اردو میں لکھنے والے بزدل ہیں یا بد دیانت؟ احباب ناراض نہ ہوں ، میں وضاحت کر دوں کہ ایک تو یہ سوال میرا نہیں ، یہ ممبئی اردو نیوزکے مدیر شکیل رشید کا ہے ۔ دوسرا اس کے مخاطب پاکستانی اہل قلم نہیں بلکہ بھارتی دانشور ہیں۔ شکیل رشید نے یہ سوال کشمیر میں ہونے والے بھارتی اقدامات کے تناظر میں اٹھایا ہے کہ اس ظلم پر اردو لکھنے والے گونگے کیوں ہو گئے؟ وہ بزدل ہیں یا بد دیانت۔ سوال میں البتہ معنویت اتنی ہے کہ آپ اسے میرا سوال بھی سمجھ سکتے ہیں اور آپ اس سوال کا مخاطب پاکستانی اہل قلم کو بھی قرار دے سکتے ہیں۔تو صاحب سوال یہ ہے کہ کشمیر پر خاموش رہنے والے اردو کے ادیب کیا بزدل اور بد دیانت ہیں؟ اشفاق احمد صاحب کے ایک افسانے میں مرکزی کردار ایک مظلوم کشمیری لڑکی کا ہے۔ اس کا نام شازیہ ہے۔ وہ اردو کے نامور ادیبوں کے پاس جاتی ہے اور انہیں کہتی ہے کہ آپ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر کچھ لکھتے کیوں نہیں۔ اس لڑکی کو آگے سے جواب ملتا ہے کہ ہمارا مذہب تو انسانیت ہے ، ہم تو صرف انسان دوستی پر لکھتے ہیں ، ہم سیاست پر نہیں لکھا کرتے ۔ چنانچہ یہ لڑکی ایسے ہی انکل سے جن کا مذہب انسانیت ہوتا ہے یہ سوال پوچھتی ہے کہ انکل کہیں آپ کو اس بات کا خوف تو نہیں کہ اگر آپ نے مظلوم کشمیریوں یا ستم رسیدہ افغانوں کے حق میں کچھ لکھا تو لوگ آپ کو مذہب پسند سمجھنے لگیں گے آپ کو تنگ نظر ، کوتاہ بین ، قدامت پسند ، اور بنیاد پرست کہہ کر روشن خیال دائروں میں آپ کا داخلہ بند کر دیں گے؟ ’انکل‘ جی نے تو اس سوال کا کیا جواب دینا تھا، جناب پروفیسر فتح محمد ملک اس کا جواب یوںدیتے ہیں کہ ’ پاکستان کے اردو ادیب واقعتا اس خوف میںمبتلا ہیں اور ان کا یہ عارضہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا کشمیر کا تنازعہ۔کشمیریوں کے مصائب سے ان کی غفلت اور فرار ایک پرانا عارضہ ہے۔اردو ادیب یہ سمجھتا ہے کہ بنیادی حقوق سے محروم کشمیری چونکہ مسلمان واقع ہوئے ہیں، اس لیے ان سے یگانگت کا دم بھرتے ہوئے، اس کی ترقی پسندی اور آزاد خیالی پر حرف آ جائے گا‘۔ فتح محمد ملک لکھتے ہیں ’’کہ اوپر سے میڈیا میں کشمیر کی تحریک مزاحمت کی جو تصویریں ابھرتی ہیں، اسے حریت پسندوں کی داڑھیوں نے ’’ خراب‘‘ کر رکھا ہے۔ اب ترقی پسند اور روشن خیال اہل قلم داڑھی والوں کے حق میں کیسے لکھیں۔ پروفیسر صاحب دعوت فکر دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ذرا سوچیں کہ داڑھی تو ان کے ہیرو جی گویرا کی بھی تھی مگر اسے وہ ’ اسلامی‘ نہیں ’ انقلابی‘ داڑھی سمجھتے ہیں‘‘۔ شاید یہی وجہ ہے کہ شروعات میں ہی جب ایم ڈی تاثیر صاحب نے ترقی پسند ادیبوں سے کشمیر کے حق میں بیان پر دستخط لینے چاہے تو فیض صاحب کے علاوہ تمام’ ترقی پسند‘ ادیبوں نے انکار کر دیا۔’ ترقی‘ کا کوئی مادی وجود ہوتا تو سر پیٹ لیتی اور منہ نوچ لیتی۔کیا قلندرانہ دعوی ہے، ترقی پسند۔اور وہ بھی بقلم خود۔ چنانچہ ممبئی اردو نیوز کے مدیر شکیل رشید سوال اٹھاتے ہیں کہ اردو کے ادیبوںاور دانشوروں کو کیا کبھی یہ احساس نہیں کہ بھارت میں زعفرانی لہر کے بعد کیا صورت حال ہے ، کشمیر میں پیلٹ گنوں سے کتنے لوگ نا بینا ہو گئے اور جب بات حق کہنے کی آتی ہے تو اردو کے دانشوروں کی زبانوں پر تالے کیوں پڑ جاتے ہیں اور زبان خشک کیوں ہو جاتی ہے۔ ممبئی اردو نیوزکے مدیر مزید لکھتے ہیں ’’ نہ جانے ہم اردو لکھنے والوں میں ایسے لوگ کیوں نہیں ہیں جوجھوٹ کو جھوٹ اور سچ کو سچ کہہ سکیں۔ اگر مسئلہ کشمیر پر ہماری زبانیں کھلتی بھی ہیں تو بڑی ہی احتیاط سے الفاظ نکلتے ہیں۔اردو کے قلم کارو! آپ کا قلم کب بولے گا ؟ آپ کی زبان کب کھلے گی؟ آپ کب افسانوں اور غزلوں اور نظموں کی دنیا سے باہر نکل کر حالات حاضرہ پر بھی کچھ لکھیں گے اور بولیں گے ‘‘۔ یہ اقتباسات میں نے ’ کشمیر : پانچ اگست 2019 کے بعد‘‘ سے نقل کیے ہیں ۔مسئلہ کشمیر کی مبادیات اور آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے ایک انتہائی اہم دستاویز ہے جسے شیبانی فائونڈیشن کے مراد علی صاحب اور منشورات کے سلیم منصور خالد صاحب نے شائع کیا ہے۔ اس میں پاکستان بھارت ، آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے اہل دانش کی تحریریں شامل ہیں۔سید علی گیلانی صاحب کے مضامین بھی اس کتاب کا حصہ ہیں۔ میں نے صرف اردو اہل قلم والا پہلو آپ کے سامنے رکھ دیا ورنہ مسئلہ کشمیر کے ہر پہلو پر اس کتاب میں سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔میرے بس میں ہو تو میں تمام پارلیمنٹیرینز کو یہ کتاب بھجوا دوں ۔ مجھے یقین ہے کہ اس کا مطالعہ انہیں کشمیر کے معاملے میں کما حقہ فہم عطا کر سکتا ہے۔ آخر میں شیخ عبد اللہ کی ایک تحریر کا اقتباس پڑھ لیجیے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب قائد اعظم سری نگر تشریف لائے تو وہ میری باتوں سے خوش نہیں تھے مگر انہوں نے کمال صبر سے مجھے سنا اور ایک مرد بزرگ کی طرح فہمائش کے انداز میں کہنے لگے: ’’میں نے اپنے بال سفید کیے ہیں۔ میرا تجربہ ہے کہ ہندو قیادت پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کبھی آپ کے دوست نہیں بن سکتے۔میں نے زندگی بھر ان کو اپنانے کی کوشش کی،لیکن مجھے ان کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیابی نہیں ہو سکی۔ وقت آئے گا جب آپ کو میری بات یاد آئے گی اور آپ افسوس کریں گے‘‘۔ اتفاق دیکھیے کہ انہی شیخ عبد اللہ کے صاحبزادے ڈاکٹر فاروق عبد اللہ بعد میں یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ : ’’ہم نے کانگریس پر اعتبار کر کے غلطی کی‘‘۔ شیخ عبد اللہ لکھتے ہیں کہ قائد اعظم بمبئی میں اپنی اہلیہ کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے کہ ایک ملاقاتی کا کارڈ اندر آیا۔ یہ پنڈت مدن موہن مالویہ کا تھا۔ قائد اعظم کھانے کی میز سے اٹھ کر گئے اور انہیں اندر لائے۔ جب وہ میز پر بیٹھ گئے تو انہیں کھانے میں شرکت کی دعوت دی۔مالوی جی نے انکار کر دیاکہ میں مذہبی وجوہات کی بنیاد پر آپ کے ساتھ کھانا نہیں کھا سکتا۔ قائد اعظم نے کہا آپ ساتھ والی میز پر بیٹھ کر کھا لیں۔ مالوی جی نے کہا یہ بھی ممکن نہیں کیونکہ نیچے قالین تو ایک ہے اور اس کے ذریعے چھوت آ سکتی ہے۔چنانچہ آداب میزبانی کو نبھاتے ہوئے قائد اعظم نے قالین ہٹوا دیا اور الگ میز پر انہیں میوے اور دودھ پیش کیاگیا۔ شیخ عبد اللہ لکھتے ہیں کہ اس واقعے کا ذکر ہوا تو قائد اعظم نے مجھ سے پوچھا ’’ جس قوم کے برگزیدہ لیڈروں کا یہ حال ہو وہ آپ کو کیسے جینے دیں گے‘‘۔ کشمیر پر اکثر لگی بندھی روایتی باتیں لکھی جاتی ہیں لیکن یہ کتاب ایک ایسی دستاویزہے جس کا ہر باب آپ کو ایک نئے زاویے سے سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔میں اس قیمتی دستاویز کی اشاعت پر برادرم مراد علی اور جناب سلیم منصور خالد کا شکر گزار ہوں۔