زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے پالیسیوں کے شیش محل کھڑے کرنا ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ بلکہ المیہ ہے۔ سرکار سے لے کر نجی اداروں تک‘ سکولوں سے لے کر دفاتر تک‘اصل اور بنیادی حقیقتوں کو نظر انداز کر کے پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عملی میدان میں مریخ پر بنی ہوئی پالیسیاں کارگر ثابت نہیں ہوتیں۔ ایسی صورت حال پر شاید کسی نے یہ شعر کہا ہو گا: ؎ تم آسماں کی بلندی سے جلد لوٹ آنا مجھے زمین کے مسائل پہ بات کرنی ہے سو آج کے کالم میں میں بھی مریخ پر بیٹھ کر پالیسیاں بناتی ہوئی مخلوق کے گوش گزار چند زمینی مسائل کرنا چاہتی ہوں یہ استدعا کہ خدا کے لئے حکم صادر فرماتے ہوئے حالات و واقعات کی اصل تصویر دیکھا کریں۔ ہماری سیاست کے کاروبار میں بھی یہ ایک عمومی رویہ ہے۔ زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے کسی خیالی جنت میں بیٹھ کر‘ کروڑوں نوکریوں اور لاکھوں گھروں کے وعدے کر لئے جاتے ہیں۔ تقریروں میں ایسے ایسے دعوے کئے جاتے ہیں جن کا سچ اور حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ حال ہی میں وزیر اعظم نے کورونا ریلیف فنڈ کا اعلان کیا۔ ناداروں اور ضرورت مندوں کو رجسٹر ڈکرنے کے لئے جو طریقہ کار وضع کیا گیا ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے ضرورت مندوں کے لئے پالیسی بنانے والے لوگ ہیں جن کا پاکستان کے زمینی حقائق سے کبھی واسطہ تعلق رہا ہی نہیں۔ غریب ‘نادار ‘دیہاڑی دار ‘مزدور اس آسمانی مخلوق نے یا تو تصویروں میں دیکھے ہیں یا پھر فلموں‘ ڈراموں میں۔ حقیقی زندگی میں یہ پاکستان کے غریب شہریوںکے مسائل سے ناواقف ہیں۔ پالیسی بنانے والوں نے خود سے ہی assumeکر لیا کہ ملک کے تمام ناداروں اور غریبوں کے پاس شناختی کارڈ بھی موجود ہے اور ایک عدد سیل فون بھی ہے۔ سو شناختی کارڈ پر ان کی رجسٹریشن ہو گی اور ان کے سیل فون پر سرکار کی طرف سے انہیں خوشخبری کا پیغام بھیجا جائے گا کہ مبارک ہو آپ کورونا ریلیف فنڈ کے مستحق قرار پائے ہیں۔ زمینی حقائق سے نابلد ٹیم نے کم از کم سات افراد کے ایک غریب گھرانے کو ماہانہ 4ہزار کی خطیر سرکاری رقم دینے کی پالیسی بنائی ہے۔غریب اس 4ہزار میں سے اپنے گھر کا کرایہ بھی دے گا بجلی اور گیس کا بل بھی جمع کرائے گا۔ اگر اس کے بچے سکول پڑھتے ہیں تو ان کی فیسیں بھی ادا کرے گاتین وقت کھانے پینے کا بندوبست بھی کرے گا۔ بیمار ہوا تو اسی 4ہزار روپے میں سے اپنے دوا دارو پر بھی لگائے گا اور یہ 4ہزار اس کے لئے ایسی جادوئی رقم بن جائیں گے جو اس کے ہر دکھ‘ درد‘ ضرورت‘ خوشی غمی میں اس کے کام آئیں گے۔ وزیر اعظم صاحب سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اتنی رقم میں ایک غریب خاندان پورا مہینہ گزارے گا توجواب دیا کہ انہیں چار مہینوں کی رقم اکٹھی دے دیں گے جو کہ پورے مبلغ بارہ ہزار روپے بنتی ہے۔ اب آپ اس جواب پر کیا سوچیں گے یا تو حکمران بہت سادہ ہیں یا پھر عیّار۔ لفظوں کے گورکھ دھندے سے عوام کو بہلانے پھسلانے اور ورغلانے کے طور طریقے اس بدترین بحران میں بھی وہی ہیں افسوسناک صورت حال ہے کہ اشرافیہ کا عام آدمی کے مسائل سے چونکہ واسطہ ہی نہیں پڑتا تو وہ کیسے اس کے حل کی پالیسی مرتب کر سکتا ہے۔ چند ہفتے پہلے 92نیوز کے میگزین میں رسول بخش رئیس کا انٹرویو تھا۔ موصوف اپنے وسیع عریض فارم ہائوس میں بیٹھے یہ انٹرویو دے رہے تھے۔ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ مہنگائی اتنی نہیں ہے۔ آج کل سبزیاں سستی ہیں۔دوسو روپے میں پانچ افراد پر مشتمل گھرانہ آرام سے کھانے کا بندوبست کر سکتا ہے۔ کار سرکار بھی ایسے ہی مریخ سے آئے ہوئے پالیسی میکرز کے ہاتھ میں ہے‘ جنہیں اصل حقیقتوں کا اندازہ نہیں ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے چائے اور کافی کا ایک وقت کا بل چار ہزار سے زیادہ ادا کرتے ہیں مگر غریب شہر کے بارے میں یہی گمان رکھتے ہیں کہ وہ چار ہزار روپے میں پورا مہینہ گزار سکتا ہے۔ کورونا ریلیف فنڈ میں وزیر اعظم عمران خان عوام سے چندے کی اپیل کرتے ہوئے ایک بار پھر تلخ زمینی حقائق کو نظر انداز کر بیٹھے ہیں۔سچی بات تو یہ ہے کہ قرض اتاروں ملک سنواروں سے لے کر ڈیم فنڈ تک عوام کی جیبوں سے نکالا گیا پیسہ اگر شفاف طریقے سے انہیں مقاصد پر استعمال ہوتا تو شاید آج عوام وزیر اعظم کی بات پر کان بھی دھرتے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اہل اختیار نے ملک کے خزانوں اور وسائل سے اپنی جیبیں بھرنے کے ساتھ ساتھ غریب عوام کی جیبوں پر بھی ڈاکہ ڈالا۔ ناجائز خفیہ ٹیکسوں کی مد میں بھی ایسے فنڈز کی جبری کٹوتی۔ کورونا ریلیف فنڈ کے لئے گریڈ ایک اور دو کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے بھی کٹوتی کی جائے گی۔ کون نہیں جانتا کہ گریڈ ایک اور دو میں کام کرنے والے غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد ہی ہیں۔ نائب قاصد ‘چپڑاسی ‘سرکاری خاکروب جن کی ماہانہ تنخواہیں 17سے 20ہزار کے درمیان ہوں گی اور ان کے ساتھ جڑے ہوئے ان کے پورے خاندان ‘اتنے پیسوں میں کرائے‘ بل‘ تعلیمی اخراجات اور کھانے پینے کے لوازمات اور اخراجات اسی اٹھارہ بیس ہزار سے ادا کرتے ہیں اور یہاں حالات یہ ہیں کہ جس روز وزیر اعظم صاحب بیان صادر فرماتے ہیں کہ مصنوعی مہنگائی برداشت نہیں کی جائے گی اس سے اگلے روز تمام اشیا کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ آٹا ناپید ہو رہا ہے۔ دالیں ‘ گھی‘ چینی ‘ مارکیٹ میں شارٹ ہیں اور من مانی قیمت پر فروخت ہو رہی ہیں۔انہیں پالیسیاں بناتے ہوئے زمینی حقائق سے چنداں غرض نہیں۔!