منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر جو ہنگامہ آرائی اور بد تہذیبی سامنے آئی، اس نے پوری قوم کا سر شرم سے جھکا دیا۔ انٹرنیٹ کے اس تیز ترین دور میں نہ صرف ملک کے بچے بچے پر ہمارے ایم این اے صاحبان کا اخلاقی معیار پوری شرح و بسط کے ساتھ منکشف ہوگیا ہے بلکہ دنیا کے کونے کونے میں بھی یہ مناظر دیکھے گئے۔ حزب اختلاف کا حکمران دھڑکے پر تنقید کرنا اور احتجاج کرنا یقینا جمہوریت کا حسن ہے لیکن جب نوبت باہم دست و گریباں ہونے تک پہنچ جائے تو پھر ان حرکیات کو حسن کہنا لفظ حسن اور جمہوریت دونوں کی توہین ہے۔ ہنگامہ آرائی اتنی اشتعال انگیز تھی کہ اس کو لگام ڈالنے کیلئے ایوان میں تعینات سارجنٹ ایٹ آرمز کے اہلکار بھی اس کو رفع دفع کرنے کے دوران زخمی ہوئے جو بدمزگی کو قابو کرنے کیلئے تعینات ہوتے ہیں ۔ یہ پہلی بار نہیں بلکہ اسی ایوان میں قوم کے منتخب نمائندوں کے بیچ ایک دوسرے کے خلاف بارہا ایسے رکیک زبانی حملے سننے کو ملتے ہیں کہ آج کل کے بازاری لوگوں سے بھی ایسی بدتہذیبی شاذ ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ قومی اسمبلی یا ایوان زیریں ایک قانون سازجمہوری ادارہ ہے۔ یعنی قوم اور ملک کے وسیع تر مفاد میں اس ایوان کے منتخب ارکان اس کشادہ ایوان میں بیٹھ کر قانون سازی جیسے غیر معمولی امور کو سرانجام دیتے ہیں۔ بائیس کروڑ کی آبادی میں سے صرف تین سو بیالیس افرادکا اہمیت کے حامل اس ہائوس کا رکن بننا کوئی معمولی بات نہیں کہ اسے نظر انداز کردیا جائے لیکن اس ادارے کی ساکھ کو آئے دن مجروح کرنا ہمارے اہل سیاست کا طرہ امتیاز بن چکا ہے۔ میرے خیال میں ان لوگوں کو ووٹ ڈالنے والے بیچارے اب خود کو خائن تصور کریں گے کہ '' اس مقدس ہائوس کیلئے آخر انہوں نے یہ کس سیارے کی مخلوق بھیجی ہوئی ہے جن کے کرتوتوں کے سامنے ایک بیہودہ اور اوباش انسان بھی ہیچ دکھائی دیتاہے؟ ایوان کو مچھلی بازار دیکھ کر مجھے اقبال کی شہرہ آفاق نظم جواب شکوہ کا ایک شعر ( کچھ ترمیم کے ساتھ ) بہت یاد آیا: وضع میں تم ہو اوباش تو تمدن میں محدود یہ قانون ساز ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائے بیہود میں نہیں سمجھتا کہ اس دیس میں خود کو سیاستدان کہنے والوں کے ہاں لفظ سیاست کی کیسی تشریح ہے؟ اگر تو ان حضرات کی ڈکشنری میں سیاست بیت المال پر ہاتھ صاف کرنے کا نام ہے تو ان کی عقل پر ہمیں ماتم کناں ہونا چاہیے۔ اگر تو یہ لوگ سیاست میں وفاداریاں بدلنے کو جائز سمجھ بیٹھے ہیں تو بھی یہ ان کی بھول اور غلط فہمی ہے۔ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ایک سیاستدان کو اخلاق نام کی چیز کی چنداں ضرورت نہیں تو ایسے لوگ غضب کے قابل رحم ہیں۔جہاں تک میں نے سیاست کے بارے سنا یا پڑھا ہے تو اس کی معنی خلق خدا کی خیر خواہی اور بھلائی ہی کا دوسرا نام ہے۔ میرے علم کے مطابق سیاست ایک لحاظ سے نبوی پیشہ ہے اور نبوی پیشے میں انسان کا پھونک پھونک کر قدم رکھنا فرض ہے۔ مملکت خداداد کے ایوانوں کی آبرو پر کیچڑ اچھالنے کی یہ غلیظ ریت ویسے ہمارے ہاں ایک پرانی تاریخ رکھتی ہے تاہم اس کو بام عروج پر پہنچانے کا کریڈٹ بہرحال ہماری اس جماعت کی قیادت کے سر جاتا ہے جو پہلے ہی دن سے ایک مدنی ریاست بنانے کی دہائیاں بھی دیتی آرہی ہے اور ساتھ ساتھ اس جماعت کے رہنماؤں نے دشنام طرازی کرنے کو بھی اپنا وتیرہ بنایا ہوا ہے۔ ساتھ ساتھ سیاسی مغلظات رقم کرنے والا مورخ مسلم لیگ ن کے شہباز شریف صاحب اور پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل جیسے لوگوں کے نام بھی سنہری حروف سے لکھے گا۔ ایوان زیریں میں ہونے والے ان ہنگامہ خیز ایام کے تین دن بعد ملک کے ایک موقر اخبار نے اپنی پیشانی پر کیا کمال کی سرخی جمائی تھی کہ" قومی اسمبلی میں جنگ بندی ہوگئی ، ایوان کی کارروائی رولز کے مطابق چلانے کیلئے حزب اقتدار اور حزب اختلاف فارمولے پر متفق ہوگئے"۔ یہ سرخی پڑھ کر مجھے افسوس بھی ہوا اور ساتھ ساتھ ہنسی بھی آئی ۔ جنگ بندی یا سیز فائر جیسے الفاظ ایسے مواقع پر بولے اور استعمال کیے جاتے ہیں جب ایک دوسرے کے خلاف مسلح مورچہ زن جتھے مصالحتی کمیٹی کی جانب سے جنگ کو موقوف کرنے پر حامی بھر لیتے ہیں ، لیکن ہمارے ہاں یہ الفاظ اب قومی اسمبلی میں روز بپا ہونے والی شرمناک عملیات پر بھی صادق آتے ہیں۔ مولانا ابوالکلام کا ایک قیمتی جملہ یاد آیا کہ ’’سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ‘‘۔ مولانا پھر بھی خوش نصیب ثابت ہوئے کہ ایک ایسے دور میں جیئے جس وقت یہ مقدس عمل صرف دل سے محروم ہوا کرتا تھا لیکن ہم غضب کے بدنصیب ہیں کیونکہ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں سیاست بے چارہ بے دل ہونے کے ساتھ ساتھ آنکھوں کی حیا سے بھی عاری محروم ہوکر رہ گئی ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی یاد آئے: میں وہ محروم کہ پایا نہ زمانہ تیرا تو وہ خوش بخت کہ جومیرے زمانے میں آئیے ہم سب دعا کیلئے ہاتھ بلند کریں اور ساتھ ساتھ دو چار رکعت صلواۃ حاجت پڑھنے کی زحمت بھی کریں کہ ہادی ذات قوم کے ان نمائندوں کو ہدایت نصیب فرمائے ۔