بہادر آباد کے علاقے کوکن سوسائٹی میں ہفتے کی صبح 15 سالہ ریحان کو چوری کے شبے میں بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا۔ انتظامیہ کی نااہلی کی بنا پر لوگوں نے قانون ہاتھ میں لے کرخود فیصلے کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جو معاشرے میں بگاڑ اور بے راہ روی کا موجب بن رہا ہے۔ اگر کوئی شخص جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے لئے قانون کا راستہ موجود ہے لیکن چوکوں، چوراہوں اور سڑکوں پر خود عدالتیں لگائی جا رہی ہیں جو لمحہ فکریہ ہے۔ جن ملکوں میں آئین و قانون موجود ہو وہاں پر ماورائے عدالت قتل قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بالفرض 15 سالہ ریحان نے چوری کی تھی تو کیا اسے تشدد کرکے قتل کرنا ہی مسئلے کا حل تھا؟ اس کی پولیس رپورٹ کی جاتی یا پکڑ کر انتظامیہ کے حوالے کیا جاتا لیکن لوگوں نے دیدہ دلیری سے خود ہی فیصلے کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ کچھ برس قبل سیالکوٹ میں ایک ہجوم نے دو جڑواں بھائیوں کو تشدد کے بعد قتل کرکے ان کی لاشوں کو سربازار گھمایا تھا۔ اگر ان کے قاتلوں کو فی الفور سزا ملتی تو اس کے بعد ہجوم کے ہاتھوں ایسے واقعات کو روکا جا سکتا تھا۔ انصاف میں تاخیر ہی انصاف نہ دینے کے مترادف ہوتی ہے۔ اگر انصاف کے سلسلے کو تیز کرکے مجرموں کو ان کے کئے کی سزائیں جلد ملیں تو پھر معاشرے میں امن قائم رہے۔ حکومت کراچی قتل کیس کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لے کر ملزمان کو قانون کے مطابق سزا دے تو ایسے واقعات کو روکا جا سکتا ہے۔