فیصل آباد پولیس نے پانچ سالہ بچے سے زیادتی کے ملزمان کو ایک مبینہ پولیس مقابلے میں مار دیا ہے۔ پولیس مقابلوں کی عمومی شہرت تو ہمارے سامنے ہے ، اب سوال پولیس مقابلے کے حقیقی یا جعلی ہونے کا نہیں ، سوال صرف یہ ہے کیا پولیس نے ٹھیک کام کیا؟ قانون کے ہاں ، ظاہر ہے اس سوال کا جواب نفی میں ہے ۔ اب یہاں ایک دوسرا سوال جنم لیتا ہے کہ قانون میں اگر اس اقدام کی کوئی گنجائش نہیں تو پھر یہ سوشل میڈیا پر لوگ اتنے خوش کیوں ہیں؟ کیا سماج اپنے قانون سے لاتعلق ہو چکا ہے ؟یہ بہت اہم سوال ہے۔ یہ قیام پاکستان سے پہلے کی بات ہے اور اس واقعے کا تذکرہ ہندوستان میں تعینات برطانوی افسر پینڈرل مون نے اپنی کتاب Strangers in India میں کیا ۔ ایک گائوں میں کسی کے مویشی چوری ہو گئے۔پولیس نے چوروں کو مویشیوں سمیت گرفتار کر لیا۔ لیکن چور بڑے طاقتور تھے اور علاقے میں ان کا دبدبہ تھا۔ چنانچہ مویشیوں کے مالکان ڈر گئے اور انہوں نے بیان دے دیا کہ نہ تو یہ مویشی ان کے ہیں اور نہ ہی ان کے مویشی چوری ہوئے ہیں۔ اب مقدمے کا نتیجہ واضح تھا کہ مجرمان نے بری ہو جانا تھا۔ چنانچہ پولیس نے اب ایک دوسرا راستہ اختیار کیا اور مویشیوں کے نئے جعلی مالکان ڈھونڈ نکالے۔ یہ نئے مالکان عدالت میں پیش ہو گئے اور انہوں نے اپنے مویشی بھی پہچان لیے۔چنانچہ مجرموں کو سزا ہو گئی۔ مویشی بیچ کر ان کی رقم ’’ جعلی مالکان‘‘ اور پولیس میں تقسیم ہو گئی۔اصل مالکان کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ مصنف لکھتا ہے کہ اگر قانون کے مطابق ہی چلا جاتا تو چوروں کو کبھی سزا نہ مل سکتی۔ کیونکہ برطانیہ کا بنا یا ہوا قانون اتنا پیچیدہ ہے کہ اس خطے میں اس کے تحت انصاف ہو ہی نہیں سکتا۔ ایک اور واقعہ بھی اسی کتاب میں لکھا ہے۔ایک گائوں کے کچے مکان کی دیوار توڑ کر چوروں نے کچھ چوری کر لی۔ پولیس نے انتہائی محنت سے چند ہی دنوں میں چور ڈھونڈ نکالے۔ چوروں سے مال مسروقہ یعنی چوری کا مال بھی برآمد ہو گیا۔مصنف لکھتا ہے کہ مال ایک ایسی جگہ زمین میں دبایا گیا تھا جو غیر آباد تھی۔ اب یہاں پینڈرل مون ایک سوال اٹھاتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں کہ فرض کریں اب یہ کیس کسی جج کے سامنے پیش ہو ۔ چور بھی عدالت میں لے جا کر کھڑے کر دیے جائیں اور چوری کا مال بھی پیش کر دیا جائے ۔ جج بھی انتہائی ایماندار ہو تو اس صورت میں کیس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ کیونکہ قانون کے مطابق چوری کا مال چوروں کے قبضے سے برآمد نہیں ہوا۔ نہ ہی یہ ان کے زیر قبضہ یا زیر تصرف جگہ سے برآمد ہوا ہے۔بلکہ یہ سامان ایک ایسی جگہ سے نکلا ہے جہاں ہر شخص کی رسائی ہے۔ اس لیے شہادت کمزور قرار دی جائے گی اور ملزمان بری کر دیے جائیں گے۔ یہ کتاب 40کی دہائی میں لکھی گئی تھی لیکن زمینی حقائق آج بھی وہی ہیں کیونکہ قوانین وہی ہیں۔ آج بھی کسی کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ اپنا سچا فوجداری مقدمہ بھی جھوٹ بولے بغیر صرف سچ کے زور پر جیت کر دکھا دے۔ایف آئی آر میں جھوٹ کی آمیزش ہوتی ہے۔ گواہیاں باقاعدہ تیار کی جاتی ہیں۔