بلی بالآخرجب تھیلے سے باہر آئی تو پتہ چلا کہ وہ بلی تھی ہی نہیں، وہ تو بھیڑیا تھا۔ شق 370 اور 35اے کو اپنی پارلیمانی اکثریت کے ذریعے بظاہر ختم کرکے ہندوستان اور ہندو متعصب کرتا دھرتاؤں نے اپنی ایک دیرینہ خواہش پوری کی ہے۔اس پر بہت کچھ لکھا جارہا ہے اور بہت سے پہلو سامنے آتے رہیں گے۔سچ تو یہی ہے کہ ہندو کی مسلم دشمنی مسلم ہے ۔ بی جی پی بہت زیادہ متعصب بلکہ کھلی برہنہ عصبیت کی حامل سہی لیکن تاریخ کانگریس کی منافقت، دوغلے کردار، مفاد پرستی اور مسلم دشمنی کی بھی گواہ ہے۔اور یہی الفاظ شیخ عبداللہ سے لے کر عمر عبد اللہ تک اس پورے گھرانے کے بارے میں بھی کہے جاسکتے ہیں۔اقتدار ملتا رہے تو ہندوستان کا ان سے بڑا حامی کوئی نہیں۔پھر کون سا کشمیر اور کہاں کے کشمیری۔اور راج سنگھاسن سے اتر جائیں تو پھر وہی کشمیریت ،قائد اعظم کی دانشمندی کی تعریف اور حریت پسندی لوٹ آتی ہے۔ان منافق سیاسی رہنماؤں کو آپ دیکھ لیجیے گا.۔اگر مودی اپنی کسی سیاسی ضرورت سے ان کوپھر ہڈی ڈالتا ہے تو وہ یکدم قلابازی کھا کر اس کے چرنوں میں بیٹھنے میں ایک پل بھی نہیں لگائیں گے۔ کشمیریوں کو شبہہ نہیں ہونا چاہیے اور میرے خیال میں ایک محدود تعداد سے قطع نظر اس میں لوگوں کو شبہہ ہے بھی نہیں کہ یاسین ملک ،سید علی گیلانی ،میر واعظ فاروق جیسے رہنما ہی کشمیریوں کی اصل آواز ہیں۔اور برھان وانی جیسے خوب صورت شہید ہی ان کے ہیرو۔ دنیا بھر سے اس غیر قانونی اقدام کے خلاف آوازیں اٹھنی شروع ہوگئی ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ ہمارا مؤقف سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہے۔چین نے کھل کر کشمیر کی حیثیت بدلنے کی مذمت کی ہے اور اسے مسترد کردیا ہے۔ترکی اور ملائشیا کے سربراہوں کا جھکاؤ پاکستانی مؤقف کی طرف ظاہر ہوگیا ہے اورجن ملکوں نے کھل کر ہندوستان کی مخالفت نہیں کی انہیں بھی محتاط طرز عمل اختیار کرنا پڑا ہے اور کم از کم میرے علم میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس نے کھل کر ہندوستان کی حمایت کی ہو۔پاکستانی مشترکہ ایوان اور حکومتی اور عسکری اداروں کے بیانات اور اقدامات بھی سامنے آچکے ہیں۔ان پر تبصرہ کسی اور وقت سہی ۔ بی جے پی نے اپنی یہ دیرینہ گھناؤنی خواہش پوری کرنے کے لیے اس وقت کا انتخاب کیوں کیا اور اس سے پہلے دور حکومت میں ایسا کیوں نہ کرسکی۔اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلے ہندوستان کی اندرونی صورت حال دیکھ لیں۔بی جے پی پچھلے دور میں اتحادی جماعتوں کی محتاج تھی اور من مانی کرنی مشکل تھی۔اب لوک سبھا میں ان کی منہ زور اکثریت موجود ہے اور وہ خود کفیل ہے ۔پھر یہ کہ نئے دور حکومت کا پہلا سال ہے اور مشکل فیصلے کیے جاسکتے ہیں۔آخری سالوں میں یہ مواقع مشکل ہیں۔مسلمان 20 کروڑ سے زائد ہونے کے باوجود اس طرح بانٹ اور کاٹ دئیے گئے ہیں کہ وہ کوئی مؤثر آواز اٹھا ہی نہیں سکتے جو بی جے پی کے لحاظ سے بہت مثبت بات ہے ۔ اکثر مسلمانوں کواپنی جان ،مال اور آبروکے لالے پڑے ہوئے ہیں اور ان کی ساری توانائی خود کو ہندوستان کا وفادار ثابت کرنے میں خرچ ہورہی ہے۔ادھر کشمیر ہاتھ سے نکل رہا ہے اور عرصہ دراز سے وہاں بھاری فوج کی موجودگی کے باوجودتحریک آزادی زور پکڑ رہی ہے ۔ ایک عام نوجوان اب مسلح باغی میں منقلب ہورہا ہے۔ نقصانات مسلسل اور بہت زیادہ ہیں۔فوج پر بھی اس کے منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔اور سب سے بڑی بات یہ کہ بربریت اور نسل کشی کی آخری حدیں عبور کرنا اور وادی کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنا آئینی رکاوٹیں پھلانگے بغیر ممکن نہیں۔نیزگلا پھاڑ نے کے باوجود جاننے والے جانتے ہیں کہ 27 فروری کو ہندوستان کو عسکری اور عالمی سطح پر زک اٹھانی پڑی تھی اور مودی کا یہ زخم رہ رہ کر رستا رہتا ہے ۔ا س کا بدلہ بھی لینا ہے۔ اب مودی کی نشست سے علاقے کی صورت حال پر ذرا ایک نظر ڈالیے۔