ کرتا ہے۔وفاقی جماعتوں کی خاموشی عجیب سی معلوم ہوتی ہے۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان تعلقات کا پل کچھ جمہوری ادارے ہیں۔1973ء کے آئین کی رو سے مشترکہ مفادات کونسل تشکیل دی گئی جس کا سربراہ وزیر اعظم ہوتا ہے جبکہ تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور صوبوں کے بعض انتظامی نمائندے بطور رکن فرائض ادا کرتے ہیں۔ یہ نظام اس حوالے سے بھی مفید سمجھا جاتا ہے کہ مختلف صوبوں میں بعض اوقات مرکزی حکومت کی مخالف جماعتیں اقتدار میں ہوتی ہیں لیکن مشترکہ مفادات کونسل میں سب کو اپنی بات کہنے اور مرکز کے ساتھ معاملات درست کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔25جولائی 2018ء کو حکومت بنانے سے لے کر 23دسمبر 2019ء تک وزیر اعظم عمران خان مشترکہ مفادات کونسل کا کوئی اجلاس طلب نہ کر سکے حالانکہ پنجاب اور کے پی کے نا سہی سندھ اور بلوچستان کے مرکز سے کئی معاملات میں اختلافات موجود تھے۔ آئین کے آرٹیکل 154(3) میں کہا گیا ہے کہ 90روز میں ایک بار مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ضرور ہو گا۔ فیڈرل نظام چلانے کے لئے یہ انتظام کیا گیا ہے ۔ اس بار مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس 6اگست کو ہو رہا ہے‘ پورے 225دن کے بعد۔ اجلاس کا ایجنڈا 6نکات پر مشتمل ہو گا۔ صوبوں کی طرف سے چار سمریاں بھیجی گئی ہیں جن میں سے 3سندھ اور ایک پنجاب کی ہے۔ مرکز نے 2معاملات ایجنڈے میں شامل کئے ہیں جن میں سے ایک کورونا سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی ہے۔ کورونا کا معاملہ نیا نہیں۔ جس وقت اس پہ بات کرنے کی ضرورت تھی مرکز نے وہ وقت گزار لیا۔ مرکز کا دوسرا معاملہ ہیومن ڈویلپمنٹ و بنیادی کمیونٹی سکول ایجوکیشن منصوبہ ہے جس پر ذریعے خواندگی کی شرح کو بڑھایا جانا ہے۔ سندھ نے جو تین سمریاں بھیجی ہیں ان میں سے ایک اوگرا ایکٹ 2002ء میں ترمیم ہے۔ اس ترمیم میں تجویز دی گئی ہے کہ اوگرا میں صوبائی ممبر بھی شامل ہوں جو ہائیڈرو کاربن معاملات پر اپنے صوبوں کے مفادات کا تحفظ کر سکیں۔ سندھ نے کروڈ آئل اور سی این جی پر لیوی کے معاملے کو مشترکہ مفادات کونسل میں زیر بحث لانے کا فیصلہ کیا ہے‘ اسی طرح 1948ء کے معدنیات کی ترقی و آئل فیلڈ ایکٹ میں ترمیم کر کے صوبوں کو اختیارات دینے کی تجویز ہے۔ سندھ کا اس بات پر اصرار رہا ہے کہ قدرتی تیل و گیس پر رائلٹی و فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی وصول کرنے کا وفاق کو حق نہیں۔ یہ ٹیکسز صوبوں کا حق ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کے بعض اہم اراکین اور خود وزیر اعظم گزشتہ کئی ماہ سے اٹھارویں آئینی ترمیم کے نقائص پر بات کرتے رہے ہیں۔ یہ ترمیم بہت سی ترامیم کا بنڈل ہے اس لئے جب اس میں اصل نقص کی نشاندہی کئے بغیر تنقید کی جائے گی تو بہت سے معاملات پر بلا مقصد بحث شروع ہو جائے گی۔ بیانات کے ذریعے اب تک جو سمجھ آیا اس کے مطابق اٹھارویں ترمیم کے نتیجے میں مرکز جن ٹیکسوں کے ذریعے دولت اکٹھی کرتا تھا وہ صوبوں کا اختیار قرار پائے ہیں۔ بہت سے محکمے صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں لیکن دس برس کے دوران صوبوں نے ان محکموں کو چلانے اور نئے اختیارات کو بروئے کار لانے کے لئے اپنے مالیاتی وسائل بڑھانے پر توجہ نہیں دی۔ صوبے اب بھی ان محکموں کو چلانے کے لئے مرکز سے فنڈز طلب کرتے ہیں۔ اس سے نئے جھگڑے پیدا ہوئے۔ نیشنل فنانس کمشن میں طے پائے تقسیمی فارمولے کو بدلنے کی بات کی جاتی ہے کبھی مرکز ان ہسپتالوں کا انتظام دوبارہ سنبھال لیتا ہے جو اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو دیدیے گئے تھے ۔ افراد کے درمیان ایک نکتے پر اختلاف اسی تک محدود رہتا ہے۔ ریاست کا نظام فائبر آپٹک کیبل جیسا ہوتا ہے۔ باریک سا دھاگہ ہزاروں آئینی و قانونی معاملات سے جڑا ہوتا ہے۔ ان معاملات کا دھیان رکھنے والے دماغ بھی ایسے ہی باریک بیں اور عمیق نظر ہوتے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم پر ذرائع ابلاغ میں تنقید سے صرف سیاسی تنائو پیدا ہو گا۔ مرکز اس معاملے پر صوبوں کو اعتماد میں لے تو شاید اختلافی معاملات اس پلیٹ فارم پر طے پا جائیں۔ مشترکہ مفادات کونسل کے سربراہ کے طور پر وزیر اعظم کو اس کونسل کی افادیت کو ضرور اہمیت دینا چاہیے۔ یہ کونسل وفاقی نظام کی بنیادی شرط کا درجہ رکھتی ہے۔ اختلاف رائے کے خدشے سے اجلاس میں تاخیر کی روش کو کسی طرح پسندیدہ نہیں کہا جا سکتا۔پی ٹی آئی کو وفاقی جماعت بننے کے لیے وفاق کے آئینی تقاضوں کا پاس ضروری ہے۔