چیف جسٹس آف سپریم کورٹ جسٹس گلزار احمد نے کراچی سرکلر ریلوے کیس میں آئندہ سماعت پر پیش رفت رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔ کراچی کی آبادی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے،حکومت نے اس کے تناسب سے ابھی تک انتظامات نہیں کیے۔شہر بھر میں حکومت کی طرف سے عام مسافروں کے لئے کوئی گاڑی چلائی گئی ہے نہ ہی رہنے کی سہولیات ہیں۔ کراچی سرکلر ریلوے عام لوگوں کی سہولت کے لئے ایک بہترین منصوبہ تھا لیکن بدقسمتی سے اس کی بحالی کے لئے کوئی پیشرفت نظر نہیں آتی۔1969ء میں کراچی سرکلر ریلوے کا آغاز ہوا،تو 70ء اور 80ء کی دہائی میں اس ٹریک پر روزانہ 104ٹرینیں چلائی جاتی تھیں۔ کراچی کے ٹرانسپورٹروں نے ریلوے ملازمین سے ساز باز کر کے اس منصوبے کے خلاف سازشیں شروع کیں۔ یوں 1990ء میں اس منصوبے کی تباہی کا آغاز ہوا اور 1999ء میں اس منصوبے کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔ مختلف حکومتوں نے اس منصوبے کی بحالی کے لئے اقدامات کئے لیکن بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ 7جون 2013ء کو سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے اس کی بحالی کے لئے 2.6ملین ارب ڈالر کے منصوبے کی منظوری دی لیکن پھر بھی اس پر کام شروع نہ ہو سکا۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کراچی ریلوے سرکلر کی بحالی کے لئے خصوصی احکامات جاری کیے، گو حکومت نے ریلوے ٹریک قابضین سے واگزار کروا لیا ہے لیکن ابھی تک ریلوے بحالی کے آثار نظر نہیں آتے۔ حکومت سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں اس عوامی منصوبے کی بحالی کے لئے کام شروع کرے تاکہ کراچی کے شہری سفری اذیت سے بچ سکیں۔