طویل مدت سے سنگین شہری مسائل کے شکار شہرکی حالت بدلنے کے لئے وزیر اعظم عمران خان کے زیر صدارت کراچی ٹرانسفارمیشن پیکیج سے متعلق اہم اجلاس ہوا ہے۔ اجلاس میں متعدد وفاقی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے شرکت کی۔ اجلاس میں پیکیج پر پیشرفت اور کراچی و سندھ کے لئے متعدد منصوبوں کی منظوری دی گئی۔ پانچ ستمبر کووزیر اعظم عمران خان نے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے لیے '1100 ارب روپے مالیت کے ایک تاریخی پیکج' کا اعلان کیا جس میں وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں کا تعاون شامل ہوگا۔کراچی میں وزیر اعظم نے وزیر اعلی مراد علی شاہ اور گورنر سندھ عمران اسمعیل کے ہمراہ پریس کانفرنس میں مزید کہا تھا کہ اس ترقیاتی پیکیج کی مدد سے کراچی کے مرکزی مسائل جیسے پانی، نالے، سیوریج کا نظام، ٹرانسپورٹ اور سالڈ ویسٹ کا حل ڈھونڈا جائے گا اور اس پر عمل در آمد کرانے کے لیے 'پروونشل کوآرڈینشن امپلیمینٹشن کمیٹی' (پی سی آئی سی) کے قیام کا بھی اعلان کیا۔ گذشتہ برس مارچ میں بھی وزیر اعظم عمران خان نے اپنے دورہ کراچی میں 162 ارب روپے کے ترقیاتی پیکج کا اعلان کیا تھا ۔کراچی کے مسائل سابق حکومتوں کی عدم دلچسپی اور شہر پر کنٹرول کی تگ و دو میں مصروف قوتوں کی وجہ سے بڑھتے رہے ہیں۔عوام کی جانب سے جب کبھی احتجاج ہوا حکومتوں نے کسی نہ کسی پیکیج کا اعلان کر کے جان چھڑا لی۔فنڈز کہاں سے آنے ہیں، عملدرآمد کیسے ہو گا اور منصوبوں کی تکیل کیسے ہو گی اس پر سٹیک ہولڈر ہونے کے دعویدار فریق اتفاق رائے نہ پیدا کر سکے۔ سات برس قبل پاکستان مسلم لیگ نواز نے کراچی کے حالات کو بہتر بنانے کا وعدہ کیا تو حکومت قائم کرنے کے چند ماہ بعد کراچی میں آپریشن کا آغاز کیا جس کا مقصد شہر میں امن و امان کو بحال کرنا تھا۔اگلے برس جولائی 2014 میں حکومت نے ٹرانسپورٹ کی مد میں 15 ارب روپے کے منصوبے کا اعلان کیا جبکہ اس کے علاوہ ایم نائن موٹروے کے لیے 42 ارب روپے اور 'کے فور' پراجیکٹ کی مد میں 12 ارب روپے دینے کا اعلان کیا۔اگست 2017 میں اس وقت کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے دورہ کراچی میں اعلان کیا کہ حکومت شہر کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 25 ارب روپے مزید فراہم کرے گی۔ جب 2018 میں پاکستان تحریک انصاف نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو اس کے پیچھے ایک بڑا ہاتھ ان کی جماعت کو کراچی سے ملنے والے ووٹ تھے جس کی مدد سے انھوں نے شہر کی 20 میں سے 14 قومی اسمبلی کی نشستیں حاصل کیں اور صوبائی اسمبلی میں بھی 30 منتخب نشستیں حاصل کیں۔اس کامیابی کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے مارچ 2019 میں شہر کا دورہ کیا تو انھوں نے 18 منصوبوں کی مد میں 162 ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا جو ٹرانسپورٹ، پانی، سیوریج نظام اور دیگر اہم منصوبوں سے متعلق تھا اور اس وقت بھی ایک 'کراچی ٹرانسفارمیشن کمیٹی' قائم کی گئی تھی۔ کراچی شہر پہلے ایک جماعت کے ہاتھوں تباہ حال دیکھا گیا بعد میں صوبائی حکومت اور ضلعی حکومت کے درمیان تنازع نے شہریوں کی پریشانی دوچند کردی،شہری منصوبہ بندی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ شہر بہت پھیل گیا ہے، اس کے لیے جو انفراسٹرکچر چاہیے تھا اس میں توسیع نہیں کی گئی۔ برساتی نالے بند کر دیے گئے اور ان پر تجاوزات آ گئیں، اب وہ صاف نہیں ہو رہے جس سے پانی کا بہاؤ متاثر ہوتا ہے۔ کراچی میں نکاسی کا ایک فطری راستہ ہونا چاہیے جس کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔یہ تبھی ممکن ہے جب ہزاروں کلومیٹر کی ڈرینج لائن بچھائی جائیں اور پمپنگ سٹیشنوں سے سمندر تک لے جایا جائے جو کہ مالی اور فزیکل طور پر ممکن نہیں، لہذا نالوں سے ریت ، مٹی اور گندگی نکالی جائے اور ان کی چوڑائی کو بحال کیا جائے اور سمندر میں پھینکنے سے پہلے اسے ٹریٹمنٹ پلانٹ سے گزارا جائے۔ شہر میں کچرے کی حالت تشویشناک ہے۔ غریب لوگوں کی بستیوں سے لے کر پوش علاقوں کی مین شاہراہیں تک کچرا کنڈی بنی نظر آتی ہیں۔ کراچی کے شہری صفائی کا مطالبہ کرتے ہیں تو کوئی ادارہ چند دن تک نمائشی اقدامات کر لیتا ہے۔ اس کے بعد پھر وہی خاموشی‘ لوگوں کی املاک محفوظ ہیں نہ سرکاری اراضی محفوظ ۔سرکاری اہلکار سیاستدانوں اور کاروباری افراد کے ساتھ مل کر تجاوزات تعمیرکرواتے ہیں‘ چائنہ کٹنگ میں حصہ دار بنتے ہیں اورکثیر المنزلہ عمارات کی غیر قانونی تعمیر پر اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ بھتہ خوری اس شہر کو سانحہ بلدیہ ٹائون جیسے کئی دکھ دے چکی ہے لیکن پولیس اور صوبائی حکومت یکسر بے بس ہیں۔ چند ماہ قبل ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کراچی ٹرانسپورٹ سہولیات کے اعتبار سے ایشیا کے برے ترین شہروں میں شامل کر لیا گیا ہے۔ تحریک انصاف ملک میں بیرونی سرمایہ کاری بڑھانا چاہتی ہے‘ صنعتی سرگرمیوں کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ بے روزگاروں کو روزگار فراہم کرنا چاہتی ہے۔ قومی ترقی کے لئے کراچی شہر کو ترقی دینا ضروری ہے۔ کراچی کے مسائل کا تعلق ضلعی حکومت‘ صوبائی حکومت اور وفاق سے ہے۔ کراچی ٹرانسفارمیشن پیکیج اس وقت فائدہ مند ہو سکتا ہے جب تمام فریق فنڈز کے شفاف اور موثر استعمال کے لئے خلوص نیت کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے۔ یہ سیاسی نہیں انسانی مسئلہ بن چکا ہے جس کا حل بجا طور پر قومی خدمت ہو گا۔