قریب قریب سارا منظر نامہ وہی ہے جس کا تذکرہ Strangers in India میں کیا گیا ہے۔وہی پولیس ، وہی پولیس کا ڈھانچہ ، وہی قانون تعزیر، وہی ضابطہ فوجداری ، وہی جھوٹ، وہی نتائج۔ کافی سال پہلے سرگودھا کے ساتھ بھلوال میں ایک جعلی پولیس مقابلہ ہوا۔ یہ جعلی پولیس مقابلہ ذولفقار چیمہ صاحب نے کرایا۔ بہت بعد انہوں نے ایک کالم میں خود ہی ساری کہانی بیان کر دی کہ کیسے انہوں نے اس ڈکیت کو راولپنڈی سے پکڑا اور بھلوال کے قریب لے جا کر گولی مار کر اسے پولیس مقابلہ قرار دے دیا۔ جب یہ کالم چھپا تو مجھے بہت افسوس ہوا۔ ان دنوں چیمہ صاحب نواز حکومت میں ایک اہم عہدے پر تھے۔ میں نے اس اعتراف جرم پر ایک کالم لکھ دیاکہ موصوف کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ مجھے بھلوال اور سرگودھا سے قریبی دوستوں اور عزیزوں نے فون کر کے شکوہ کیا کہ جس ڈکیت کے مارے جانے پر ہمیں برسوں بعد سکھ کا سانس لینا نصیب ہوا تم اسے غلط کیسے کہہ رہے ہو۔ میں نے کہا یہ جرم ہے اور اب پولیس افسر اعتراف جرم کر رہا ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ جواب ملا: اپنا قانون اپنے پاس رکھو ، ہمارا تو وہ ہیرو ہے جس نے ہمیں اس عذاب سے نجات دلائی۔ سرگودھا میں ابھی چند سال پہلے ایک ڈکیت گروپ نے اودھم مچا رکھا تھا۔ شام کے بعد ہم گائوں نہیں جا سکتے تھے۔ ایک شام میں اسلام آباد سے تاخیر سے گائوں پہنچا اور پھر ایک ڈیرے سے دوسرے ڈیرے جانا پڑا تو ماموں زاد بھائی تیمور گوندل بندوق اٹھا لائے کہ ٹھہریے میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں ، یہاں وارداتیں عام ہیں۔پھر ایک ڈی پی او آیا،روایت یہ ہے کہ ایک شام وہ پولیس فورس لے کر ڈکیت گروہ کے سرغنے کے گھر جا گھسا اور قتل کر دیا۔ گائوں کے لوگوں کو کچھ معلوم نہیں قانون اس بارے میں کیا کہتا ہے ،وہ صرف یہ جانتے ہیں اب علاقے میں سکون ہے۔ ملزم کی گرفتاری اور سزا کے بیچ وہ خوفناک مراحل آتے ہیں جہاں قانون بھی ہانپ جاتا ہے۔طاقتور آدمی کے خلاف کون گواہی دے۔گواہی دینے والے کو تحفظ کون دے گا؟ وہ سر راہ قتل ہو جائے تو کیا ہو گا؟ سوالات ہی سوالات ہیں۔اور ان سوالات کی پیچیدگی سے پولیس کے علاوہ کون آگاہ ہو گا؟ایسے میں پھر کبھی کبھی خبر آ جاتی ہے : پانچ سالہ بچے سے زیادتی کے ملزمان کو پولیس مقابلے میں پار کر دیا گیا۔ سوشل میڈیا پر دادو تحسین کا شور اٹھتا ہے اور اس شور میں کسی کو پرواہ نہیں ہوتی مقابلہ اصلی تھا یا جعلی ، نہ ہی کوئی یہ سوچنے کا تردد کرتا ہے کہ تہتر کے آئین کے تناظر میں پولیس کا اقدام درست تھا یا غلط ۔ یہ رجحان خطرناک ہے مگر یہ رجحان اقوال زریں سے ختم نہیں ہو گا۔ اس کے لیے ایک کام کرنا ہو گا ۔ اس فرسودہ نظام قانون کو ادھیڑ کر پھینکنا ہو گا اور اپنی زمینی حقیقتوں کی روشنی میں اپنے لیے اپنا قانون بنانا ہو گا۔یاد رکھیے ، 159سال پرانے پولیس کے ڈھانچے ، ڈیڑھ صدی پرانے فوجداری قانون اور 121سال پرانے مجموعہ ضابطہ فوجداری سے قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہو سکتی۔بے شک ایک سو سال مزید برباد کر کے دیکھ لیجیے۔