سب سے بڑا حریف پاکستان اپنی تاریخ کے مشکل ترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔وہ بظاہر جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ایف اے ٹی ایف کی تلوار اس کے سر پر لٹکی ہوئی ہے۔کشمیری مجاہدین کی امداد پر سخت عالمی پابندیاں لگائی جاچکی ہیں۔حافظ سعید ،مسعود اظہر اور دیگر رہنماؤں کو ہندوستانی خواہش کے مطابق زنجیریں پہنائی جاچکی ہیں۔ اپوزیشن اور حزب اقتدار کے درمیان سخت کشیدگی ہے اور حزب اختلاف کے بڑے رہنما کرپشن کے الزام میں جیلیں اور عدالتیں بھگت رہے ہیں۔ایل او سی پر باڑ لگانے کا کام کافی حد تک ہوچکا ہے اور ہندوستان عالمی سطح پر کسی حد تک رائے عامہ کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوچکا ہے کہ ہندوستانی کشمیر میں حالات پاکستان کی دراندازی کی وجہ سے خراب ہیں.علاقے کے دیگر چھوٹے ممالک سری لنکا ،بنگلہ دیش، مالدیپ، نیپال اور بھوٹان اپنے سربراہوں کی غلامی یا بھارتی غنڈہ گردی کی وجہ سے اعتراض کی ہمت نہیں رکھتے۔رہی سپر پاور چین تو اس کی مخالفت کو امریکی حمایت کے ذریعے دبادیا جائے گا۔امریکہ جس کے اعصاب پر چین سوار ہے اسے چین کے مقابلے میں بھارت کو کھڑا کرنے کے لیے بھارت کی ضرورت ہے۔باقی عالمی رائے عامہ اگر وقتی طور پر خراب بھی ہوئی تو اسے آہستہ آہستہ رام کرلیا جائے گا خصوصا جب اسرائیل بھی پشت پر کھڑا ہے۔ لیکن علاقے میں ایک اور بڑا خطرہ ہندوستان کی نیندیں اڑائے ہوئے ہے اور وہ ہے افعانستان۔طالبان امریکہ کامیاب مذاکرات اپنے آخری مرحلے میں ہیں۔پاکستان اہم کردار کے طور پر موجود ہے اور اس نے ہندوستان کو عملی طور پر باہر کردیا ہے۔سال ہا سال کی محنت، پیسہ ،نیٹ ورک، بلوچستان سے قربت اور افغانستان میں پاکستان مخالف حکومت سمیت سب اثاثے ضائع ہونے کو ہیں۔لیکن ان سب سے بھی بڑا خطرہ یہ کہ افغانستان کے بعد کشمیر ہی مسلم احیاء کی کوششوں کا مرکز بنے گا اور مجاہدین کی توجہ اس طرف مرتکز ہوجائے گی جیسا کہ روسی انخلاء کے بعد کچھ عرصے کے لیے ہوا تھا۔ یہ سب عوامل وہ ہیںجو مل کر مودی اور بی جے پی کو اس اقدا م کی طرف لے گئے ۔ہندو متعصب ذہن کی بات الگ لیکن عام طور پر آئینی اور سیاسی ماہرین نے اس اقدام کو ہندوستان کے لیے بھیانک اور غلط قرار دیا ہے۔آرٹیکل 370 اور35اے کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کی منظوری کے بغیر نہ ختم کیے جاسکتے ہیں اور نہ ان میں ترمیم کی جاسکتی ہے اورمقامی دستور ساز اسمبلی برسوں پہلے ختم کی جاچکی ہے چنانچہ آئینی ماہرین اور کشمیری تاریخ کے ماہرین کے مطابق درست بات تو یہ ہے کہ یہ تبدیلی آئینی طور پر آئی ہی نہیں ہے۔دوسرے یہ قدم سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے ۔ مودی حکومت اسے سپریم کورٹ سے جائز قرار دینے کے لیے ہر حربہ استعمال ضرور کرے گی ۔نیز یہ ججوں کی اپنی ذہنی ساخت پر بھی بہت منحصر ہے ۔ تاہم اس کا کافی امکان ہے کہ سپریم کورٹ اسے ختم کردے۔ کشمیریوں ، پاکستانیوں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے یہ ایک بڑا دھچکہ اور ایک بڑی آزمائش ضرور ہے ۔لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ ’ ’ انہوں نے اپنا مکر کیا اور اللہ نے اپنی چال چلی اور اللہ ہی سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے ‘‘ ۔اس کو علم ہے کہ کیا ہونے والا ہے ۔کیا عجب اسی شر سے خیر کا چشمہ پھوٹ پڑے ۔کیا پتہ یہی کشمیریوں کے حق میں بہتر ہوا ہو۔ممکن ہے ہم وہ نسل ہوں جو ا س قدم کے نتیجے میںہندوستان کی شکست و ریخت، کشمیر کی آزادی بلکہ پورے ہندوستان میں مسلمانوں کی آزادی اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کریں۔میں اقبال کا وہ شعر ذرا سی تبدیلی کے ساتھ یاد کر رہا تھا اگر’ ’ کشمیریوں ‘‘ پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے کہ خون ِصد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا