90کی دہائی کے اوائل میںتعلیم اور روزگار کی تلاش میں جب میں وارد دہلی ہوا، تو ایک روز معلوم ہوا،کہ کانسٹی ٹیوشن کلب میں ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی طلبہ ونگ اکھل بھارتیہ ودھیارتی پریشد کی طرف سے کشمیر پر مذاکرہ ہو رہا ہے۔ بطور سامع میں بھی حاضر ہوگیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سلجھے ہوئے اور اعتدال پسند مانے جانے والے لیڈر ارون جیٹلی خطاب کر رہے تھے۔ وہ ان دنوں ابھی بڑے لیڈروں کی صف میں نہیں پہنچے تھے اور تب تک سپریم کورٹ کے زیرک وکیلوں میں ہی شمار کئے جاتے تھے۔ چونکہ وہ مقتدر ڈوگرہ کانگریسی لیڈر گردھاری لال ڈوگرہ کے داماد ہیں، اسلئے جموں و کشمیر کے ساتھ ان کا تعلق بنتا ہے۔ اپنے خطاب میں جیٹلی صاحب کا شکوہ تھا کہ پچھلے 50برسوں میں مرکزی حکومتو ں نے کشمیر میں غیر ریاستی باشندوں کو بسانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اگر بھارت کے دیگر علاقوں سے لوگوں کو کشمیر میں بسنے کی ترغیب دی گئی ہوتی ، اور اسکی راہ میں قانونی اور آئینی پیچیدگیوں کو دور کیا جاتا، تو کشمیر کا مسئلہ کبھی بھی سر نہیں اٹھاتا۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیریت اور کشمیری تشخص کو بڑھاوادینے سے کشمیری نفسیاتی طور پر اپنے آپ کو بر تر اور الگ سمجھتے ہیں اور بھار ت میں ضم نہیں ہو پاتے ہیں۔ اسی طرح مجھے یاد ہے کہ من موہن سنگھ کی وزارت عظمیٰ کے دور میں ایک بار پارلیمان میں کشمیر پر بحث ہو رہی تھی۔ اپوزیشن بی جے پی نے اتر پردیش کے موجودہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو بطور مقرر میدا ن میں اتارا تھا۔ تقریر ختم کرنے کے بعد وہ پارلیمنٹ کمپلیکس کے سینٹرل ہال میں آکر سوپ اور ٹوسٹ نوش کررہے تھے، کہ میں نے جاکر ان سے کہا کہ ’’آپ نے بڑی دھواں دھار تقریر کرکے حکومت کے چھکے تو چھڑائے، مگر کوئی حل پیش نہیں کیا۔‘‘ یوگی جی نے میر ی طرف دیکھ کر مسکرا کر کہا کہ ’’اگر میں حل پیش کرتا تو ایوان میں آگ لگ جاتی۔‘‘ میں نے پوچھا کہ’’ ایسا کون سے حل ہے کہ جس سے دیگر اراکین پارلیمان بھڑک جاتے؟‘‘ یوگی مہاراج نے فلسفیانہ انداز میں اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کھنگالنا شروع کی، اور نتیجہ اخذ کیا کہ مسلمان جہاں بھی اکثریت میں ہوتے ہیں یا ان کی آبادی کچھ زیادہ ہوتی ہے، تو جہادی، جھگڑالو اور امن عامہ کیلئے خطرہ ہوتے ہیں۔ ایک طویل تقریر کے بعد یوگی جی نے فیصلہ صاد ر کر دیا کہ مسلمانو ں کی آبادی کو کسی بھی معاشرہ میں پانچ فیصد سے زیادہ نہیں بڑھنے دینا چاہئے۔ اسلئے بھارت اور دیگر تمام ممالک کو مسلمانوں کی آبادی کو کنٹرول کرکے طریقے ڈھونڈنے چاہئیں۔ ا ن کو مختلف علاقوں میں بکھرا کر اور ان کی افزائش نسل پر پابندی لگا کر ہی دینا میں امن و امان قائم ہوسکتا ہے۔ بس یہی مسئلہ کشمیر کا حل ہے۔’’ وہاں کی آبادی کو پورے بھارت میں بکھرا کر وہاں بھاری تعداد میں ہندو آبادی کو بسایا جائے۔