پاکستان سے باہر رہ کر جب اپنے ملک کے مستقبل, اداروں اور جمہوریت, عدلیہ, سیاست,معیشت, عسکری اور سول لیڈرشپ کا دوسرے ملکوں سے موازنہ کریں تو مایوسی, ناامیدی اور تاریکی نظر آتی ہے۔ عمران خان فیکٹر کے پاکستان میں داخل ہونے کے بعد تو یہ حقیقت اور بھی اجاگر ہوگئی ہے۔ پاکستان کی موجودہ عدلیہ, مقننہ, عسکری لیڈرشپ, میڈیا اور کرپٹ ترین سسٹم کی موجودگی میں کسی کا احتساب نہیں ہوسکتا نہ ہی پارلیمانی نظام اور جمہوریت مضبوط ہوسکتی ہے۔ افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ نظریہ ضرورت اور انتقام کے تحت فیصلے ہورہے ہیں اور یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ ہم ایک کمپرومائزڈ قوم ہیں۔ پھر سوال یہ بھی ہے کہ عمران خان ناکام ہوا ہے یا ہم پاکستانی من حیث القوم ناکام ہوئے ہیں۔ ہم جو تبدیلی کے خواب دیکھ رہے تھے اس کا مرکز و محور تو عمران خان ہی تھا اس میں اچانک بریک کیس نے لگائی؟ عمران خان کی طرح ہمیں پچھلے ساڑھے تین سال میں ان سارے عوامل اور خرابیوں کا ادارک تو کم از کم ہوگیا ہے کہ خرابی کہاں ہے۔ عمران خان نے ان خرابیوں کو حل کرنے کیلئے کوشش تو ضرور کی ہو گی مگر وہ شاید بے بسی کی وجہ سے کچھ زیادہ نہیں کرسکے۔ تعفن زدہ ناسور, بدعنوان اور کسی حد تک لا علاج مرض کی تشخیص تو کم از کم ہوگئی ہے۔ کہتے ہیں مرض تشخیص ہوجائے تو علاج مشکل نہیں۔ ساری قوم کو پتہ تو چل گیا ہے کہ نسل در نسل موروثی, خاندانی اور کرپٹ نظام میں بریک تھرو کرنا کتنا مشکل ہے۔ ہمارے ملک کی مافیا ایک چین آف کمانڈ ہے۔ ہماری قومی لیڈرشپ اور وہ سب لوگ بے نقاب تو ہوئے جن کے ہاتھوں میں اس ملک کی باگ ڈور ہے ۔آج بچہ بچہ وہی کہہ رہا ہے جو عمران خان کہہ رہا ہے سازش تھی یا مداخلت۔ ایک عوامی حکومت کا دھڑن تختہ اچانک کیسے ہوا۔ کوئی تو ہے جس نے یہ آگ لگائی ۔ صورتحال بڑی خطرناک ہے۔ اسلام آباد سے خیبر تک کراچی تا واشنگٹن اور یورپ کی گلی محلوں کی سڑکیں بلاک ہورہی ہیں ہمارے اداروں کی عزت کی ایسی تیسی ہورہی ہے۔ بچے بوڑھے نوجوان اور خواتین بیک زبان ایک ہی بات کہتے ہیں امپورٹڈ حکومت نامنظور،امریکہ کی غلامی نامنظور۔ خدانخواستہ ایمرجنسی لگ جاتی ہے فوج اقتدار سنبھال لیتی تو عوام کا ردعمل اتنا شدید شاید نہ ہوتا ہمارا ملک بدنام نہ ہوتا۔ قوم میں مایوسی نہ بڑھتی۔ میڈیا میں بیٹھے ہوئے بعض لوگ مراعات یافتہ پلاٹوں اور لفافوں کے رسیا بعض صحافی اور بعض خود ساختہ اینکر,یوٹیوبرز میڈیا مالکان عمران کے بغض اور حسد میں پاکستان میں اس کے عوامی جلسے جلسوں میں بڑھتی تعداد کو بھی فوٹو شاپ کا کمال کہہ رہے ہیں۔ اندھا دھند سفید چورن کو دن کی روشنی میں کالا کر کے فروخت کررہے ہیں۔ عمران خان کی بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت کو امریکہ مخالف بیانیہ قرار دے رہے ہیں۔ دنیا بھر میں ہونے والے یہ مظاہرے لندن برسلز واشنگٹن پھر ہر شہر میں عمران خان حکومت کی حمایت میں یہ عام پاکستانیوں کے مظاہرے کس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ عوام تبدیلی چاہتے ہیں نہ کہ وہی گھسے پٹے آزمودہ چہروں کو جوڑ توڑ , پکڑ دھکڑ کر ایک ڈھانچہ کھڑا کر دیا جائے یہ ہمارے آئین قانون اور عدالت و انصاف کی توہین ہے ۔ باپ وزیراعظم اور بیٹا وزیراعلیٰ بن جاتا ہے یہ کیا کسی بولی ووڈ لولی ووڈ کی فلم کا اسکرپٹ نہیں ہے باہر کی دنیا میں آباد پاکستانی اپنے ہی ملک کے سفارت خانوں کے باہر مظاہرے کررہے ہیں۔ ہمارے لئے تو پاکستانی سفارتخانے ہی پاکستان ہیں ۔پاکستانی جو اپنے ملک کی مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور پاکستان کے وسیع تر مفادات کا ہمیشہ ہر پلیٹ فارم پر ہر محاذ پر تحفظ کرتے ہیں وہ آج مایوس ہیں اور اپنے غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں۔ پاکستان کی چار نسلیں مغربی اثر و رسوخ کے خلاف جدوجہد کرتے کرتے اپنی خوا ہشات کا خون بیچارگی کے ہاتھوں قبول کرچْکیں۔ بھٹو کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ عوام میں پھر پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ اور حقیقی آزادی کی امید اور تحریک نے جنم لیا ہے۔ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ مملکتِ خدا داد پاکستان، مسلمانان برصغیر کی عظیم جدوجہد اور لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آئی۔ علامہ اقبال رح کا خواب اور قائد اعظم رح کا تصورِ پاکستان ایک ایسی آزاد مملکت کا قیام تھا جو خود مختار ہو، جہاں حقیقی جمہوری نظام قائم ہو؛ معاشی مساوات، عدل و انصاف، حقوقِ انسانی کا تحفظ، قانون کا احترام اور اَمانت و دیانت جس کے معاشرتی امتیازات ہوں؛ جہاں حکمران عوام کے سامنے جواب دہ ہوں؛ جہاں فوج آزادی و خود مختاری کی محافظ ہو؛ جہاں عدلیہ آزاد اور خود مختار ہو اور جلد اور سستے انصاف کی ضامن ہو۔ جہاں کی بیورو کریسی عوام کی خادم ہو۔ جہاں کی پولیس عوام کی محافظ ہو۔ الغرض یہ ملک ایک آزاد، خود مختار، مستحکم، اِسلامی، فلاحی ریاست کے قیام کے لئے بنایا گیا تھا، لیکن آج ہمارا حال کیا ہے؟ عمران خان کو ختم کیا جارہا ہے اس کی کردار کشی کی جائے گئی فارن فنڈنگ کیس چلایا جارہا ہے اس کی پارٹی کو بلیک لسٹ کیا جاسکتا ہے اسے جیل ڈالا جاسکتا ہے لیکن جو شمع اس نے جلائی ہے جو امید اس نے جگائی ہے وہ ایک عظیم تر قوم بننے کا خواب ہے جب سات سالہ بچہ کمپیوٹر پر گیم چھوڑ کر عمران خان کی تقریر سننا شروع کر دے تو پھر سمجھ لیا جائے کہ نہ وہ مر سکتا ہے نہ دب سکتا ہے اور یہاں سے انقلاب کا آغاز ہونا ہے ہجوم سے ایک قوم بننے کا زرہ حوصلہ صبر اور استقامت دکھانا باقی ہے ایران اور فرانس کے انقلاب کو مدنظر رکھنا ہے عوام کی طاقت بہت ہوتی ہے سامنے نطریہ پاکستان ہے پاکستان کی خود مختاری اور آزادی کا تحفظ ہے۔