فریدون سیٹھنا دنیا سے رخصت ہوئے۔ وہ کمال کے گائنا کولوجسٹ تھے۔ پاکستان میں طب کے شعبے کا بڑا نام تھے۔ وہ اپنی ذات میں ایک شخصیت نہیں ادارہ تھا۔ لیکن ان کا نام اس وقت میڈیا کی زینت بنا جب گنجان آباد پرانے شہر کراچی میں متوسط طبقوں کے لئے مخصوص لیڈی ڈیفرن ہسپتال میں بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی۔ بے نظیر کے ہاں مقررہ وقت سے پانچ ہفتے قبل جب بچے کی جان بچانے کے لئے آپریشن سے ولادت ضروری ہوگئی تھی۔ بے نظیر بھٹو اس وقت ڈاکٹر سیٹھنا کے زیر علاج تھیں۔ وہ وقت ایسا لگتا ہے کل ہی کی بات ہے۔ جب لیڈی ڈیفرن ہسپتال کے ڈاکٹر شوکت ہارون بلاک کے باہر نومولود کی نانی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرمین بیگم نصرت بھٹو نے پرمسرت لہجے اور چہرے پر والہانہ مسکراہٹ کے ساتھ اخباری رپورٹرز سے گفتگو میں بتایا کہ یہ خوشی بھی ہمیں اچانک ملی ہے۔ ابھی چار پانچ ہفتہ باقی تھے۔ ہر دوسرے تیسرے روز بے نظیر طبی معائنے کے لئے آتی تھیں، منگل کی رات کو بھی ہم معائنے کے لئے آئے تھے، ڈاکٹر نے یہ کہہ کر پریشان بھی کردیا اور ہمیں ہسپتال میں روک لیا کہ اب ضروری ہوگیا ہے کہ آپریشن کرکے بچے کی جان بچائی جائے۔ نصرت بھٹو بتا رہی تھیں کہ میں اللہ تعالیٰ کی بہت شکر گزار ہوں اور خوش بھی۔ کہ بھٹو خاندان کو پہلا لڑکا ملا ہے۔ اس سے پہلے ہمارے ہاں تینوں لڑکیاں ہوئی ہیں۔ میر مرتضیٰ کے ہاں فاطمہ ہوئیں۔ شاہنواز بھٹو کے ہاں بیٹی سسی ہوئی اور صنم کے ہاں آزادی۔ یہ نومولود نہ صرف بھٹو خاندان کا پہلا لڑکا ہے۔ بلکہ پاکستان میں پیدا ہونے والا بھی پہلا لڑکا ہے۔ اس سے پہلے تینوں لڑکیاں بیرون ملک پیدا ہوئی ہیں۔ بیگم بھٹو کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا۔ انہوں نے کہاکہ میرے لئے لڑکے اورلڑکی کا کوئی فرق نہیں۔ کیونکہ بے نظیر بھٹو نے لڑکی ہوتے ہوئے لڑکوں سے زیادہ کام کیا ہے۔ آصف زرداری بیٹے کی پیدائش پر بہت خوش تھے۔ وہ اخبار نویسوں کے سامنے تو نہیں آئے۔ ان کی ساس بیگم نصرت بھٹو نے بتایا کہ آصف رات کو سویا بھی نہیں ہے۔ اس کی شیو بڑھی ہوئی ہے۔ بیٹے کی ولادت پرخوشی سے نہال ہے۔ لیکن آپ سے ملنے نہیں آئے گا۔ نومولود بچے کے کان میں اذان آصف علی زرداری نے دی۔ اس وقت بچے کے دادا حاکم علی زرداری بھی موجود تھے۔ بے نظیر کے لئے 21 کا ہندسہ نیک شگون تھا۔ وہ خود 21 جون 1953ء کو فیملی ہسپتال میں پیدا ہوئی تھیں اور ان کے بیٹے کی ولادت 21 ستمبر کو ہوئی۔ بچے کا وزن سات پونڈ تھا۔ جب فوٹو گرافروں سے بیگم بھٹو سے بچے کی تصویربنانے کی درخواست کی تو بیگم بھٹو نے کہاکہ کیونکہ اسے قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔ اس لئے فی الحال یہ ممکن نہیں ہوگا۔ میرا بھی دل چاہ رہا ہے کہ بچے کو اٹھائوں، سینے سے لگائوں، لیکن میں ابھی تک اسے اپنے ہاتھوں سے چھو نہیں سکی ہوں۔ دور سے دیکھا ہے۔ بہت خوبصورت ہے۔ بہت پیارا ہے۔ اس موقع پر ڈاکٹر سیٹھنا سے چند منٹ کی ملاقات رہی۔ انہوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ بے نظیر بھٹو اور ان کا نومولود بیٹا دونوں خیریت سے ہیں۔ آج میں سوچ رہا ہوں کہ اس وقت خوشی سے نہال نصرت بھٹو ہم میں نہیں۔ خود بے نظیر اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ حاکم علی زرداری بھی اپنے رب کے سامنے پیش ہوگئے اور آج یہ دلخراش خبر سنی کہ ملک کے قابل فخر گائنا کولوجسٹ ڈاکٹر فریدون سیٹھنا نے بھی اس دنیا سے منہ موڑ لیا۔ ڈاکٹر سیٹھنا بڑے منکسر المزاج انسان تھے۔ بلاول کی ولادت کے بعد میں نے ان کا تفصیلی انٹرویو لینے کی خواہش ظاہر کی تو ڈاکٹر صاحب کہنے لگے۔ اگر میرے پیشے کے حوالے سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں تو ٹیلی فون پر دریافت کرلیں۔ پھر اس سلسلے میں نے ڈاکٹر پروین کا نجی سے مدد لی۔ وہ اس وقت آغا خان ہسپتال میں ایک ممتاز گائنا کولوجسٹ تھیں۔ کئی حوالوں سے ہمارا ان سے تعظیم اور محبت کا رشتہ تھا۔ انہوں نے ڈاکٹر صاحب سے بات کی تو انہوں نے اگلے دن کا وقت دے دیا۔ ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی تو عاجز اور حلیم الطبع دکھائی دیئے۔ بے پناہ شہرت اور اپنے شعبے میں ایک قیمتی اثاثہ ہونے کے باوجود انکساری ان کی شخصیت کا سب سے نکھرا ہوا روپ تھا۔ ڈاکٹر صاحب فرٹیلٹی کلینک کے کلینکل ڈائریکٹر تھے۔ وہ رائل کالج آف گائنی اینڈ اوپیٹیٹرک کے فیلو تھے۔ انہوں نے انگلستان اور اسکاٹ لینڈ میں اس شعبے میں جدید اور اعلیٰ تربیت حاصل کی۔ وہ لیڈی ڈیفرن ہسپتال کراچی کے سابق میڈیکل سپرنٹنڈنٹ بھی رہے۔ یہ انہی دنوں کی بات ہے۔ جب بلاول بھٹو پیدا ہوئے تھے۔ ان کی شاندار کارکردگی پر حکومت نے انہیں ستارہ امتیاز سے نوازا تھا۔ انہوں نے کراچی میں اپنی پریکٹس کے ساتھ ساتھ بانچھ پن کے علاج اور جدید ادویات کے حوالے سے قابل قدر کام کیا تھا۔انہوں نے بچوں کی پیدائش میں پیش آنے والی پیچیدگیوں، بعض بیماریوں میں مبتلا خواتین کو دوران زچگی پیش آنے والے مسائل ، بعض خاندانوں میں معذور بچوں کی پیدائش کی وجوہات اور پیدائش کے وقت مختلف بیماریوں میں مبتلا بچوں کے علاج اور مختلف ادویات پر قابل قدر تحقیق کا کام کیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا تھا کہ اب دنیا میں اتنی ریسرچ ہوچکی ہے کہ بانچھ پن کی تمام وجوہات پر بآسانی قابو پایا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب خود سینکڑوں نہیں، ہزاروں مایوس خاندانوں کے لئے گزشتہ پانچ دہائیوں سے ایک امید تھے۔ وہ IVF کے ذریعے ماں اور باپ کے تولیدی مادے میں بچے کی پیدائش کے تمام ضروری ایجنٹس شامل کرکے بانچھ پن میں مبتلا عورت کو ماں بننے کی خوشخبری سنانے کا وسیلہ بن گئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب سے انٹرویو میں ان کی زندگی، خاندانی پس منظر، تعلیمی مدارج طے کرنے کے تجربات، زندگی کے نشیب و فراز وقت کے اتار چڑھائو، فیملی لائف غرض یہ ایک طویل انٹرویو تھا، جو نوائے وقت کے صفحات کی زینت بنا،ڈاکٹر صاحب سے اس کے بعد بھی کئی بار ملاقاتوں کا موقع ملا۔ کبھی میں نا امید جوڑوں اور ڈاکٹر صاحب کے درمیان رابطوں کا وسیلہ بنا اور کبھی ڈاکٹر صاحب کے دوستوں کی محفل میں خصوصاً ہمارے قابل قدر دوست بہرام آواری صاحب کے ساتھ ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل رہا۔ وہ بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ دھیمے انداز، پرجوش اور روا دار انسان تھے۔ آج ان کے انتقال کی خبر سن کر پرانی یادیں اْمڈنے لگیں۔ سچ مچ ڈاکٹر صاحب ایک لیجنڈ تھے۔ ہم ان کی خدمات کا اعتراف کرسکتے ہیں۔ انہیں یاد کرسکتے ہیں۔ کیونکہ وہ وہاں چلے گئے۔ جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