‘‘ ان دوواقعات کو بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ معلوم ہو کہ کس ذہنیت کے افراد اس وقت بھارت میں تخت پر برا جماں ہیں۔ بھارت میں اسوقت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) جب سے وجود میں آئی ہے، وہ لگا تار تین نکاتی ایجنڈہ پر انتخابات لڑتی آئی ہے۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر، یونیفار سول کورڈ کا نفاذ اور کشمیر کی آئینی خصوصی حیثیت ختم کرنا۔ گو کہ اس سے قبل بی جے پی دوبار اقتدار میں رہی ہے، مگر دونوں بار اس نے اپنے اتحادیو ں کی وجہ سے ان تین ایشوز کو عملی جامہ پہنانے سے احتراز کیا۔ اب جب2019ء میںبھارتی ووٹروں نے قطعی اکثریت کے ساتھ انکو اقتدار میں واپس بھیجا، تو بی جے پی کے لیڈران کا کہنا ہے کہ ان کے کور ایجنڈہ کو نافذ کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ 2014 ء میں جب کشمیر میں مقامی پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ (پی ڈی پی) اور بی جے پی کے اتحاد سے مفتی محمد سعید کی حکومت تشکیل پائی تھی، تو بتایا گیا تھا کہ بی جے پی بھارتی آئین کی دفعہ 370 کے تحت کشمیر کو دیئے گئے خصوصی اختیارات کو موضوع بحث نہیں لائے گی۔ بظاہر یہ وعدہ ایفا تو ہوا مگر چور دروازے سے بی جے پی کی مربی تنظیم آر ایس ایس سے وابستہ ایک تھنک ٹینک اور ان کے اپنے ہی ایک عہدیدار نے الگ الگ کورٹ میں رٹ دائر کی۔ آر ایس ایس کی تھنک ٹینک نے دفعہ 370 کے بدلے دفعہ 35 اے کو نشانہ بنایا گیا اور عدالت نے یہ پٹیشن سماعت کے لئے منظور بھی کر لی ۔ اسی دفعہ کے تحت ریاستی قانون ساز اسمبلی کو خصوصی اختیارات حاصل ہیں اور اسی قانون کی رو سے ہی جموں و کشمیر میں غیر ریاستی باشندوں کے نوکری حاصل کرنے، ووٹ دینے اور جائیداد خریدنے پر پابندی عائد ہے۔ اگر یہ دفعہ ختم کر دی گئی تو اس کے نتائج دفعہ 370 کے خاتمے سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے۔ مسلم دشمنی اور متعصب ذہنیت کے حامل افراد کو بھارتی آئین کی اسی طرح کی اور شقیں نظر نہیں آتیں جو دیگر علاقوں یعنی ناگالینڈ، میزورم، سکم، اروناچل پردیش، آسام، منی پور، آندھرا پردیش اورگوا کو خاص اور منفرد حیثیت عطا کرتی ہیں اور وہاں بھی دیگر بھارتی شہریوںکو غیر منقولہ جائدادیں خریدنے پر پابندی عائد ہے یا اس کے لئے خصوصی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔اور تو اور بی جے پی کے جس عہدیدار نے جموں و کشمیر کی جموں بینچ کے سامنے دفعہ 370کو چیلنج کیا، وہ اسوقت جموں و کشمیر کے گورنر کے مشیر ہیں۔ فاروق خان پولیس کی نوکری سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد بی جے پی میں شامل ہوگئے۔ مارچ 2000ء میں جنوبی کشمیر میں دہلی میں امریکی صدر بل کلنٹن کی آمد پر سکھوں کے قتل عام کے بعد پیش آنے والے واقعات کیلئے ایک عدالتی کمیشن نے ان کو ذمہ دار ٹھہرا کر ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کی تھی۔ (جاری ہے)