ذہنی معذور صلاح الدین قانون کی تحویل میں‘ قوم کے باوردی محافظوں کا ظلم سہتا۔ اس نظام کو منہ چڑاتا ہوا۔ تبدیلی کے نعرے لگانے والوں کو ٹھینگا دکھاتا۔ اس دنیا سے اگلے جہاں سدھار گیا۔ اس کا منہ چڑانا ‘ اس معاشرے کے فرعونوں‘ خود ساختہ خدائوں مدینہ کی ریاست کے نعرے لگانے والے حکمرانوں اور ستر سال سے اس ملک پر حکمرانی کرنے والی طاقتوں کو ایک آئینہ دکھانا تھا کہ لو یہ رہا تمہارا نظام۔ تمہارے انصاف کے معیار قانون‘ آئینی ضابطے اور قاعدے تمہاری پولیس ریفارمز اور تبدیلی کے جھوٹے خواب اور یوٹرنوں کے ڈھیر! آئینہ تو مگر وہ دیکھ سکتے ہیں جو بینا ہوں۔ یہ معاشرہ تو مجھے اندھا لگتا ہے۔ اندھے لوگ کیا آئینہ دیکھیں گے۔ لوگ آئینہ دیکھ کر سنورتے ہیں۔ آئینہ دیکھا ہی اس لئے جاتا ہے کہ دل میں سنورنے کی خواہش ہو۔ ہم آئینہ کیوں دیکھیں کہ ہمیں سنورنے کی کوئی خواہش نہیں ہم بکھرائو ‘ بے ترتیبی ‘ الجھائو اور بدصورتی کے عادی ہو چکے ہیں۔ اگر ہم اس بدصورتی اور بگاڑ کے عادی نہ ہوتے تو ہر شخص اپنی اپنی جگہ سنورنے کی کوشش کرتا۔ وہ آئینے میں خود کو دیکھتا اپنے رویوں اپنے معاملات کا جائزہ لیتا اور اپنی ذات میں موجود بگاڑ اور بدصورتی کو درست کرنے کی کوشش کرتا۔ صلاح الدین کا منہ چڑانا ایک طاقتور علامت کے طور پرہمیشہ ہمیں کچوکے لگاتا رہے گا۔ وہ اس معاشرے کو اس کی منافقت اور بدصورتی ظلم و ستم جبر اور بے حسی کی یاد دلاتا رہے گا۔ سوشل میڈیا پر صلاح الدین کے خلاف آواز اٹھانا اب ایک ٹاپ ٹرینڈ بن چکا ہے اس کی تصویروں کے سکیچ بن رہے ہیں۔ وہ منہ چڑا رہا ہے اور عقب میں انصاف مہیا کرنے والی سب سے بڑی عدالت کی تصویر ہے اس پر تشدد کی تصویریں وائرل ہو رہی ہیں لوگ اس ظلم کے خلاف سوشل میڈیا پر متحرک اور ہم آواز ہیں۔ ایسا ہی جذبہ ہمیں اس وقت بھی نظر آیا تھا جب قصور کی ننھی زینب کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی۔ اس ننھی گڑیا کے ساتھ زیادتی اور قتل پر لوگ ایسے ہی سراپا احتجاج تھے۔ اس کے قاتل کے لئے سرعام پھانسی کا مطالبہ کرتے رہے زینب کا غم زدہ باپ بھی سرعام پھانسی کا مطالبہ کرتا رہا لیکن معاشرتی دبائو سوشل میڈیا پر ایک ہائپ بننے کے بعد اس کے قاتل کو پھانسی تو دے دی گئی لیکن اس طرح سرعام نہیں کہ لوگوں کو عبرت ہوتی اور آئندہ کوئی بدبخت کسی کی زینب کی طرف بری نیت سے نہ بڑھتا۔ اس وقت اگر یہ فیصلہ کر لیتے تو پھر اگلے ایک سال کے دوران زینب جیسے بیسوں اور سانحے نہ ہوتے۔ یہی المیہ ہے ہمارے نظام کا۔اب بھی صلاح الدین کے لئے لوگ آواز اٹھا رہے ہیں سوشل میڈیا پر ایک ہائپ کری ایٹ ہو چکی ہے۔ وہ پولیس کی تحویل میں بدترین تشدد سے قتل کیا گیا۔ زیادہ سے زیادہ اس پر تشدد کرنے والے بدبختوں کو معطل کردیں گے۔ چند دن خبریں آئیں گی۔ پھر اللہ اللہ خیر صلا۔ پھر کوئی نیا سانحہ اگر اس قوم کو جگائے گا۔ پھر ہم ماتم کریں گے۔ سوشل میڈیا پر متحرک اور ہم آوازہو جائیں گے لیکن جو اہل اختیار ہیں وہ وہی کریں گے جو ہ خود چاہیں گے۔ یہاں کسی زمینی خدا کو اس سے سروکار نہیں کہ کسی مظلوم خاندان کو انصاف ملتا ہے یا نہیں۔ اہل اختیار و اہل اقتدار کے مسائل ہی کچھ اور ہیں۔ کیاصلاح الدین پہلا پاکستانی ہے جو ریاستی اداروں کے بہیمانہ ظلم اور جبر کا شکار ہوا۔ حالیہ چند دنوں میں پنجاب پولیس کے تشدد اور ظلم کا شکار ہونے والے کئی مظلوموں کی خبریں آئیں۔ جن پر قوم کے محافظوں نے قانون کی حفاظت اور تحویل میں جی بھر کر تشدد کیا۔ چمڑی ادھیڑی گرم سلاخیں لگائیں الٹا لٹکایا تشدد کے ناقابل بیان طریقے خوب خوب آزمائے کہ قانون کی حفاظت میں تشدد سہتا پاکستانی موت کی آسانی سے دوچار ہو گیا۔ذہنی معذور صلاح الدین کی خبر نے سوشل میڈیا کی توجہ حاصل کر لی لیکن عامر مسیح کے ساتھ ہونے والے ظلم کی کہانی ایسی توجہ حاصل نہ کر سکی۔ عامر مسیح لاہور کے ایک کالج میں مالی کا کام کرتا تھا اس پر چوری کا جھوٹا الزام لگایا گیا۔ الزام جھوٹا نہ ہوتا تووہ خود کو بے گناہ ثابت کرنے کے لئے علاقہ شمالی چھائونی کے تھانے میں خود چل کر جاتا۔ پولیس کی وردیوں میں بیٹھے ظالموں کے ہاتھ جیسے کوئی شکار آ گیا۔ خبر کے مطابق اسے اٹھا کر کسی فارم ہائوس پر لے جایا گیا۔ اور 10پندرہ لوگوں نے مل کر اس غریب پر تشدد کیا یوں ایک اور پاکستانی قانون کی حفاظت اور قوم کے محافظوں کی تحویل میں مار دیا گیا۔ عامر مسیح کا کیس بھی اتنی ہی اہمیت کا حامل ہے جیسے صلاح الدین کا کیس ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے سانحے ہونے کے بعد وہی روایتی سی کارروائیاں ہوتی ہیں۔ عامر مسیح کے کیس میں بھی جب مظلوم کے اہل خانہ نے دہائیاں ڈالیں تو آئی جی صاحب نے واقعے کا نوٹس لے کر متعلقہ اہلکاروں کو معطل کر دیا۔ اس قسم کی روایتی کارروائیوں کا نتیجہ ہے کہ ایسے سانحے بار بار ہوتے ہیں۔ سانحہ ساہیوال میں تو بچوں کے سامنے ان کے والدین کو قوم کے محافظوں نے گولیاں مار دیں تھیں۔ بھڑکیں لگانے والوں نے اس وقت بھی یہ بھڑک لگائی تھی کہ اس کو ٹیسٹ کیس بنائیں گے۔ اور ظالموں کو ان کے ظلم کی سزا ملے گی۔ ماں باپ کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتا دیکھنے والے تین معصوم بچے روز حشر ہی انصاف پاسکیں گے کم از کم اس ملک میں کمزور کو انصاف ملنا سوائے ایک جھوٹے اور کھوکھلے نعرے کے اور کچھ بھی نہیں۔ عمران خان دعوے کرتے تھے کہ ہم نیا پاکستان بنائیں گے جہاں غریب کو بھی انصاف ملے گا۔ امیر اور غریب کا ایک پاکستان ہو گا۔ ان دعوئوں کا جو حشر ان کی حکومت کے پہلے سال میں ہوا ہے۔ اس کے بعد ان کے بیانات سن کر ایک یہ شعر یاد آتا ہے ؎ نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں مظلوم صلاح الدین ہو یا عامر مسیح یا پھرکوئی اور مختلف ناموں والے ان گنت مظلوم پاکستانی جو اس ناانصافی کرپشن و بددیانتی اور یوٹرنوں پر مبنی نظام کے ہاتھوں قدم قدم پر ذلیل ہوتے۔ تشدد سہتے کبھی موت سے بدتر زندگی گزارتے اور کبھی موت کی آسانی سے دوچار ہوتے۔ پیچھے رہ جانے والوں کے سلگتے ہوئے سوال چھوڑ جاتے ہیں۔ خموشی کی زبان میں اپنے خالق سے بھی فیض کے الفاظ میں شکوہ کناں ہوتے ہیں۔ ربا سچیا توں تے آکھیا سی کدی ساروی لئی او رب سائیاں تیرے شاہ نال جگ کیہہ کیتیاں نیں کتے دھونس دھتکار سرکار دی اے کتے دھاندلی ملا پٹوار دی اے اینویں ہڈاں وچ کلپے جان میری جیویں پھا اچ کوبج کرلائو ندی اے چنگاشاہ بنایا ای رب سائیاں پولے کھاندیاں وار نہ آئوندی اے