کراچی کمیٹی کا نوٹیفکیشن جاری ہو چکا ہے۔ اس کمیٹی کا آفیشل نام اب صوبائی رابطہ اور عمل درآمد کمیٹی (PCIC)ہے۔ یہ کمیٹی کراچی کے زخموں کی کتنی رفوگری کرتی ہے؟ اس سوال کا جواب حال کے پاس نہیں۔ اس سوال کا جواب مستقبل ہی دے سکتا ہے کہ مذکورہ کمیٹی کراچی کو پھر سے قابل رہائش شہر بناسکتی ہے یا نہیں؟ پیپلز پارٹی پر جب بھی سیاسی دباؤ میں آتی ہے تب وہ سندھ کارڈ اٹھا لیتی ہے۔ اس بار بھی ایسا ہوا۔ مگر ملک چلانے والوں نے سندھ کی حکمران جماعت کو صاف الفاظ میں بتا دیا کہ کراچی پر کوئی سمجھوتا ممکن نہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیف منسٹر سندھ نے قو م پر ستی پھیلانے کی جو کوشش کی تھی وہ اس کے سامنے تب آئی جب اس نے مقتدر قوتوں کے سامنے سارے سیاسی ہتھیار پھینک دیے اور یہ بات تسلیم کی کہ کراچی پر کسی قسم کی سیاست نہیں کی جائے گی۔ اس دوران سید مراد علی شاہ نے سندھی میڈیا کو صاف الفاظ میں بتایا تھا کہ مذکورہ کمیٹی صرف مشورے کیلئے بنائی جا رہی ہے۔ ان مشوروں پر عمل کا اختیار صرف سندھ حکومت کو حاصل ہے۔ جب سندھ کے چیف سیکریٹری کے دستخط کیساتھ نوٹیفکیشن جاری ہوا تو کمیٹی کا نام members Provincial Coordination & Implementation Committee لکھا گیا تھا۔ اب سندھ حکومت کچھ بھی کہے مگرسچی بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے کراچی کے سلسلے میں وفاقی حکومت سے پاور شیئرنگ کی ہے۔اس نوٹیفکیشن کے جاری ہونے سے قبل پیپلز پارٹی نے بلاول بھٹو زرداری سے خوب گرجا کر بیانات جاری کروائے۔ انہوں نے پوری کوشش کی کہ وہ سندھ میں قومپرستی کو جگا کر وزیر اعظم کو بلیک میل کرنے کی کوشش کریں۔ مگر ان کا منصوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا۔ اس وقت پیپلز پارٹی حالت پشیمانی میں ہے۔ وہ اپنی ایک اور شکست کا زخم چھپانے کی کوشش میں ہے۔ کراچی کمیٹی صرف اس لیے نہیں بنی کہ وفاقی حکومت کے چند افراد کو کراچی میں کچھ پاور کی ضرورت تھی۔ کراچی کمیٹی بنانے کا اصل مقصد یہ تھا کہ وفاقی حکومت اتنا بڑا پیکیج سندھ حکومت کے حوالے نہیں کر سکتی تھی۔ وفاقی حکومت کو معلوم تھا کہ پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں آیا ہوا پیسہ ہمیشہ کرپشن کے کنویںمیں جاتا ہے۔ اس لیے اتنی بڑی رقم سندھ حکومت کے دینے کا مطلب تھا کہ کرپشن کو مزید تقویت دینا۔ اس لیے وفاقی حکومت اور مقتدر قوتوں میں مل بیٹھ کر فیصلہ کیا کہ کراچی پیکیج مل کر عمل میں لانا چاہیے۔اس حقیقت کو کون نہیں جانتا کہ ماضی میں کراچی کو متحدہ اور پیپلز پارٹی نے مل کر لوٹا ہے۔ کراچی کے سلسلے میں سب کو معلوم ہے کہ یہ شہر صرف سندھ کا دارالحکومت نہیں بلکہ ملک کا معاشی انجن ہے۔ اگر اس شہر کو مزید لوٹا گیا تو ملک کے لیے سنجیدہ مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ کراچی کو بدامنی کا گہوارہ بنانے والے کون تھے؟ کون نہیں جانتا۔ میاں نواز شریف اور مسلم؛ لیگ ن کچھ بھی کہے مگر کراچی کو امن سے ہم آغوش کرنے کا پورا کریڈٹ افواج پاکستان کو جاتا ہے۔ اس وقت کراچی والے بھول چکے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب کراچی میں صرف بارود اور جلتی ہوئی گاڑیوں کی بو تھی اور کراچی بند بازاروں کا شہر بن گیا تھا۔ کراچی کو تباہ کرنے کا ایجنڈا ملکی نہیں تھا۔ یہ سو فیصد غیرملکی منصوبہ تھا۔ اس منصوبے کے پیچھے ’’را‘‘ کا پورا نیٹ ورک کام کر رہا تھا۔ کراچی کو ان کے ہاتھوں سے چھڑانا آسان نہیں تھا اس مشکل اور صبر آزما مرحلے کو افواج پاکستان نے خوش ااسلوبی سے سرانجام دیا۔ جس وقت کراچی میں بدامنی کا راج تھا اس وقت دنیا کا ہر ملک اور ہر ادارہ یہ کہا کرتا تھا کہ ترقی کے لیے امن کا ہونا ضروری ہے۔ کراچی میں بدامنی کے دوران ایک سرمایہ دار نے کہا تھا کہ ’’جب بھی گولی کی آواز گونجتی ہے تب سب سے پہلا جو پرندہ اڑتا ہے وہ سرمائے کا ہوتا ہے‘‘ ۔ اس وقت بنگلادیش میں جو کاٹن کی انڈسٹری ہے وہ کراچی کے بدامنی کی دین ہے۔ جب کراچی کے سرمایہ دار بھتوں اور اغوا کی کوششوں سے تنگ آگئے تب انہوں نے اپنے کاٹن کی صنعت بنگلادیش منتقل کرنا شروع کی۔ مگر جب کراچی میں امن لوٹ آیا تو جانے والا سرمایہ رک گیا۔ اب کراچی میں امن ہے مگر اس پیمانے کی سرمائے کاری نہیں ہو رہی جس پیمانے کے سرمایہ کاری کی کراچی کو ضرورت ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ امن ترقی کیلئے بنیادی شرط ضرور ہے مگر امن سب کچھ نہیں ہوتا۔ امن کے علاوہ بھی اور بہت سارے عوامل ہوتے ہیں جو سرمایہ کاری کے لیے بیحد ضروری ہیں۔کراچی پیکیج ان عوامل کو عمل میں لانے کی کوشش ہے۔ کراچی میں اب بھی اتنی طاقت ہے کہ یہ شہر اپنے پیروں پر اٹھ کر ایشیا کا بہترین شہر بن سکتا ہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ اس شہر میں مسائل کے حل کے لیے ذاتی، گروہی، جماعتی مفادات سے بلند ہوکر محنت کی جائے۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ جب کراچی کے میئر مرحوم نعمت اللہ خان تھے تب صرف ایمانداری سے کام کرنے کی وجہ سے اس بزرگ شخص نے کراچی کی تاریخ کا رکارڈ کام کیا۔ آج بھی اہلیان کراچی اپنے مرحوم میئر کو محبت سے یاد کرتے ہیں۔کامیاب کام کے لیے سب سے بنیادی شرط نیت اور جذبے کے بعد ایمانداری ہے۔ کراچی کو جن چیزوں نے لوٹا ہے ان میں سر فہرست کرائم اور کرپشن ہے۔ اس وقت کراچی کے کرائم پر تو قابو پالیا گیا ہے مگر اب تک کراچی میں کرپشن کے خلاف جنگ نہیں لڑی گئی۔ کرپشن کراچی کے کونے کونے میں موجود ہے۔ پارکنگ کی جعلی پرچیوں سے لیکر چائنا کٹنگ تک ہر رخ میں کرپشن کی کوئی نہ کوئی صورت دیکھنے کو ملتی ہے۔ کراچی پیکیج اس شہر کو اوپر اٹھانے کی پہلی بڑی کوشش ہے۔ اگر یہ پیکیج سیاسی کشمکش کا شکار ہوگیا تو پھر ایسا موقعہ ملنا مشکل نظر آ رہا ہے۔ کراچی کمیٹی میں 10 ارکان پر مشتمل ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس پیکیج کو بہترین انداز سے عمل میں لانے کے لیے صرف صوبائی اور وفاقی حکومت کا ہونا کافی نہیں ہے۔ جب تک کراچی کے لوگ اس پیکیج کے عمل جو مانیٹر نہیں کریں گے تب ترقی کے منصوبے اپنی منزل حاصل نہیں کر پائیں گے۔ کراچی کمیٹی کو چاہئیے کہ وہ اپنے منصوبوں کی ساری تفصیل میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچائے اور اس سلسلے میں سوشل میڈیا کو بھی بھرپور طریقے اس استعمال میں لانے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ جب لاکھوں لوگ منصوبوں پر نظر رکھیں گے اور اپنی رائے دیں گے تو کمیٹی کو کام میں بہت آسانی حاصل ہوگی۔ عوام سے زیادہ بڑی قوت اور کوئی نہیں ہوتی۔ جس ترقی اور تحفظ میں عوام کا کردار نہیں ہوتا کہ ترقی اور وہ تحفظ حقیقی نہیں ہو سکتا۔ کرپشن کے لیے کراچی کی فضا بہت سازگار ہے۔ اس فضا کو ختم کرنے کے سلسلے میں عوامی تعاون کی ضرورت ہے۔ جس طرح کراچی میں کرائم کو ختم کرنے کے لیے فخرالدین جی ابراہیم نے سٹیزن پولیس لیزان کمیٹی کی بنیاد رکھی تھی؛ کراچی میں کرپشن کے خلاف بھی اس قسم کا ادارہ قائم کرنا ضروری ہے۔ اس وقت ایسے ادارے کی کراچی کمیٹی کو سخت ضرورت ہے۔ کراچی پر کسی بھی زباں بولنے والی آبادی کا مکمل حق نہیں۔ کراچی سب کا ہے۔ سب کراچی کے ہیں۔ کراچی کمیٹی کا دامن کراچی جتنا وسیع ہونا چاہئیے۔ کراچی کمیٹی میں کراچی کا ہر شہری ہمدردی کی حد تک بھی شامل ہوگا تو کمیٹی کی بنیاد بہت مضبوط ہوگی۔ بنیاد کے بغیر کوئی چیز کیسے کھڑی رہ سکتی ہے؟ کراچی کمیٹی کو مضبوط بنیاد کی ضرورت ہے۔