کسی ملک کا بادشاہ بنا کپڑوں کے گھومتا تھا۔ مصاحب اور مداح ساتھ پھرتے تھے اور مسلسل صدا لگاتے تھے کہ اے لوگو‘ دیکھو بادشاہ نے کتنا پیارا پیرہن پہن رکھا ہے۔ کتنا خوبصورت ہے۔ عوام صدا دہرائے،دیکھو بادشاہ نے کتنا پیارا پیرہن پہن رکھا ہے‘ کتنا خوبصورت ہے۔ مصاحب کہتے ایسا لگتا ہے‘ پرستان سے آیا ہے۔ پریوں نے سیاہے۔ لوگ دہراتے ایسا لگتا ہے‘ پرستان سے آیا ہے‘ پریوں نے سیاہے ۔ مصاحب کے لئے دیکھو۔ اجلے نورانی پیرہن پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں۔ لوگ کہتے دیکھو‘ اجلے نورانی پیرہن ‘ کرپشن کا کوئی داغ نہیں‘ مصاحب کہتے‘ شفاف دامن سے بادشاہ کے خلوص کی چاندنی چھلک رہی ہے۔ لوگ دہراتے‘ شفاف دامن سے خلوص کی چاندی چمک رہی ہے۔ ناگاہ ایک بچہ در آیا اور دیکھتے ہی حیران ہوا‘ پھر چلایا۔ ارے دیکھو‘ بادشاہ نے تو کچھ پہن ہی نہیں رکھا ہے۔ بادشاہ کا مزا کرکرا ہو گیا۔ ہر طرف لیجو پکڑیو کی دہائی مچ گئی۔ بادشاہ وژن رکھتا تھا۔ حالات پر قابو پانے کا گر جانتا تھا۔ بچے کو کہ نام اس کا کسی نے میڈیا رکھ دیا تھا۔ بلایا‘ پیار سے چمکارا ‘ اس کی دونوں جیبوں میں ٹافیاں اور بسکٹ بھر دیے۔ ایک ہاتھ میں مٹھائی کا دونا دیا‘ دوسرے میں سکوں سے بھری گولک ۔ پھر ایک طرف ہٹ کر ڈنڈا نکالا۔ بچے کی آنکھوں کے سامنے اسے لہرایا‘ گھمایا اور پھر پیچھے کر لیا۔میڈیا نامی بچہ تھا تو بچہ ہی، پر سمجھداری کے گن اس میں پورے تھے۔ زمینی حقائق جان گیا۔ سلام کیا اور پھر خوشی سے نعرہ لگایا‘ دیکھو‘ بادشاہ کا لباس کتنا پیارا کتنا نیارا ہے۔ لگتا ہے پرستان سے آیا ہے۔ پریوں نے سیا ہے‘ دامن کتنا اجلا ہے کرپشن کا ایک بھی داغ نہیں۔ نورانی پیرہن سے بادشاہ کی ایمانداری خلوص اور سچائی جھلکتی ہے۔ پہلی بار اتنا اچھا لباس پہننے والا بادشاہ ملا ہے۔ درباری یہ سن کر خوش‘ حواری مست ہوئے بادشاہ بے فکر اورنچنت ہوا‘ بے لباسی کو پاک دامانی کی سند مل گئی۔ ٭٭٭٭٭٭ پچھلے دنوں اس آرڈیننس کا بہت چرچا رہا جو پہلے جاری ہوا‘ پھر واپس۔ اس میں کچھ چنیدہ صنعت کاروں کے ذمے تین سو ارب روپے کی’’چوری‘‘ معاف کی گئی تھی۔ اگرچہ بعض ارباب حقیقت شناس کا دعویٰ ہے کہ آرڈیننس جاری ہونے کے بعد واپس ہو ہی نہیں سکتا اس لئے جن کو فائدہ ہونا تھا ہو چکا لیکن ہمیں اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ البتہ اس کالم کا ذکر ضروری ہے جو پی ٹی آئی کے ایک سخت گیر حامی نے دو چار دن پہلے لکھا اور جس میں اس آرڈیننس کا شان نزول منکشف فرمایا گیا۔بتاتے ہیں کہ کراچی کی برق ساز و برق رساں کمپنی کے مالک نے ستر اسی ارب روپے چوری کئے تھے جو ایف بی آر کے نوٹس میں آ گئے۔ مالک نے والا جاہ سے استدعا کی۔ اتنی ذرا سی تو رقم ہے‘ معاف فرمانے کا حکم صادر فرما دیں۔ اس پر والا جاہ نے کابینہ سے مشورہ کیا۔ کچھ دیر وزیر بھی اپنے اپنے چنیدہ بندوں کی لسٹ لے آئے اور یوں رقم کی کل مالیت تین سو ارب ہو گئی اور پھر آرڈیننس جاری ہوا۔ ٭٭٭٭٭ اچھی بات ہے اچھے لوگ اچھے لوگوں کی دستگیری کا بہانہ ڈھونڈا کرتے ہیں۔ یہاں تو بہانے خود چل کر اجلاس میں آ گئے۔ ذرا یہ بھی سن لیجیے کہ یہ ستر اسی ارب روپے کی چوری کرنے والے لاڈلے کون ہیں۔ ان کا عروج پرویز مشرف کے دور سے ہوا جب موخر الذکر نے سرکاری کمپنی ان صاحب کو 985ارب روپے کے گھاٹے کے ساتھ بیچ دی۔ یعنی لاڈلے میاں کو میلے ہاتھ ہی لگ بھگ ایک کھرب کا فائدہ ہو گیا۔ پھر تو انہوں نے وہ ہاتھ مارے اور اتنے ہاتھ مارے کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ صاحب کے خلاف ملکی عدالتوں میں سینکڑوںمقدمات زیر التوا ہیں(اب تو یہ التوا مستقل ہی سمجھو) باہر کی بعض عدالتوں سے بھی مفرور اور بعض سے سزا یافتہ ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ ازحد صادق و امین ہیں۔ خیر سے اب تو حکومت بھی ان کی اپنی آ گئی۔ اب ستے نہیں‘ سات سو ستے ہی خیراں ہیں(پنجابی محاورہ ) ٭٭٭٭٭ وزیر ہستی موہوم عرف وزیر دفاع پرویز خٹک نے کہا ہے کہ ہم جانتے ہیں ملک قرضوں سے نہیں چلتے۔ آپ نوشہرہ کلاں میں ایک جلسہ خورد سے خطاب فرما رہے تھے۔فقرہ پورا نہیں ہے۔ پورا یوں ہوتا کہ ملک قرضوں سے نہیں چلتے‘ اسی لئے ہم قرضوں پر قرضے لئے جا رہے ہیں۔ دو تین معاصرین کی رپورٹ ہے کہ حکومت نے رواں سال مزید 13ارب ڈالر قرضہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ جبکہ رواں مالی سال کے دو مہینوں میں یعنی جولائی، اگست کے دوران ہی ڈیڑھ ارب ڈالر کا مزید قرضہ لیا جا چکا ہے۔ گویا نواز دور کے پانچ سال کے قرضوں سے دوگنا قرضے بس ایک سال ہی میں لے لئے جائیں گے۔ اسی لئے تو کہا کہ ملک قرضوں سے نہیں چلتے۔ایک تجزیہ کار معیشت پر آئے پیغمبری وقت کا خلاصہ بتا رہے تھے کہ شرح ترقی کا ہد ف کم ہوتے ہوتے تین اعشاریہ دو پر آ گیااور یہ بھی پورا ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ بنگلہ دیش میں یہ شرح سات فیصد ہے‘ نواز دور میں چھ فیصد سے کچھ کم۔ غیر ملکی سرمایہ کاری 58فیصد کم ہو چکی۔ کارخانے اور پلانٹ بند ہو رہے ہیں۔ لوگوں نے بنکوں سے سرمایہ نکال لیا ہے اور وہ سونا خرید رہے ہیں۔ یا اپنی جمع پونجی گھروں ہی میں رکھ رہے ہیں اور بھی بہت کچھ بتایا۔ ایک طویل داستان درد۔ پھر اشاروں کنایوں میں سوال کیا کہ کہیں پر کوئی پچھتاوے کا احساس بھی شاید ہے یا نہیں ہے۔ارے بھئی‘ ہو بھی تو کیا ع اب پچھتائے کیا ہوت‘ جب تبدیلی چگ گئی کھیت ٭٭٭٭٭ ڈینگی کے مریضوں کی تعداد دو ہزار سے کم ہے۔ حکومت ایک روز پہلے تک اس بات پر اڑی تھی۔ ایک ماہر گالی گلوچ نے کہا‘ تعداد زیادہ ہوئی تو استعفیٰ دے دونگا۔کل حکومت نے مان لیا کہ تعداد دس ہزار سے زیادہ ہے۔ استعفیٰ کی پیشکش کرنے والے ماہر گالی گلوچ اب یوٹرن لے کر اپنے ’’عظیم ‘‘ ہونے کا ثبوت دیں گے۔